۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
فزت ورب العکبه

حوزہ/ ذہن انسانی کی گردش میں یہ سوال ابھرتا ہیکہ اس قاتل کو نماز کے لیے کیوں جگایا اسکی نماز کا تو ویسے بھی کوئی فایدہ نہیں ہے۔ تو اس کا راز سربستہ روش ادراک میں یوں سماتا ہیکہ علی علیہ السلام اس ذات گرامی اور امام عالی وقار کا نام ہے جو اپنی حکومت میں کسی فاسق و فاجر و قاتل کو بھی نماز صبح کے وقت سوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تو لمحہ فکریہ اہل مودت کے لیے جنھوں نے شمع محبت کو قلب ویراں میں روشن کیا پھر بھی سفر معراج نماز سے غافل ہیں یہ  کیسے زیب دیگا۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | ماہ احساس و طاعت کے ارتقائی سفر میں جب ذکر آتا امیر بیان و سخن ، فرزند حضرت عمران، مولای متقیان ، غالب کل غالب علی ابن أبی طالب ع کا تو امت کے کاسہ احساس میں انکی سیرت کے جلوؤں کی خیرات کے معنوی موتی چمکتے دمکتے نظر آتے ہیں آپ کا ہر قدم احساس کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہے روز ضربت میں نماز شب کی تکمیل کے بعد جب اندھیرے اندھیرے ہی مسجد کوفہ کی جانب خراماں خراماں چلتے ہویے مسجد میں قدم رکھا تو آپکی نظر ابن ملجم‌ مرادی پر پڑی جو کہ اوندھا یا الٹا لیٹا ہوا تھا امام ع وقت کے تبلیغ دین کے احساس نے کروٹ لی اور اسکے قریب پہونچ کر اسے کروٹ سے لیٹنے کی تاکید فرمائی عین اللہ کی نگاہ حق شناس نے ابن ملجم کی چھپی ہوئی تلوار کو دیکھا نظر انداز فرماتے ہویے اسے وعظ و نصیحت فرمائی۔

داہنی کروٹ لیٹا کرو کے اس طرح علماء لیٹتے ہیں یا بائیں کروٹ لیٹا کرو کہ اس طرح حکماء لیٹتے ہیں یا سیدھا لیٹا کرو کہ اس طرح انبیاء لیٹا کرتے تھے اور اوندھا نہ لیٹا کرو کہ اس طرح شیطان سوتا ہے۔ یہ خدمت خلق کا احساس جو امامت کا خاصہ ہے چشم غیب سے جو دیکھ کر جانتے ہیں کی یہ قاتل ہے مگر پھر بھی اسے ہدایت دے رہے ہیں تاکہ آنے والی نسلوں میں خدمت عبدیت کا یہ احساس منتقل ہو جایے اور وہ منزل طاعت میں مکمل طور سے کامیاب راہوں کی جانب عازم سفر ہو جائیں۔

ذہن انسانی کی گردش میں یہ سوال ابھرتا ہیکہ اس قاتل کو نماز کے لیے کیوں جگایا اسکی نماز کا تو ویسے بھی کوئی فایدہ نہیں ہے۔ تو اس کا راز سربستہ روش ادراک میں یوں سماتا ہیکہ علی علیہ السلام اس ذات گرامی اور امام عالی وقار کا نام ہے جو اپنی حکومت میں کسی فاسق و فاجر و قاتل کو بھی نماز صبح کے وقت سوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تو لمحہ فکریہ اہل مودت کے لیے جنھوں نے شمع محبت کو قلب ویراں میں روشن کیا پھر بھی سفر معراج نماز سے غافل ہیں یہ کیسے زیب دیگا۔

اک پیغام اسکے جگانے میں یہ بھی ہیکہ علی علیہ السلام اس امام حکیم کا نام ہے جو اپنی نماز و عبادت کے لیے کسی غلام کے جگانے کا محتاج نہیں ہے جو آکر کہے الصلاة خیر من النوم۔ سرکار اٹھیے نماز سونے سے بہتر ہے پھر نماز کے وقت خواب غفلت میں پڑے ہویے حاکم کو یہ جملہ اتنا اچھا لگے کی شامل اذان کردیا جایے اس طرح شریعت سازی کا یہ گورکھ دھندا شروع کیا گیا جسکا خمیازہ امت مسلمہ آج بھی بھگت رہی ہے
مگر علی ع اس بیدار ذات کا نام ہے ملتوں کو حکومتوں کو اور خلافتوں تک کو جھنجھوڑ نے اور خواب خرگوش سے بیدار کرتا ہے۔

اسکے بعد مولا گلدستہ اذان پر پہ ونچے اور درد و کرب میں ڈوبی ہوئی آواز میں تکبیر کہی کہ کوفہ کا کوئی گوشۂ احساس ایسا نہ ہوگا جسکے ذوق سماعت سے یہ درد بھری آواز نہ ٹکرائی ہو تاریخ کے سنہرے اوراق پر یہ فقرہ موجود ہے کی مدینہ کے یتیم بچے یہ کہہ کر نیند سے چونک پڑے کی ابونا علی یوئذن ہمارا بابا علی اذان دے رہا ہے کوفہ کا ہر فرد اس آواز کے ساز سے حضرت علی ع کے قلب ونظر کے قرار و اضطرار کو محسوس کررہاتھا۔

کاسہ تاریخ میں دو اذانیں ہیں جنکا ملتا جلتا اثر ہے ایک صبح ضربت کی ایک صبح عاشور کی جبکہ دونوں نے اہل شعور کے لیے بیداری کے سارنگ کا کام کیا اب یہ تو تاریخ بتایے گی کہ کون وادی احساس میں بیدار ہوا اور کس کی شومئی قسمت نے بے حسی کے دلدل میں چھلانگ لگادی پر درد اذانوں کے دونوں منظر آل ابوطالب کے مرہون منت ہیں دونوں علی علیہ السلام ہیں بس فرق یہ ہیکہ ایک دادا علی علیہ السلام اور ایک پوتا علی اکبر ع ہے دونوں کی حیات طیبہ کی یہ آخری اذانیں تھیں اور یہاں امیران صبرو وفا کا سفر عشق و شغف الہی مزید آشکارا ہوتا ہے دونوں ترجمان راز مشیت کے فریضہ کو انجام‌ دیتے ہیں دونوں کے دہنوں سے سیل نور رواں ہے چشمہ شیریں کا فیض بے کراں جاری و ساری ہے اور آغوش شہادت میں سما جانے کی مکمل تیاری ہے ۔

رب کریم ہمیں آل محمّد کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے اور رب لوح و قلم اس احساس کو بیدار کردے جسکی امت اسلامیہ کو ضرورت ہے.آمین یا رب العالمین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .