۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
مولا علی (ع)

حوزہ/ شعرو سخن کے جیالوں کے لیے کی اصل قصیدہ گوئی نہیں ہے بلکہ عقیدہ کی تجارت نہ ہو نفس کی جنگ ہاری نہ ہو ذر اور زن کے دام فریب میں الجھا ہوا نہ ہو تب شاعر کا ایک شعر اور ایک بیت پر جنت میں ایک بیت میسر ہو گا۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | انیس رمضان کریم کی شب اپنے دامن میں ثروت احساس کا بیش قیمت خزانہ چھپا یے ہوئے ہے بس ذرا روش ادراک کا سفر منزل تکمیل میں قدم زن ہو جایے تو امت محسوس کریگی کی جب کشکول ہوس ذر اور زن کی دہلیز پر پھیلا دیا جایے تو احساس پر ہوس کا غلبہ انسان کو جہنمی بنا دیتا ہے اور یہی ضمیر اگر بیدار ہو جایے تو جہنمی سے جنتی بنادیتا ہے اس شب کی تنہائی میں جس شخص نے نفس کی جنگ لڑی اسے ابن ملجم مرادی کہتے ہیں جو شب بیداری کرتا رہا یہ لمحہ فکریہ ہے شب بیداری کرنے والوں کے لیے کی شب بھر دل میں شرف موددت آل عمران رہے نیتیں خالص رہیں چراغ عزاء شب بھر روشن رہے تو پروانہ اجالوں کے گرد حلقہ بنایے رکھیں ایسا نہ ہو کہ جوانی کی امنگیں شیطان کے وسوسہ اور کاسہ ہوس کا خالی ہو کر طلب کے لیے منھ کھول کر قعر مذلت میں ڈھکیل دیا جایے ورنہ جنت کی خوشبوؤں کے دامن میں آنے کے بجایے دوزخ کا ایندھن نہ بن جایے نفس کی جنگ سب سے بڑی جنگ ہے اسی کو روایات میں جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔

اس جنگ میں ابن‌ ملجم رات بھر سوچتا رہا کی کیا کرے کیا نہ کرے بار بار مصلی عبادت پر قدم رکھتا ہے مگر شیطان ہے جو وسوسہ دیکر بہکاتا چلا جاتا ہے خیالات کی بارہ دری میں کبھی شام کے اندھیروں میں درھم و دینار کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی تو کبھی قطامہ ملعونہ کے لب و رخسار ،زلف دراز ، حسن و جمال ، دل کو قلب کے معنوی رنگ میں بدل رہا تھا ناگن کا زہریلا عشق نیم مدہوشی کے سارنگ بجا رہا تھا اور دھیرے دھیرے ضمیر کو تھپکی دیکر سلا رہا تھا اس طرح خواب غفلت کی گہری نیند میں جا رہا تھا بسا اوقات امیر بیان و سخن کی بیعت اور کلمات و احسانات احساس کی وادی عقیدت کو گرماتے تھے مگر جب آنکھوں پر ہوس کی پٹی ہو خواہشات کا طوفان اپنے عفان پر ہو عشق مجازی کا حسن سر چڑھ کر بول رہا ہو ذر زن اور زمین کا غلبہ اسطرح چھاتا ہیکہ ضمیر اسیر بلا ہوجاتا ہے اور نتیجہ میں یہ شب بیداری صبح تک راہ قتل پر مکمل ہوئی اور نفس کی جنگ ہارنے کا مطلب یہ ہوا کہ جہنم کے آخری طبقہ کا مستحق قرار پایا جبکہ بعض روایات کی روشنی میں اور تاریخی حوالوں سے پتہ چلٹا ہیکہ ابن ملجم بلا کا شاعر تھا اور اس نے مدح حضرت امیر کاینات میں ایک مکمل قصیدہ بھی کہا تھا یہاں لمحہ فکریہ ہے شعرو سخن کے جیالوں کے لیے کی اصل قصیدہ گوئی نہیں ہے بلکہ عقیدہ کی تجارت نہ ہو نفس کی جنگ ہاری نہ ہو ذر اور زن کے دام فریب میں الجھا ہوا نہ ہو تب شاعر کا ایک شعر اور ایک بیت پر جنت میں ایک بیت میسر ہو گا ابن‌ملجم کی تاریخ شاعری کے شعور و احساس کو ٹہوکا دینے کے لیے کافی ہے اور جس طرح آج محافل و مجالس کا رنگ ہے کہیں نہ کہیں کاسہ ہوس میں ثروتوں کی طلب نے عقیدوں کی تجارت کا جو بازار گرم کیا ہے بس خدا ہی بجایے تو بچیں ورنہ ہلاکت ہی مقدر بن جایے اگر لباس تقوی اخلاص عبا دوش بر عقیدہ نہ ہوا تو تاریکیاں اپنے دامن میں لپیٹ لیں گی مدحت کے سفر نے فردوس بریں کا مستحق بنایا پر خواہشات نفس کے حصول نے جہنم کے آخری طبقہ۔ تک ڈھکیل دیا تاریخ ورق احساس لیے نگاہ شعور کے سامنے سخن طراز ہے اب ذوق سماعت اور قلب مطہر مستحکم ہے تو کامرانی تقدیر کی داسی ہے ورنہ ناکامی جہنم کی باسی بنا دیگی

جاری ..................

تبصرہ ارسال

You are replying to: .