۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 385925
20 نومبر 2022 - 16:25
سمانہ کی درگاہ کی حقیقت

حوزہ/ پنجاب کے شہر پٹیالہ سے 28 کلو میٹر دور ایک تاریخی قصبہ ہے جس کا نام سمانہ ہے۔ جسکو اب مشہد ہند بھی کہا جانے لگا ہے، کیونکہ اس سرزمین پر شیعہ فرقہ کے آٹھویں امام حضرت علی رضا کے فرزند حضرت علی ولی (جو امام مشہد کہے جاتے تھے) دفن ہیں ۔

تحریر: شکیل شمسی

حوزہ نیوز ایجنسی | پنجاب کے شہر پٹیالہ سے 28 کلو میٹر دور ایک تاریخی قصبہ ہے جس کا نام سمانہ ہے۔ جسکو اب مشہد ہند بھی کہا جانے لگا ہے، کیونکہ اس سرزمین پر شیعہ فرقہ کے آٹھویں امام حضرت علی رضا کے فرزند حضرت علی ولی (جو امام مشہد کہے جاتے تھے) دفن ہیں ۔ تاریخی حوالوں میں ملتا ہے کہ امام رضا کو جب عباسی سلطنت کے بادشاہ مامون رشید نے زہر دیکر شہید کر دیا اور ان کے خاندان کے دوسرے لوگوں کا بھی جینا محال کیا تو امام علی رضا کے بیٹے حضرت علی ولی اپنے کنبے کے ساتھ ایران کے مشہد شہر سے ہجرت کر کے نویں صدی میں ہندوستان آ گئے اور پٹیالہ کے پاس ایک ویران مقام پر آکر ٹھہرے۔

سمانہ کی درگاہ کی حقیقت

پٹیالہ اس وقت تھانیسر کے راجہ کے ماتحت تھا۔ راجہ نے اپنے سپاہیوں کو بھیج کر معلوم کیا کہ کون لوگ آئے ہیں تو سپاہیوں نے بتایا کہ ایران سے آئے ہوئے کچھ مہاجر ہیں جن کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی ہیں اور ان سے تھانیسر کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، یہ سن کر تھانیسر کے حکمراں نے ان کو وہیں رہنے دیا ۔جسکے بعد حضرت علی ولی نے آس پاس کے لوگوں سے زمین خرید کر اس جگہ کو اپنا گھر بنایا اور ایک نئی بستی آباد کی جس کا نام انہوں نے اپنی والدہ حضرت سمانہ خاتون کے نام پر سمانہ رکھا۔ اس سے پہلے تک شمالی ہندوستان میں مسلمان کہیں آباد نہیں تھے ۔ سمانہ شمالی ہندوستان کی کی پہلی مسلم بستی تھی ۔ تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ محمد غوری کے حملے سے پہلے جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی بھارت آئے تو وہ کچھ دن سمانہ میں بھی رکے تھے کیونکہ اس وقت تک سمانہ علم و فضل کی ایک مشہور بستی بن چکا تھا ۔

سمانہ کی درگاہ کی حقیقت

سمانہ کئی صدیوں تک سیدوں کا اہم مرکز رہا لیکن 1947 میں جب ملک کا بٹوارا ہوا تو وہاں بھی فسادات بھڑک اٹھے ۔ اس وقت کے فرقہ وارانہ فسادات میں سمانہ کے سارے مسلمان یا تو مارے گئے یا پاکستان چلے گئے ۔ اس درگاہ پر حاضری دینے والا کوئی نہیں رہا، ایسے میں موقع دیکھ کر کچھ لوگوں نے اس جگہ پر اپنی عبادت گاہ بنانا کی سکیم بنائی مگر اس میں کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ جب جب انہوں نے چھت ڈالی چھت اپنے آپ گر گئی، جسکے بعد اس جگہ کو چھوڑ کر کچھ دور پر ان لوگوں نے اپنی عبادت گاہ بنائی اور اس درگاہ پر قبضہ کرنے کا خیال چھوڑ دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ درگاہ کے پاس اکثر ایک شیر بھی آ کر بیٹھ رہتا تھا اس وجہ سے بھی لوگ درگاہ کی طرف جانے سے ڈرتے تھے ۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ تین یا چار دہائ پہلے پورن سنگھ نام کے ایک لینڈ مافیا نے اس درگاہ اور اسکی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اسکے پورے کنبے کو مخالف گروہ کے لوگوں نے قتل کردیا جسکی وجہ سے اس درگاہ پر پورن سنگھ کا قبضہ نہیں ہو سکا ۔ چونکہ وہاں پر چار دوسری قبریں بھی تھیں تو یہ درگاہ پنچ پیراں کی درگاہ کے نام سے مشہور ہو گئی، مگر کوئی اس کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں تھا حالانکہ بہت سے سکھ اور ہندو وہاں آتے جاتے رہے ۔

2005 میں پنجاب پولس کے اے ڈی جی اظہار عالم تھے تو انکے پاس ایک سکھ انسپکٹر آیا اور اسنے انہیں اس درگاہ کے بارے میں بتایا، اظہار عالم صاحب اس وقت پنجاب وقف بورڈ کے سی ای ا و بھی تھے، انہوں نے وقف بورڈ کے ایڈمنسٹریٹر صادق حسین نقوی سے کہا کہ وہ درگاہ پر جائیں اور پتہ لگائیں کہ یہ کس کی درگاہ ہے ۔
جب صادق حسین نقوی، مشہور شاعر پروفیسر ناشر نقوی اور وقف بورڈ کے دوسرے ممبروں کے ساتھ وہاں پہنچے تو انہیں قبر کے پاس کی دیوار ایک پتھر پر لکھا کتبہ ملا جس سے معلوم ہوا کہ وہاں امام زادے حضرت علی ولی امام مشہد مدفون ہیں ۔ پروفیسر ناشر نقوی نے وہاں سے مجھے فون کرکے اس درگاہ کے بارے میں بتایا ۔اتفاق سے اس دن میرے گھر پر مولاناکلب جواد صاحب موجود میں نے ان سے سمانہ چلنے کو کہا وہ راضی ہوگئے پھر میں نے ندیم صاحب بلڈر کو فون کیا وہ بھی اپنی کار لے کر آ گئے اور ہم انکی کار سے سمانہ کے لئے دوسرے دن صبح کو روانا ہو گئے ۔

جب ہم لوگ بارہ بجے کے قریب سمانہ پہنچے تو وہاں میڈیا کے لوگ اور آس پاس رہنے والے ہندو اور سکھ بھائی موجود تھے، لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کے مزار کے میدان میں ایک سادھو نے قبصہ کر رکھا تھا۔ اس نے مئی مہینے کی تیز گرمی میں بھی اپنے چاروں طرف آگ جلا رکھی تھی اور پوری درگاہ میں ترشول لگا رکھے تھے ۔ بہرکیف جب مولاناکلب جوادوہاں پہنچے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ کتبہ دیکھا بلکہ انہیں پاس میں رہنے والے ایک ہندو بزرگ ورما جی نے کچھ پرانی کتابیں بھی دکھائیں جن میں اس درگاہ کے بارے میں تفصیل سے لکھا تھا کہ یہ امام علی رضا کے فرزند حضرت علی ولی کا مزار ہے ۔ یہ سب جاننے کے بعد وہاں 58 سال بعد ایک مجلس ہوئی جس میں صرف سات یا آٹھ شیعہ تھے اور باقی سب ہندو یا سکھ تھے، مجلس کو مولانا کلب جواد نے خطاب کیا، اسی شام یہ خبر آج تک و دوسرے چینلوں پر نشر ہوئی ، جس کے بعد پنجاب پولس نے سادھو کو وہاں سے راتوں رات ہٹا کر درگاہ کا قبضہ پنجاب وقف بورڈ کو دلوایا ۔ قبضہ ملنے کے بعد معلوم ہوا کہ سمانہ میں ایک امام باڑہ بھی ہے اس کے پاس ایک ایسی عبادت گاہ بھی ہے جہاں 11 قبریں بنی ہیں ۔

اس درگاہ کے ملنے کی جب خبر پھیلی تو اتر پردیش ، پنجاب اور ہریانہ کے شیعہ یہاں آنے لگے اور اس وقت گورنر کے مشیر حسنین آزاد زیدی اور دوسرے مومنین کی کوششوں سے سمانہ میں انجمن بنی،علم کا جلوس نکلا، محفل ہوئی اور مجلسیں بھی ہونے لگیں لیکن مزار سے کچھ فاصلے پر جو مسجد تھی اس کا قبضہ ملنے میں تین سال لگ گئے اور یہ اس وقت ممکن ہوا جب ۲۰۰۸ میں پاکستان سے ایک وفد وہاں کے پنجاب ہائی کورٹ کے جسٹس سید شبر رضا رضوی اور مولانا سید حسن ظفر نقوی کی قیادت میں سمانہ پہنچا تو پنجاب کی حکومت نے مسجد کو بھی بحال کر دیا اور وہاں ٦۱ سال بعد اذان اور نماز ہوئی، پھر وہاں شام کو ایک مجلس عزا منعقد ہوئی جس کو مولانا حسن ظفر نقوی نے خطاب کیا۔

سمانہ کی درگاہ کی حقیقت

اب دور دور سے شیعہ سمانہ میں آنے لگے ہیں حالانکہ وہاں مومنین کی آبادی بالکل نہیں کے برابر مشکل سے بیس بائیس افراد وہاں مقیم ہیں۔خدا کے فضل سے اور انجمن والوں کی محنت کے باعث وہاں تعمیری کام بہت ہوا ہے، ایک گیسٹ ہائوس بن گیا ہے، ایک ہال بھی بنا ہے اور ایک امام صاحب کے قیام کے لئے ایک چھوٹا سا فلیٹ بھی بن گیا ہے۔ جو لوگ سمانہ جانا چاہتے ہیں وہ پٹیالہ سے سمانہ جاسکتے ہیں دہلی سے پٹیالہ کا فاصلہ ۲۵۰ کلومیٹر ہے۔اس کے علاوہ دہلی سے ہریانہ کے شہر کروکشیتر سے ہوکر ایک راستہ پیہوا اور چیکا ہو کر بھی جاتا ہے جو تھوڑا کم ہے۔ اس سال وہاں 19 اور 20 نومبر کو پروگرام ہے، مومنین کو وہاں جانا چاہئیے کیونکہ ہندوستان میں یہ ایک اکیلی ایسی درگاہ جسمیں ایک امام زادے کی قبر مبارک ہے ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .