۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا سید یونس حیدر رضوی

حوزہ/حضرت رتن سین نے زمانۂ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں خود اپنے ہاتھوں سے معصومین (علیہم السلام) سے بالمشافہہ احادیث کو تحریر فرمایا تھا جو آج بالکل اسی طرح ان کے ورثاء کے پاس موجود ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں مصروف مبلغ اور مدرس مولانا سید یونس حیدر رضوی ماہُلی نے کہا کہ علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ کے سانحۂ ارتحال کی خبر نے پورے عالم اسلام کو شدید صدمے اور غم میں مبتلا کر دیا۔ 

مولانا سید یونس حیدر رضوی نے کہا کہ اس وقت پورا عالم اسلام سوگوار ہے۔ یقینا اس عظیم نقصان کی تلافی ناممکن ہے۔ علامہ مرحوم ایک ہمہ جہت اور ہر دلعزیز شخصیت تھے جن کے بحر علم و مودت سے ہر ایک بقدر ظرف فیضیاب ہو کر اپنی علمی اور تاریخی تشنگی کو کئی دہائیوں تک دور کرتا رہا۔ 

ان سے ملنے والا ہر شخص وہ اپنائیت اور محبت محسوس کرتا تھا جو شاید کسی عزیز اور قریبی رشتہ دار سے بھی نہ ملتی ہو۔ 

انڈین اسلامک اسٹوڈنٹس یونین (IISU) ) قم المقدسہ کی صدارت کے دوران مجھے جب مرحوم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو وہ محبت ملی جسے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ ان کی محبت آمیز باتوں سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ میرے ہی خاندان اور وطن کے ایک فرد خاص ہوں۔ 
میں نے اپنی زندگی میں بہت سے تاریخ داں دیکھے ہیں لیکن علامہ مرحوم جیسا تاریخ داں نہیں دیکھا۔ انھیں صرف دنیا اور ہند و پاک کی تاریخ پر ہی دسترس حاصل نہیں تھی بلکہ وہ ہندوستان کے گاؤں، دیہاتوں اور قصبوں کی بھی تاریخ پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھیں وہاں کے مشہور ادباء، شعراء، دانشوروں اور علمائے کرام سے متعلق بھی کافی معلومات حاصل تھیں۔ قصبہ ماہل ضلع اعظم گڑھ، اترپردیش کی جو تاریخ اور معلومات آپ سے حاصل ہوئی یقینا وہ میرے لیے گوہر نایاب ہے۔ مختلف ملاقاتوں میں وہ اپنی ایک دیرینہ آرزو کا بھی تذکرہ کرتے تھے جسے آپ کی بیماری اور پھر موت نے پورا نہیں ہونے دیا۔ 

انھوں نے کہا کہ مرحوم اکثر اپنے ہندوستان کے اس سفر کا ذکر فرماتے تھے جس کا مقصد "حضرت رتن سین" کے ورثاء سے ملاقات اور ان کی میراث کو حاصل کرکے اسے احیاء کرنا تھا لیکن افسوس ان کے ورثاء سے ملاقات تو ضرور ہوئی مگر وہ علمی اور حدیثی ورثہ نہ مل سکا جسے آپ دل و جان سے حاصل کرنا چاہتے تھے اور جس کے نہ ملنے کا انھیں صدمہ ہمیشہ رہا۔ ان کی تحقیق کے مطابق حضرت رتن سین نے زمانۂ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں خود اپنے ہاتھوں سے معصومین (علیہم السلام) سے بالمشافہہ احادیث کو تحریر فرمایا تھا جو آج بالکل اسی طرح ان کے ورثاء کے پاس موجود ہے۔ علامہ مرحوم فرماتے تھے کہ اگر احادیث کا وہ مجموعہ مل جائے تو عالم اسلام کے لئے صحیح اور معتبر احادیث کا ایک بہترین اضافہ ہوگا۔ حضرت رتن سین ایک سچے صحابئ رسول ہونے کے ساتھ ساتھ محب اہل بیت بھی تھے۔ اس سے بڑا مرتبہ اور کیا ہوگا کہ انھوں نے امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کو اپنی گود میں کھلایا اور ان کے مبارک کلمات کو اپنی کتاب میں مرقوم فرمایا جو آج ان کے ورثاء کے پاس ہے۔ کاش علامہ طالب جوہری مرحوم کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو جاتا۔ خداوند متعال مرحوم کے باقی ماندہ امور کو مکمل فرمائے۔ 
 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .