منگل 29 جولائی 2025 - 13:36
کربلا راز زندگی رمز بندگی 

حوزہ/ اگر راز زندگی اور رمز بندگی کو سمجھنا ہے تو معراج کا سفر ، تبسم کا ہنر ،سجدہ کی ادا ، نصرت کی لپک ،شہادت کی طلب،صبر کا معیار ، اسیری میں استقامت ، ظلم کی ظلمت میں چراغ حریت ،بیواوں اور یتیموں کی کفالت ،جلے ہوئے خیموں کی قناتوں پر نماز شب اور اک صبور و شکور قوم کی تربیت نصرت اور حفاظت بھی راز زندگی اور رمز بندگی کا ثبوت ہے ۔

تحریر: مولانا سید گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی I میں ایک تنہا مسافر کشکول طلب پھیلائے ہدایت کی تلاش میں سکون کی جستجو میں اختلاجی اور اضطرابی کیفیتوں سے گزرتا ہوا زمین زندگی کے ریگزاروں پہ شعور و آگہی کے سیماب و زر کو تلا شتا رہا کبھی سمندروں کے طوفانوں کے عفان پر اپنی کشتی حیات کو کیھپتا ہوا ساحل نجات کو ڈھونڈ تا رہا تو کبھی شب ظلمت میں شمع ہدایت کی طلب مجھے دربدر پھراتی رہی جنگل و بیابانوں کی خاک چھاننا رہا خاردار راہوں پر آہیں بھرتا ہوا چراغ امید کے اجالوں میں صعوبت سفر برداشت کرتا رہا کبھی رشتوں کے جنجال میں سماج کے جال میں پھنس کر اتنا بے بس و لاچار ہوا کہ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ( 1)

(بے شک گھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کا ) مگر مجھے مکڑی کا کمزور ترین جالا بھی مضبوط تر نظر آنے لگا میں اپنی بے خودی میں خدا تک پہونچنا چاہتا تھا مگر اس کے لئیے راز زندگی اور رمز بندگی کا ادراک کرنا ضروری تھا میرا راہوار عشق و شعور معرفت کی جن وادیوں کی جستجو میں تھا وہ عصمت کا چشمۂ شیریں تھا جو یقینا میرے عطش معرفت کو سیرابی عطا کرسکتا تھا مگر اس بلندی تک میرا پستی والا وجود رسائی کیسے حاصل کرے میں اسی جستجو میں تاریخی دستاویز کی جانب بڑھا تو کبھی احادیث و سیر کی جانب راز زندگی کو جاننے کے لئے ہم نے ہر آواز کو سنا ہر احساس کو بیدار کیا ہر راہ ادراک کا راہی بنا ہر روش فکر کو پروان چڑھایا ہر وادی خیال میں ٹامک ٹوئیاں لگاتا رہا ذہن کے ہر زاویے میں بس ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا راز زندگی اور رمز بندگی کی حقیقت سے آشنائی کیونکر ملےگی کہ اچانک فلک غم پر محرم کا چاند نظر آیا ہر سمت غم کا غبار غالب تھا فضائیں بوجھل تھیں گلشن کی بہاریں خزاں رسیدہ ہو چکی خوشبوؤں کے شہر خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے تھے لذیذ غذاؤں کی لذتیں تیاگی جا چکی تھیں قلب و نظر میں بے چینیاں تھیں فطرت کا چہرہ کھملایا ہوا تھالب سوکھے رخسار پھیکے اور آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں سیاہ بادلوں کی چادر اوڑھے ہوئے غم کا آسمان، گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی زمینیں ۔ گردش وقت کی الجھی ہوئی مغموم دراز زلفیں شمس و قمر کا چہرہ بھی فق نظر آرہا تھا صحیفہ کائنات پر جب میری نگاہوں نے اس حزن و ملال کی عبارتیں کندہ دیکھیں تو فکر میں ایک بھونچال سا آگیا کہ وہ کون سا بندہ خدا ہے جس کی شہادت نے زمین و آسمان کو خون کے آنسوؤں رلا دیئے بس وہی شخص ہے جسکی راز زندگی اور رمز بندگی اگر جان لی جائے تو انسان حقیقت شناس بھی ہوگا اور ساحل نجات سے ہمکنار بھی جسکی دردناک ،قیامت خیز ، آواز استغاثہ (هَلْ مِنْ ناصِرٍ يَنْصُرُنا هَلْ مِنْ مُغيثٍ يُغيثُنا)(2) در حقیقت طلب نصرت کی پکار نہیں تھی بلکہ یہ واضح کرنا تھا کہ راز زندگی شہادت اور نصرت امام وقت میں چلے آنا ہے اسکا ثبوت یہ ہیکہ اک ششماہ شیر خوار نے گہوارے میں مچل کر نصرت امام پر لبیک کہا جو چلنا نہیں جانتا تھا کہ چل کر جاتا تو مچل گیا اور بتایا کہ نصرت امام میں جب چل نہ سکو تو مچل جاؤ مراد کو ضرور پہونچ جاؤگے لہذا جو بول نا پایا وہ جھولے سے تڑپ کر اپنے آپ کو پیش کر رہا تھا اور خیمہ سے میدان کا سفر قرآن ناطق بنکر دست حسین کے مصلے پر کیا تاکہ نصرت امام اور شہادت حق ہی راز زندگی ہے ثابت کردیا جائے سلام ہے اس مجاہد نمازی پر جو استغاثہ کی اذان پر جھولے سے منھ کے بل گرا کر خاک خیمہ پر تیمم کرتا ہے اور امام عصر و الزمان کے ہاتھوں پر انتخاب جا نماز کرتا ہے چشم عقیدت کو میدان میں کھولا اور شہادت کی عبادت کی نیت فرمائی خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر تکبیر الہی کہتا ہے اور تین بھال کا قد سے بڑا اور اپنے وزن سے زیادہ وزنی تیر ہمک کر اپنے گلے پر لیتا ہے تاکہ امام عصر کی بوقت عصر نصرت و حفاظت کا فریضہ ادا کرکے عالم انسانیت کو نصرت امام عصر کا سبق پڑھا دیا جائے اور تیر کھا کر لبوں پر تبسم سجا یا تاکہ موت کی شیرینی جسکا دعویٰ قاسم کے تکلم سے ہوا تھا الموت عندی احلی من العسل( 3)اسکا اظہار تبسم سے ہوا تاکہ شہادت اور نصرت حق ہی راز زندگی اور رمز بندگی ہے یہ بات امت کو سمجھائی جا سکے ۔

ادھر مملکت صبر کا تاجدار زخموں سے چور چور خاک و خوں میں غلطیدہ تیروں پر معلق جسم سے رستا ہوا لہو ارض نینوا کے ذروں کو اکسیر و شفا کی خیرات بانٹتےہوئے اپنے پورے بدن کی قوت کو سمیٹ کر سر کو سجدہ الہی کی جانب لے جارہا تھا جہاں کائنات کے تن بدن میں ارتعاش تھا وہاں فرزند علی و بتول کے وجہ اللہی چہرے پر مکمل اطمینان ہے اور جب زخمی جبین عقیدت کو دہلیز محبت الہی پر رکھا اور وحدت کی جلوہ نمائی کا اظہار خشک ہونٹوں پر اس طرح فرمایا کہ سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى وَبِحَمْدِهِ"(3) سوکھی ہوئی زبان سے کیا جانے والا ہمہمہ اس دل نشیں آواز و انداز میں کیاکہ ہاتف غیبی کی ندا مدح سرائی کرتی ہوئی آئی

(يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً)(4)

اے نفس مطمئنہ پلٹ آ اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تیرا رب تجھ سے راضی ہوا اب تو بھی اپنے رب سے راضی ہو جا

قسم خدا کی قدرت کا یہ لہجہ ناز برداری ہے رمز بندگی کی حقیقی جزا ہے کیونکہ عبدیت کی پوری کائنات کاسۂ طلب پھیلا کر رضایت رب کی بھیک مانگتی ہے مگر جس نے اپنے حسن فکر حسن عمل حسن ادا سے راز زندگی اور رمز بندگی کو ثابت کیا اسکا حق تھا کہ اس لہجہ میں ناز برداری کی جائے کیونکہ جب فرزند ذبیح و خلیل وارث مسیح و کلیم خنکی چشم سیفُ اللّٰهِ المسلول( 5)،جگر گوشہ بتول و رسول پشت رسالت پر عین حالت سجدہ میں جائے اور پابند وحی الہام نبی جسکی صداقت تکلم پر وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ (6)کا پہرا لگا ہو وہ سجدے کو طول دے جبکہ زبان پر ذکر الہیٰ اور ذہن میں تصویر حسینی ہے کسی پرچم دار توحید میں اتنی ہمت ہیکہ اس تصویر حقیقت کی تفسیر پر شرک کا فتویٰ لگائے حالانکہ یہ ناز برداری نہیں تو کیا ہے کی رسول مقبول طول سجدہ کے محکوم الہی ہیں گویا ناز برداری کے دو ہی نقشہ چشم تاریخ نے دیکھے ہیں

رسول سجدہ میں پشت پر حسین ع اور ادھر ریگزار گرم کربلا اور زخموں سے چور ساجد و مجاہد کی پیشانی کا سر سجدہ خالق میں اور راضیہ مرضیہ کی سند ناز برداری کا الہی اعلان کربلا کی فضاؤں پر تحریر یہ عبارت راز زندگی اور رمز بندگی کا کھلا ہوا مفہوم ہے جو لباس مصداقیت زیب تن کئے ہے ۔ الصلاة معراجُ المؤمنِ" (7)نماز معراج مومن ہے سبحان الذی سے جسکا آغاز ہوا اس تصویر کی حقیقت کو عاشورہ کے آخری سجدہ میں ذکر سجدہ کی تجلی میں دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ معراج کی انتہا ادن منی ہے تو اس سجدہ کا نشاں ارجعی الی ربک ہے اور قرب مکانی و معنوی میں جہاں دو کمانوں کا فاصلہ ہوا تو یہاں راضیہ و مرضیہ کی دو لفظوں کی کمانوں کا عظیم فیصلہ ہے ۔ اور اگر معراج میں لنریہ من ایاتنا کا ہدف حقیقی ہے تو ادھر فادخلی فی عبادی کی سند توصیفی ہے جو راز زندگی اور رمز بندگی کی قبولیت کی ضمانت ہے جہاں بعبدہ کہکر لِنُرِيَهُ کی تعلیل پیش کی گئی تاکہ راز زندگی کو آيَاتِنَاکے آئینہ میں دکھایا جا سکے اور رمز بندگی کا اعلان ہو جائے، تو جسے عرش پر رؤیت آیات کا شرف ملے وہ رسول مقبول ہیں اور جسے فرش کربلا پر فادخلی فی عبادی کی شکل میں معراج عطا کی جائے اس سورما کا اسم گرامی حسین ہے عبدیت کو آیت میں مقدم کرکے معراج میں بلایا جاتا ہے اور ادھر عبادی کے دائرے کو موخر کرکے سند معراج دی جاتی اور نماز معراج مومن ہے اسکا ثبوت صرف ارض نینوا پر دیا جاتا ہے اب یہ صاحبان ضمیر پر منحصر ہیکہ وہ بعبدہ کی ضمیر کا مرجع اسریٰ(8) کے سفر میں آئینہ عبدیت میں رکھیں اور تصویر فادخلی کے فریم میں لگا دیں تاکہ نانا اور نواسہ کی عبدیت سجدہ الہی کی مرہون منت قرار پائے اور یہی لمحہ فکریہ ہے اہل شعور و معرفت کے لئے تفسیر بالرائے کے پہلو سے دامن بچاتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہوں کہ۔ دونوں آیتوں کا ایک گہرا ارتباط ہے راز زندگی اور رمز بندگی سے بس فکر کے دریچے واں ہوں اور متحجر العقول افراد (مسطرہ) پیمانہ سے آیت کی تفسیر ناپنے کا ہنر چھوڑ دیں اور آزاد خیالی کو کفریات کا طعنہ نہ ملے تو لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے مگر بس عَلَىٰ قَدْرِ عُقُولِهِمْ (9) کی روایت کی قدر نے قد فکر کی اڑان کا دائرہ معین کردیا اس لئے تحریر کی حد فاصل یہی ہیکہ راز زندگی اور رمز بندگی نہ معراج کا ادراک کئے بغیر سمجھ سکتے ہیں اور نا ہی راز زندگی اور رمز بندگی کربلا کے بغیر سمجھ سکتے ہیں چونکہ معراج میں بلانا راز زندگی تھا اور سب کچھ دکھانا رمز بندگی تھا اسی طرح کربلا تک آنا راز زندگی ہے اور ارجعی کے امر الہی کے جواب میں فادخلی عبادی کا مژدہ رمز بندگی ہے چونکہ دونوں سفر کی یاد کا تحفہ نماز و سجدہ قرار پاتا ہے لہذا معراج کی رات اور کربلا کا دن شعور و ادراک کے دائرے میں اگیا تو ہم کامیاب زندگی کے حقدار بن جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ خلاصہ کلام یہ ہیکہ اگر راز زندگی اور رمز بندگی کو سمجھنا ہے تو معراج کا سفر ، تبسم کا ہنر ،سجدہ کی ادا ، نصرت کی لپک ،شہادت کی طلب،صبر کا معیار ، اسیری میں استقامت ، ظلم کی ظلمت میں چراغ حریت ،بیواوں اور یتیموں کی کفالت ،جلے ہوئے خیموں کی قناتوں پر نماز شب اور اک صبور و شکور قوم کی تربیت نصرت اور حفاظت بھی راز زندگی اور رمز بندگی کا ثبوت ہے ۔

رب کریم ہماری اس کاوش و کوشش کو قبول و مقبول فرمائے

آمین یا رب العالمین

__________________________________

حوالہ جات:

1)سورہ العنکبوت آیت نمبر 41

2) مقتل ابی مخنف ص146 اللھوف علی قتلی الطفوف سید ابن طاؤوس ص79

3)الشيخ عباس القمي، نفس المهموم، صفحہ 155

4) وسائل الشیعہ ج4باب4 ح9016

5)سورہ الفجر آیت 27,28,

6). مستدرك سفينة البحار ج 5 ص 321

7) سورہ النجم آیت 3,4

8)مستدرك سفينة البحار - الشيخ علي النمازي الشاهرودي - ج 6 - الصفحة 343

9)سورہ الاسراء آیت 1

10)كافي شیخ کلینی رح(كتاب الأصول، حديث 15):

روايت الإمام جعفر الصادق عليه السلام

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha