تحریر: محمد رضا ایلیا مبارکپوری
حوزہ نیوز ایجنسی | 22جون 2020 مایہ ناز عالم ، شاعر ، مصنف، مفسر القرآن علامہ طالب جو ہری مرحوم ایک تاریخ ساز شخصیت تھے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے۔ وہاں آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی کے زیر انتظام حوزہ علمیہ میں داخلہ لے کر تشیع کے جید علما و مجتہدین بمشمول آیت اللہ شہید باقر الصدراور آیت اللہ ابو القاسم خوئی سے کسب فیض کیا ۔ علامہ طالب جو ہری مرحوم مایہ ناز مرجع آیت اللہ العظمیٰ سید علی الحسینی السیستانی کے ہم جماعت ( کلاس فیلو) تھے۔ امیر العلما آیت اللہ سید حمید الحسن کے عزیز دوست تھے ۔علامہ ذیشان حیدر جوادی بھی نجف میں ان کے ہم درس رہے۔
علامہ طالب جو ہری بحیثیت مصنف مثالی کام انجام دیا ۔ ”احسن الحدیث“ (قرآنی تفسیر)،”حدیث کربلا“،”ذکر معصوم“،”نظام حیاتِ انسانی“،”خلفائے اثناعشر“،”علامات ظہور مہدیؑ“،”عقلیات معاصر“ (فلسفہ)اس علا وہ مجا لس کی کتابیں کچھ اس طرح ہیں” تہذیب نفس “اور” تہذیب حاضر “، ”عالمی معاشرہ اور قران حکیم“،”اساس آدمیت اور قرآن“، ”انسانی معاصر اور قرآن“،”انسانیت کا الوحی منشور“،”منصب ہدایت اور قرآن“،”میزان الہدایت اور قرآن“،”میراث عقل و وحی الٰہی“، ”معیار تقویٰ “وغیرہ ہیں ۔
علامہ طالب جو ہری ادیب ، شاعر اورمحقق ، نقاد بھی تھے ۔علامہ مرحوم نے مختلف عنوانات و موضوعات پر قصیدے ، مرثیہ ،نظمیں اور رباعیات تحریر کی ہیں علامہ مرحوم نے اردو ادب ، فارسی ادب ، عربی ادب میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔” حرف-نمو “( اردو شاعری )،”پس آفاق“ (اردو شاعری)،”شاخ صدا“ (اردو شاعری)اس علا وہ ہندوستان کی مشہور آن لائن لائبریری ”ریختہ “ پر علامہ طالب جو ہری مرحوم کی چار غزلیں ”جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا“،”دھوپ جب تک سر پہ تھی زیر قدم پائے گئے“،”جہت کو بے جہتی کے ہنر نے چھین لیا“،”میں دیار قاتلاں کا ایک تنہا اجنبی“،اپلوڈ ہیں ، جس کا مطالعہ صاحب ذوق کر سکتے ہیں ۔
پروردگار عالم عالم با عمل طالب جوہری کی مغفرت فرمائے،جوار معصومین ؑ جگہ عنایت فرمائے اور ان کے غمزدہ اہل خانہ بالخصوص علامہ ریاض جوہری ، علامہ اسدجوہری ، علامہ امجد جوہری کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
----------------------