۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا گلزار جعفری

حوزہ/روضہ سلطان دیں کے عدد ١٢٢٥ ہیں جس سے معلوم‌ ہو تا ہے کہ یہ عمارت ١٢٢٥ میں تعمیر کی گئی تھی گویا اس وقت دالان کی عمر ٢١٦ دوسو سولہ برس کی ہوگئی ہے اور گزرتی ہوئی صدیاں جن کی عظمت کی ثناء خواں ہیں وہ ذات عالی وقار امام زادہ بر حق قدسی صفات حضور میراں سید حسین خنگسوار رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | 

ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا بل احياء عند ربهم يرزقون ( آل عمران ١٦٩ )
جو لوگ راہ خدا میں قتل کردیے گئے ہیں ان کو ہرگز ہرگز مرہ گمان نہ کرنا بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کی جانب سے رزق پاتے ہیں۔ 

آیت کی نورانیت اور عقل کی روشنی میں کسی ذی شعور پر  یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہے کہ شھید راہ خدا زندہ و پائندہ ہوتا ہے۔ جس کی عظمتیں وادی ادراک میں سما نہیں سکتی گرچہ شمع علم کی روشنی میں اس کے فھم و ادراک کی سعی مسلسل کی جا سکتی ہے۔ 
 بہت دن سے کچھ لکھنے کا ارادہ تھا مگر چونکہ بزرگان کے علمی سرمایہ اور فکری تاریخی کاوشوں کی موجودگی مانع ہوئی کہ تفصیل سے کچھ لکھیں مگر خدام سیدزادگان کی جانب سے پیش کیے گئے رشحات قلم میں ایک گوشۂ کی تشنگی نے قلم اٹھانے کا حوصلہ بخشا۔ 

شوکت خنگسوار 
مؤلف  عزتمآب جناب بندہ  حسن صاحب 
شعاع خنگسوار  
 مؤلف  عزتمآب جناب ماسٹر شاہد حسین  صاحب
گلدستہ خنگسوار 
مؤلف عزتمآب جناب ماسٹر وفادار حسین صاحب وفا 
حالات تاراگڑھ

مؤلف پنچایت سیدزادگان تارہ گڑھ اجمیر یہ سبھی کاوشیں اپنے زمانہ اور معیار پر ایک علمی سرمایہ کی حثیت رکھتی ہیں جن کی قدروقیمت کا اندازہ اہل علم ان کتابوں کے مطالعہ سے لگا سکتے ہیں۔
  راقم الحروف کی نظر میں یہ بیش قیمت سرمائے ہیں بلکہ ان کے دقیق مطالعہ کے بعد جس گوشۂ تشنگی کا احساس پیدا ہوا وہ آستانہ عالیہ میں نصب شدہ کتبات ہیں جن کا مکمل طور پر ترجمہ اور تشریح کسی کتاب میں بظاہر ہمیں نہیں ملی اگر کسی کی نظر عمیق سے گزری ہو تو مطلع فرمادے۔ عین نوازش ہوگی ۔ 
بس کچھ لکھنے کی حسن نیت اور تکرار سے احتراز کی ملی جھلی صورت یہی تھی کہ ایک قسط وار مضمون لکھ دیا جائے جو نئی نسل کے خدام سیدزادگان کے لیے مشعل راہ ہو سکے لہذا آغاز کرتے ہیں اس نظم سے یا صلوات سے جس کے ابتدائی چھ مصرع ہر روز شب میں کواڑ معمول کے وقت بآواز بلند اور با صوت آہنگ ورد زباں کی جاتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کی یہ سبھی خدام کو یاد ہونا چاہئے تاکہ باری دار اپنے حق کو شب کے اس حصہ تک مکمل کر کے دن بھر کی غلطیوں کی معافی کا بھی سبب قرار پا جائے  بقیہ چھ مصرع بھی بڑے معنی خیز ہیں ان اشعار کا شعری ترجمہ ہونا چاہیے اس دیرینہ تمنا کا اظہاربعض خدام شعراء سے کیا گیا مگران کی بے پناہ مصروفیات کے سبب جب مایوسی دامن گیر ہوئی تو استاد محترم جناب سید  حمید الحسن سیتا پوری  ابن وحید سے شعری ترجمہ حاصل کیا گیا انھوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر حقیر کی خواہش کو پورا کیا اور بہت خوبصورت ترجمہ سلیس زبان میں لکھ کر اپنی عقیدت کا اظہار فرمایا ہم قلب کی اتھاہ گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
  یہ بارہ مصرعوں پر مشتمل نظم سرکار میراں سید حسین خنگسوار رحمۃ اللہ علیہ کی عظمتوں کو بیان کررہی  ہے  گرچہ شاعر کی حسن عقیدت نے عصمتی جمالیاتی صفات حمیدہ کا ایک جزئی مصداق بھی قرار دیا ہے جس سے غلو کی بو آتی ہے مگر  الولد سر لابیہ کے پیمانہ سے ناپا جائے تو درجہ شہادت اور نور علی نور کہ آپ کا تعلق آل محمد کے پاکیزہ گھرانے سے ہے آپ بھی شجرہ طیبہ کی شاخوں سے نکلی ہوئی شاخوں پر ہی اپنے نسب کا آشیانہ سجائے ہیں لہذا  یہ صفت حاکم دنیا و دیں یا محافظ زمین و سماں یا مشکل کشائے انس و جاں  سب با عنوان عرض آپ کی ذات میں موجود ہیں گرچہ با عنوان طول غلو کا أبرز پہلو ہے مگر شاعر کے حسن عقیدہ کا اظہار ہے جو قابل نقد و تبصرہ بھی ہے 
 مھبط نور مبین کو اگر فرشتوں کے نزول کی جگہ تسلیم کیا جائے تو قرین عقل اور عظمت شھید کے عین مترادف ہے جو یقینا مراد شاعر ہے  اسی طرح ایک لفظ اور بھی اس صلوات کے پڑھنے والوں کے لیے قابل توجہ ہے  قاتل کفاراں اصل میں کافر کی جمع کفار آتی ہے کفاراں کوئی جمع نہیں ہے بلکہ اصل لفظ یوں ہے  قاتل کفار۔   ان سید حسین مہ جبیں یہاں آن وہ کہ معنی میں ہے اسی طرح ما قبل آخر مصرع میں عقل کل کا لفظ ہے جو ذات احدیت کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور ذات رسالت کے لیے بھی مگر روضہ سلطان دیں اور گفت ہاتف یعنی نداء غیبی  قرینہ ہے ذات احدیت کا جس نے بذریعہ الہام ذات رسالت کے وسیلہ سے تاریخ تعمیر کی جانب اشارہ فرمایا اسطرح سرکار میراں نور اللہ مرقدہ کی عظمت ومنزلت خدا و رسول کی نظر میں کس قدر بلند ہے  کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے۔
آئیے مزار شریف کے پائیتی دالان کے بیچو بیچ چسپاں شدہ نظم کا ترجمہ پیش کیا جائے جبکہ اس دالان کے بھی سات دروازہ  مزار شریف کی جانب کھلے ہوئے ہیں اور تین دروازے دوسری جانب ہیں جن میں دو بند ہیں اور ایک بوقت ضرورت کھلتا ہے۔ 
                  نظم اس طرح ہے

شہسوار ملک دنیا شہباز ملک دین
قاتل کفار ان سید حسین مہ جبیں 
ترجمہ 
آپ ملک دنیا کے شہسوار ہیں اور ملک دین کے شہباز 
کفار کے قاتل ہیں وہ سید حسین جنکی چاند سی پیشانی ہے

منبع جود و سخا کان فتوت والتقا 
 واقف سر ھدی آن مھبط نور مبین 

آپ سخاوت کا سر چشمہ اور جواں مردی اور تقوی کا خزانہ ہیں 
آپ ہدایت کے رازوں سے واقف اور آپ ہی وہ ہیں جہاں روشن نور کا نزول ہوتا ہے

سرور ہر دو جہاں مشکل کشاءانس و جان
مغفر کون و مکاں آں حاکم دنیا و دیں  

دونوں جہاں کے مددگار جن و انس کے مشکل کشا 
(مغفر خود کو کہتے ہیں )
آپ زمین و آسماں کے محافظ اور دین و دنیا کے حاکم  

خانقاہش پر عرف از عطر جنت بر طرف 
مرقدش بردہ شرف چون طور پر کوہ زمیں 

آپ کا آستانہ معرفت سے لبریز ہے جبکہ جنت کی خوشبو اس کے مقابل میں ایک طرف
آپ کا مزار شرف کی اس بلندی پر ہے جیسے اس زمین پر کوہ طور کو شرف حاصل  ہے 

فرش دروازہ ببین از سنگ مرمر شد مزین 
شد مرتب بر زمیں صفحہ اش در ثمین

 اس آستانہ عالیہ کے فرش اور دروازہ کو دیکھو سنگ مرمر سے کس طرح مزین ہے 
آپ کا آستانہ زمین پر اس طرح مرتب ہے جیسے کسی صفحہ پر قیمتی نگینہ

از پی تاریخ او کردم سوال از عقل کل
گفت چو تاریخ او از روضہ سلطان دیں

اس عمارت کی تاریخ تعمیر کے لیے جب میں نے عقل کل سے سوال کیا تو 
ہاتف غیبی کی ندا آءی روضہ سلطان دیں سے پوچھو 

اشعار کا با صورت اشعار اردو ترجمہ بھی ملاحظہ فرمائیں
شہسوار ملک دنیا بادشاہ ملک دیں 
قاتل کفار وہ سید حسین مہ جبیں 

معدن تقویٰ 'جواں مردی'سخاوت اورکرم
واقف راز ہدایت منزل نور مبیں 

سروردونوں جہاں مشکل کشاء انس و جان
باعث غفران عالم زینت دنیا و دیں 

عطر درگاہ منور کی مہک ہے بے مثال 
جس کےآگےکچھ نہیں ہےخوشبوئے خلدبریں 

جو پہاڑوں پر ہے کوہ طور کو حاصل شرف 
وہ شرف ان کی لحد کا ہے جہاں میں بالیقیں 

سنگ مرمر سے مزین فرش دروازہ کا ہے 
جیسےبکھرےہوں زمیں پرہرطرف درثمیں

عقل کل سےجب کیا تاریخ دالاں کا سوال 
بولا ہے تاریخ مثل روضۂ سلطان دیں 

ہےسعی گلزار کی ہو فارسی کا ترجمہ 
نظم میں یوں ترجمہ کی کیفیت آتی نہیں

روضہ سلطان دیں کے عدد ١٢٢٥ ہیں جس سے معلوم‌ ہو تا ہے کہ یہ عمارت ١٢٢٥ میں تعمیر کی گئی تھی گویا اس وقت دالان کی عمر ٢١٦  دوسو سولہ برس کی ہوگئی ہے اور گزرتی ہوئی صدیاں جن کی عظمت کی ثناء خواں ہیں وہ ذات عالی وقار امام زادہ بر حق قدسی صفات حضور میراں سید حسین خنگسوار رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔

 
                                    جاری

تحریر: خطیب شعور مولانا گلزار جعفری

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .