خادم درگاہ تاراگڑھ اجمیر شریف راجستھان و معروف خطیب مولانا گلزار جعفری نے کہا کہ عالمی شہرت یافتہ آستانہ عالی وقار سلطان الہند حضور پر نور حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری رحمتہ اللہ تعالی جہان عقیدت مندوں اور ضرورت مندوں کی قطار برس کے بارہ ماہ لگی رہتی ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں عاشقان غریب نواز دور دراز سے ملک و بیرون ملک سے آکر جام عقیدت نوش فرماتے ہیں اور یہ تعداد گءی گنا بڑھ جاتی ہے جب ماہ رجب کا چاند فلک مودت پہ نمودار ہوتا ہے لیکن اس بار عرس پر نور کے موقع اور روز وصال چھ رجب المرجب کو جو شرمناک اور اندوہناک سانحہ پیش آیا وہ قابل مذمت ہے جو بظاھر تو خدام خواجہ اور چند اوباش و بدمعاش نسل سفیان و مروان کے درمیان تھا جبکہ اسے میڈیا نے اپنے ہی مفاد کے لیے مختلف رنگوں میں رنگنا شروع کیا اور ضمیر فروشوں نے اسے صرف اور صرف مجاور اور زایر کی ذاتی لڑائی سے تعبیر کیا۔
جبکہ حقیت میں اسکا موضوع یہ تھا کہ سلطان الہند آل رسول اولاد علی کے دیار عشق و وفا میں چند بے غیرت بے حیاء نام نہاد مسلمان بلکہ مسلمانوں کے نام پر کلنک عظمت اسلام کو مجروح کرنے والے قاتلوں اور ظالموں کے پرستار آتنک وادی دہشت گرد داعش اور لشکر جھنگوی کے ٹکڑوں پر پلنے والے افراد ملک و ملت کی سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہویے معاویہ و یزید کا صدقہ طلب کر رہے تھے (معاویہ کا صدقہ یا خواجہ ) جیسے غیر شرعی نعرہ بازی سے آستانہ کی فضاء معطر کو بدبودار بنا رہے تھے۔
فتنہ اور فساد کا یہ نیا بیج کسی سازش اور ایک بڑی سیاسی حسرت کی تعبیر لگ رہی تھی جسکا مقصد بظاھر یہ لگ رہا تھا کہ فساددات کی فضا قایم کرکے آستانہ کو بدنام کیا جایے اور خدام کے عشق علوی کو مجروح کر کے انھیں اکسایا جا سکے۔
اب اہل علم و دانش فیصلہ فرمائیں کہ شاہ است و حسین بادشاہ است، دین است و حسین دیں پناہ است حسین۔کا قایل اولاد علی کا لخت جگر عطاء رسول، کیا معاویہ اور یزید کا صدقہ عطا کریگا۔ کہاں حمزہ کی نسل کا شہزادہ اور کہاں ہندہ جگر خوارہ کا شیر نجس پی کر بڑا ہونے والا غیر حلالی ظالم و جابر اصحاب و ازواج کا قاتل ھل یستوی الطیب والخبیث، کیا طہارت و خباثت برابر ہو سکتی ہے،کیا دیار عدل میں ظالم کی تعریف و توصیف کیو برداشت کیا جا سکتا ہے۔ ہر گز نہیں ہر گز نہیں۔
بس اسی وقت محبت اہلبیت رکھنے والے خدام نوجوان و بزرگ اپنے پاکیزہ لہو کی آواز بر لبیک کہتے ہویے دشمنوں کے سر پر پہونچ گیے اور انھیں اس عمل شنیع سے روکا پہلے شرافت سے سمجھایا مگر جب وہ لوگ حرمت درگاہ کو پایمال کرنے سے باز نہ آیے بلکہ وہ نسلی متشدد تشدد پر آمادہ ہو گیے اور اس طرح آستانہ کی حرمت پایمال کرنے کی سزا انھیں وہاں موجود محب اہلبیت اہل سنت والجماعت اور خدام خواجہ نے دی جسکی جتنی سراہنا کی جایے کم ہے۔
یہ لڑائی زایر اور مجاور کے درمیان نہیں تھی بلکہ علویت اور معاوییت کے درمیان میں تھی حق و باطل کے مابین تھی حسینیت اور یزیدیت کے درمیان تھی جو ازل سے چلی آرہی ہے اور عشق حسینی سے سرشار اہل ولا اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں خوش نصیب ہیں وہ بزرگ و نوجوان جنھوں نے اپنی جان پر کھیل کر اس عشق حسینی و علوی کا اعلان کیا اور معاویہ کا صدقہ طلب کرنے والے خوارج و نواصب سے درگاہ کو خالی کرایا اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہونچایا بلوائیوں اور فسادیوں کو اس جمع غفیر سے چھانٹ کر باہر نکالا اور مومن کی فراست کا ثبوت فراہم کیا ہم ایسے محب اہلبیت ع کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں اور بارگاہ رب ذوالجلال میں دعا گو ہیں کی آل محمد ع کے وسیلہ سے سرکار غریب نواز کی عطا سے انھیں ہر محاذ پر سرفرازی سر اقبالی نصیب ہو۔
شمع حب آل رسول ان کے دلوں میں ہمیشہ روشن رہے چراغ عشق علی ہر طوفان حیات کے رخ پہ جلتا رہے جس قوم نے درگاہ کے حضور علم مبارک کا جلوس نکال کر غازی کے پرچم کو بلند کیا مولا حسین ع انکے حوصلوں کو بلندی عطا فرمائیں کربلا والوں کے صدقہ میں انکی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائیں۔