۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مولانا  سید شاہد جمال رضوی

حوزہ/علامہ مرحوم کی ایک خوبی بھلائے نہیں بھولتی کہ عالمی شہرت یافتہ ہونے کے باوجود جب اپنے خردوں سے ملتے تھے تو بڑی شفقت و محبت اور اپنائیت  کا مظاہرہ  فرماتے تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مدیر شعور ولایت فاؤنڈیشن،حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید شاہد جمال رضوی نے  علامہ طالب جوہری طاب ثرہ کی خبر رحلت پر افسوس کرتے ہوئے تعزیت نامہ کی شکل میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔

تعزیت نامہ کا مکمل متن اس طرح ہے؛

انا للہ و انا الیہ راجعون رضاً بقضائہ

عالم ملک میں قانون قدرت یہ ہے کہ جو یہاں آیا ہے اس کی موت بھی معین ہے ، یہ زندگی کا اصول ہے ، آنے والے کو جانا ہی پڑتاہے اس سے کسی کو راہ فرار نہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا دنیا میں آنا ، یہاں زندگی گزارنا اور زندگی کا سفر طے کرکے یہاں سے چلے جانا ، تشہیر و سخن کا موضوع بن جاتاہے ، ان کا دنیا میں رہنا دین و شریعت اور انسانیت کے لئے چین و اطمینان کا باعث ہوتاہے ، جب وہ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تو افسوس ہوتاہے ، ان کی موت پر ہر شخص رنجیدہ ہوتاہے ، دل بھرآتاہے ، آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ۔

عالم باعمل ، خطیب بے مثال ،مفسر قرآن حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ طالب جوہری اعلیٰ اللہ مقامہ بھی ایسی ہی شخصیتوں میں سے ایک تھے جن کے جانے سے آج ہر علم دوست رنجیدہ خاطرہے اورہر شیدائے اہل بیت ؑایک ذمہ دار خطیب کے رخصت ہونے سے محزون ہے ۔

علامہ طالب جوہری مرحوم اپنی ہمہ جہت صفات کی بنیاد پر ایک شخصیت یا ایک ذات نہیں تھے بلکہ ایک انجمن اور ایک عہد تھے ۔انہوں نے اپنی ذات کے ذریعہ پورے ایک عہد کی ترجمانی کی ہے ۔میدان خطابت میں ان کا منفرد اسلوب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ، وہ خطابت برائے خطابت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی خطابت ایک پیغام تھی سننے والوں کے لئے اور آنے والی ہر نسل کے لئے …ان کا منفرد انداز خطابت آنے والی کئی نسلوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔

علامہ مرحوم کی ایک خوبی بھلائے نہیں بھولتی کہ عالمی شہرت یافتہ ہونے کے باوجود جب اپنے خردوں سے ملتے تھے تو بڑی شفقت و محبت اور اپنائیت  کا مظاہرہ  فرماتے تھے ، لہجہ میں موجود اپنائیت کو دیکھ کر اجنبیت پوری طرح ختم ہوجاتی تھی اور طبیعت باغ و بہار ہوجاتی تھی .…علامہ مرحوم کو قریب سے صرف دو مرتبہ دیکھنے اور ان کی شفقت و محبت سے بہرہ مند ہونے کا موقع ملا ، پہلی مرتبہ ہندوستان میں جب وہ اعظم گڑھ مجلس خطاب کرنے کے لئے آئے تھے ، مجلس کے بعد اپنے آبائی وطن حسین گنج آئے اور وہاں سے والد علام مولانا سید علی اختر رضوی مرحوم سے ملاقات کے لئے گوپال پور تشریف لائے ، اس وقت چائے لانے کے بہانے ان کو قریب سے دیکھا ، دوسری مرتبہ قم میں ملاقات ہوئی ، ترجمہ الغدیر کی اشاعت کے بعد اس کا ایک سیٹ ان کی خدمت میں تقدیم کرنے کے لئے حاضر ہوا ، غالباً   ۲۰۱۱عیسوی کے اوائل کی بات ہے ،بڑی عقیدت سے کتاب لی، کتاب کی اشاعت پر مبارکباد دی ، پھر باقی ماندہ دو جلدوں کے ترجمہ پر جس الفاظ و انداز میں میری حوصلہ افزائی فرمائی وہ بھلائے نہیں بھولتا … دو گھنٹہ کی ملاقات کی لذت آج  بھی اپنے دل و دماغ پر محسوس کرتاہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بلند پایہ مفکر، عظیم دانشور ، باعمل عالم ، ادیب و شاعر اور مفسر و خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی عظیم انسان بھی تھے ۔

وہ ایک پھول بہاروں کی جان تھا بھائی

آہ …وہ دینی معمار ہم سے رخصت ہوگیا جس کی زندگی کاہر ہر لمحہ تبلیغ و ترویج اسلام کے لئے وقف تھا، ایک چشمۂ علم ہم سے دور ہوگیا ، ایک مشعل افکار تھی جو بجھ گئی، ایک قلم تھا جو چلتے چلتے رک گیا ، ایک ذاکر ایک برجستہ خطیب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا اورایک بزرگ ہستی اور عظیم انسان کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھ گیا ؛ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔

ہم اس عظیم سانحہ پر علمائے کرام ، طلاب ذوی الاحترام ، مومنین ذی وقار خاص طور سے ان کے فرزندوں اور اہل خانہ کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ وہ علامہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے کر ممتاز فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر و سکون سے نوازے ۔

شریک غم :سید شاہد جمال رضوی
مدیر شعور ولایت فاؤنڈیشن

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .