حوزہ نیوز ایجنسی |
تحریر: مولانا سید غافر رضوی چھولسی،دہلی
۲۲/جون سنہ ۲۰۲۰ء کے طلوع ہوتے ہوئے سورج نے یہ پیغام دیا کہ ایک آفتاب خطابت غروب ہوگیا۔
جس کے غروب سے جہان خطابت سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔
اس خبر غم نے شیعیان حیدر کرار کے جگر کباب کردیئے کہ میدان خطابت کا ایک ماہر شہسوار جہان فانی سے جہان باقی کی جانب کوچ کر گیا۔
کمیاب خطیب اور مخالفین کو دندان شکن جواب دینے والے ذاکر مولانا طالب جوہری صاحب قبلہ خطابت میں ایسے دُر بے بہا تھے جس کی نظیر شاید ہی ملے۔
یوں تو ہر انسان اپنی جگہ پر ایک شخصیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا انسان نہیں لے پاتا لیکن علماء کے متعلق باقاعدہ روایات میں موجود ہے کہ اگر کوئی عالم دین، دنیا سے گزر جاتا ہے تو اسلام میں ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جس کو کوئی بھی پُر نہیں کرسکتا۔
علامہ طالب جوہری عوام الناس کے درمیان عمارت خطابت کے ایک محکم و مستحکم ستون کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آپ نجف اشرف کے فارغ التحصیل طالب علم بھی تھے، یہی نہیں بلکہ اپنے زمانہ میں آپ مجتہد متجزی تھے یعنی آپ علم کے اس درجہ پر پہنچ چکے تھے کہ آیات عظام نے آپ کو احتیاط کرنے کے لئے کہہ دیا تھا کہ آپ کسی کی تقلید نہ کریں بلکہ احتیاط پر عمل کریں۔
جب ایسے ایسے علماء کو خاک میں چھپتے ہوئے دیکھتے ہیں تو غمزدہ دل سے آواز ابھرتی ہے:
"زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے"
اے کاش! ایسی ہستیاں ہمارے سروں پر ہمیشہ سایہ بان رہتیں! لیکن دوسری طرف سے آواز آتی ہے:
جو زندہ ہے وہ موت کی تکلیف سہے گا
جب احمد مرسل نہ رہے کون رہے گا
جی ہاں! موت سے کسی کو راہ فرار نہیں یہی وجہ ہے کہ بھاگتی دوڑتی خود غرض دنیا نے ہم سے ہمارا ایک اور انمول موتی چھین لیا۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے!.
خداوند عالم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ پروردگار عالم! مرحوم کو جوار معصومین میں جگہ عنایت فرما، ان کی مغفرت فرما اور قوم تشیع کو ایسے ایسے سرمایوں سے ہمیشہ مستفیض فرما۔
والسلام علی من اتبع الھدیٰ