حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا مرحوم ابن حیدر طاب ثراہ کی رحلت پر وفادار حسین وفا تاراگڑھ اجمیر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خبر رحلت وفات حسرت آیات سن کر دل کو شدید صدمہ ہوا حواس قابو میں نہیں رہے کہ بر وقت کچھ لکھ سکتا موت ایک حقیقت ہے مگر ایک ایسے منفرد لب لہجہ کا مالک انسان جو بیک وقت عالم خطیب واعظ متقی بذلہ سنج سنجیدہ مزاج تھا جس کی زیر لب ہلکی سی مسکراہٹ با رونق چہرہ کا وقار مزید بڑھا دیتی تھی۔
وہ میرے استاد شفیق تھے اور یہ رشتہ تلمذ کسی حوزہ یا مدرسہ کے شرف کا مرہون منت نہ تھا بلکہ مرحوم جب مجالس عزاء خطاب کرنے اس بلند و بالا سرزمین تاراگڑھ ضلع اجمیر صوبہ راجستھان پر تشریف لاتے تھے تب ان سے بیش قیمت وقت مانگ کر کچھ سیکھنے کا اظہار کیا تو آپ نے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول فرماکر ہم پر بڑا احسان کیا اور انھوں نے علم الاعداد کی مکمل تعلیم دی اور مجھے بچپن سے ہی زیب منبر ہونے کی تلقین کے ساتھ ساتھ قطعات وغیرہ یاد کرا کے اپنی مجلس سے پہلے پڑھواتے تھے تقریبا چالیس برس تک یہاں مختلف مناسبات پر تشریف لاءے تھے ان کے حسن اخلاق اور منکسر المزاجی پر جتنا لکھا جاءے کم ہے۔
میرے کلک قلم میں وہ قوت کہاں جو ایک مدبر و حکیم مدرس و فہیم علم و ہنر کے بے تاج بادشاہ کی شان میں کچھ رقم کر سکوں جس کے پاس اتنا علم غزیر ہو مگر مجال کیا جو ذرہ برابر بھی غرور علمی ہو مومنین تاراگڑھ کے ذوق سماعت پر آج بھی عندلیب خطابت کے بیان کی سحر انگیزی قایم ہے وہ لفظوں کی تراش خراش، وہ سجع کی رعایت، وہ لفظی بندشیں، وہ جمل کا بر محل استعمال ،لہجہ کی شیرینی آواز کا آہنگ لکھنوی انداز سے ادب آراءیاں ایک سوا گھنٹہ کی مجلس نہ جانے کب مصایب کی جانب گریز پا جاتی تھی احساس ہی نہیں ہوتا تھا یوں تو ہماری بستی میں ہندوستان کے تقریبا سبھی علاقوں سے مداح اہلبیت علیہم السّلام آتے رہے ہیں مگر استاد محترم کا یہ خاصہ تھا کی فریقین کے دلوں پر قابض تھے وکالت آل محمد کا حق ادا کرنے میں کوءی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے تھے اتنے خوبصورت انداز میں زلف تبرا سوارتے تھے کی سامع بے ساختہ دادو تحسین سے نوازتا تھا اس سنگلاخ وادی میں گل بلبل اور گلاب کا ذکر کس حسین انداز میں کرتے تھے جس کی مثیل و نظیر نہیں ملتی اردو ادب کی چاشنی سے اگر اھل تاراگڑھ کو کسی نے آشنا کیا ہے تو وہ استاد محترم کی عالی وقار شخصیت تھی آپ کے لب و لہجہ سے تذکرہ معراج کا جو لطف سامعین محسوس کرتے تھے اسے لفظوں کے قالب میں ڈھال کر قابل بیان نہیں کیا جا سکتا۔
درگاہ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری رح کے خوش عقیدہ خدام حضرات ان کی خطابت سے اس قدر مانوس تھے کی ایک گھنٹہ کی مجلس سنے کے لیے ٤ کلو میٹر کا پہاڑی سفرطے کر کے آنا اور پھر تقریبا نصف شب کے بعد واپس جانا اور استاد محترم کے حلقہ بگوش ہو کر فضاءل آل محمد ع کو سنکر اپنے فرسودہ خیالات کو ادلہ براھین سے بدل کر مودت اہلبیت ع میں اضافہ کرنا بار بار معراج پڑھوانے کی ان کی خواہش اور مرحوم کا ہر بار الگ انداز انکے علم کی گیراءی اور گہراءی پر دال ہے تبرا خوانی کا خوبصورت انداز یہ بھی تھا کی جب لفظ غیر کو نبھانے کی تمنا کا کسی نے اظہار کیا تو برملا فرمایا لفظ غیر کی بد قسمتی یہ ہے کہ اسمیں حرف بھی تین ہیں اور نکتہ بھی تین اور اسطرح غیر نے اصل اسلام کو تین تیرہ کرنے کی ناکام سازشیں شروع کردیں واقعات کا ایک طویل سلسلہ ہے جسے حوالہ قرطاس کروں تو ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
استاد محترم کی رحلت ایک ایسا علمی خلا ہے جسے پر کرنا شاید ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔
اخیر میں ہم سبھی پسماندگان تلامذہ ،اساتذہ مدارس، خویشان اور محببین کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں اور بارگاہِ رب ذوالجلال میں با طفیل عصمت و طہارت مرحوم کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔