۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
عادل فراز

حوزہ/ مدارس میں ہمیشہ سے مروجہ علوم کی تعلیم دی جاتی رہی ہے ۔ہمارے علماء ریاضی،سائنس،طبیعات ،فقہ ،فلسفہ و حکمت میں مہارت رکھتے تھے ،لیکن ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی کے بعد مدارس کے نصاب سے مروجہ علوم کو حذف کردیا گیا ۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی | اترپردیش میں غیر رسمی مدارس کا سروے مکمل ہوچکاہے ۔مسلمانوں نے ظاہری طورپر اس سروے کی مخالفت نہیں کی ،لیکن حقیقت حال اس کے برعکس ہے ۔جو مدارس سرکار سے ملحق نہیں ہیں ،ان کا سروے مصلحت سے خالی نہیں ہے ۔رسمی مدارس کے سلسلے میں اترپردیش حکومت کا بیان سامنے آچکاہے ۔حکومت نے اپنے بیان میں کہاہے کہ ریاست میں رسمی مدارس کے طلبا کو آئندہ تعلیمی سیشن سے این سی ای آر ٹی نصاب کے مطابق لازمی موضوعات کی شکل میں ریاضی، تاریخ، سائنس اور سماجیات کی بھی تعلیم دی جائے گی۔

یو پی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن نے مدرسہ ایجوکیشن کو دیگر اسکولوں کی تعلیم کے مساوی لانے کے لئے یہ فیصلہ لیاہے۔حکومت کا کہناہے کہ مدرسوں سے مولوی کے بجائے افسر نکالے جائیں۔ مدرسہ بورڈ نے سرکار کویہ تجویز بھی ارسال کی ہےکہ مدارس میں اساتذہ کی تقرری کے لیے ٹی ای ٹی کو لازمی قرار دیا جائے۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ مدارس کے نصاب میں ریاضی ،سائنس اور دیگر مروجہ علوم کو کیوں شامل نہیں رکھا گی ،جبکہ مدارس میں ہمیشہ مروجہ علوم کی تعلیم دی جاتی رہی ہے ۔ہمارے علماء ریاضی،سائنس،طبیعات ،فقہ ،فلسفہ و حکمت میں مہارت رکھتے تھے ،لیکن ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی کے بعد مدارس کے نصاب سے مروجہ علوم کو حذف کردیا گیا ۔ان کی جگہ داستانوں اورقصے کہانیوں کو شامل کردیا گیا ۔مذہبی موضوعات کے ساتھ زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ،اس لئے فقہ ،اصول ،حدیث اور دیگر مذہبی موضوعات کونصاب سے نہیں ہٹایا گیا ،البتہ معقولات کو پوری طرح شامل نہیں رکھا گیا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ مدارس کے نصاب پر انگشت نمائی کی جارہی ہےاور حکومتیں علماء کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کررہی ہیں۔مدارس کے سروے کے سرکاری فیصلے کے بعد دارالعلوم دیوبند میں منعقدہ اجلاس میں مجلس عاملہ کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ پرائمری تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا ۔ظاہر ہے جب پرائمری تعلیم عصری تقاضوں کے مطابق ہوگی تو ہائر ایجوکیشن کے نصاب میں بھی لازمی تبدیلی کرنا ہوگی۔البتہ علماء کا یہ بھی کہناہے کہ مدارس کو سرکاری اعانت پرمنحصرنہیں ہونا چاہیے جیساکہ دارالعلوم دیوبند خودکفیل ادارہ ہے ،اسی طرح دیگر مدرسوں اور ملّی اداروں کو بھی خودکفیل ہونا چاہیے ۔ساتھ ہی مالی امور میںمزید شفافیت کے لئے نئی ٹیکنالوجی کو اختیار کرنا چاہیے،تاکہ مخیرین مدارس کے شفاف نظام سے مطمئن ہوسکیں۔مدارس کے مسئولین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے مخالفوں کی تعداد دوسروں کے بجائے اپنوں میں زیادہ ہے ،اس لئے انہیں شفافیت پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔

مدرسوں کی افادیت اور مسلمانوں میں ان کے اثرونفوذ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔یہی وجہ ہے کہ مدرسوں کو بدنام کرکے انہیں بند کرنے کا مطالبہ کیا جارہاہے۔یہ صورتحال آسام ،کرناٹک اور اترپردیش میں زیادہ خطرناک ہوچکی ہے۔مدارس پر دہشت گردی کے الزام عائد کرکے انہیں بدنام کرنا اس سازش کی ایک کڑی ہے۔آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما تو یہاں تک کہہ گئے کہ اب مدرسوں کو بند کردینا چاہیے ۔اگر مسلمان اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم دینا چاہتے ہیں تو اس کا انتظام گھر پر کیا جائے ۔جب تک مدرسے بند نہیں ہوں گے مسلمانوں کے بچے افسر کیسے بنیں گے ۔ظاہر ہے یہ باتیں بھولے بھالے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے کی جارہی ہیں ۔افسر بنانے کے لئے ملک میں الگ تعلیمی نظام موجود ہے ،جس کی صورتحال سے ہر کوئی واقف ہے ۔یہ الگ موضوع ہے کہ مدرسوں میں مروجہ علوم کی تعلیم دی جائے تاکہ مدرسوں سے نکلنے والی نسل عصری علوم سے بے بہرہ نہ رہے ۔

آسام حکومت نے تو۲۰۲۰ء میں تمام سرکاری مدرسوں کو ختم کرکے انہیں ریگولر اسکولوں میں تبدیل کرنے کا بل اسمبلی میں بھی پاس کروالیاہے ۔اسمبلی میں اپوزیشن کے سوالوں کاجواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے کہاتھاکہ قرآن مجید کو سرکاری خرچ پر نہیں پڑھایا جانا چاہیے ،کیونکہ بائبل ،بھگود گیتایا دیگر مذہبی گرنتھوں کو سرکاری خرچ پر نہیں پڑھایا جاتا۔وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما یہ بھول گئے کہ مذہبی طبقہ ہمیشہ سرکار کے رحم و کرم پر رہاہے ۔ہندوستان میں بھی برہمن حکومتوں اور درباروںسے وابستہ رہے ہیں ۔سرکار ی نگرانی میں مذہبی تعلیم و تربیت کے لئے ادارے قائم تھے جہاں برہمن مذہبی گرنتھ پڑھاتے تھے۔اس مذہبی و سماجی خدمت کے لئے انہیں سرکار سے ماہانہ وظائف اور اچھی خاصی اعانت ملتی تھی ۔یہ طریق کار مسلمان حکومتوں میں بھی قائم رہا ،جس کی آج آزاد ہندوستان میں مخالفت کی جارہی ہے ۔

افسوس یہ ہے کہ آج مدرسوں کے نصاب تعلیم پر حکومتیں مسلمانوں کو متوجہ کررہی ہیں ۔مسلمان علماء نے اس راہ میں بذات خود کیوں پیش رفت نہیں کی ،یہ اہم سوال ہے ۔اب سے کچھ سال پہلے تک اکثرمدرسوں میں کالج اور یونیورسٹی سےعصری تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد تھی ۔یعنی مدرسہ کا طالب علم بیک وقت مدرسے اور کالج سے تعلیم حاصل نہیں کرسکتا تھا ۔رفتہ رفتہ اس صورتحال میں تبدیلی رونما ہوئی اور آج مدرسوں میں پڑھنے والے طلباء کالج اور یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔چونکہ علماء بدلتے ہوئے زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتے اس لئے انہیں صورتحال کو باورکرنے کے لئے وقت درکار ہوتاہے ۔یہ وقت طلبی اور بدلتے ہوئے سماجی تقاضوں کا عدم ادراک انہیں روایت پسند اور فرسودہ نظام کا حامی بنادیتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے عدم واقفیت کی بناپر اسے شریعت مخالف قرار دیدیتے ہیں،جبکہ آیندہ اس کی افادیت کے پیش نظر وہ اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے بھی نہیں کتراتے ۔ایسا صرف اس لئے ہوتاہے کیونکہ وہ جدید زمانہ کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرپاتے ،اس کی بنیادی وجہ عصری علوم سے عدم توجہی اور منقلب ہوتے ہوئے حالات سے لا علمی ہے ۔اس کے لئے مدارس کو مروجہ علوم سے آراستہ کرنا اور طلباء کو ہر دم بدلتی ہوئی صورتحال سے آگاہی دینا ضروری ہے ۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی علمی و سماجی پیش رفت میں مدارس کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔یہ وہ عہد تھاکہ جب دنیا میں ’’یونیورسٹی کلچر‘‘ متعارف نہیں ہوا تھا ۔مدارس ہی بنیادی تعلیم کا واحد ذریعہ تھے جہاں نابغۂ روزگار شخصیات تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دیتی تھیں ۔علماء نےمدرسوں میں اس طرح تعلیم و تربیت کا انتظام کیا ہوا تھاکہ مروجہ علوم و فنون کے ماہرین اور نئے زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ علماء مدرسوں سے نکلتے تھے ۔ الہیات،طبیعات ،معقولات ،خطاطی ،حکمت و فلسفہ ،سائنس اور دیگر مروجہ علوم و فنون مدرسوں میں پڑھائے اور سکھائے جاتے تھے ۔نئے زمانہ کے لحاظ سے نصاب تعلیم میں تبدیلیاں ہوتی رہتی تھیں ۔دنیا بھر سے مختلف علوم و فنون کی کتابیں جمع کی جاتی تھیں تاکہ طلباء ان سے استفادہ کرسکیں ۔ابتدائی عہد میں مدرسوں کی علاحدہ عمارتیں موجود نہیں تھیں ۔مسجدوں ،مقبروں،امراء کی ڈیوڑھیوں ،حویلیوں اور گھروں میں علماء تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے ۔

بعض علماء کی رہائش کے لئے سلاطین نے عمارتیں تعمیر کروائیں جن میں مدرسہ بھی چلتا تھا ۔ہمایوں اور صفدر جنگ کے مقبروں میں مدرسے قائم تھے ۔اسی طرح لکھنؤ میں سعادت علی خاں کے مقبرے اور جامع مسجد آصفی میں مدرسہ چلتا تھا ۔بہمنی سلطنت کے علم پرور اور ادب نواز وزیر محمودگاواں کا مدرسہ تاریخ میں اپنی شہرت رکھتا ہے ۔یہ مدرسہ ایک ہزار کمروں پر مشتمل تھا جس میں نام ور علماء تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دیتے تھے ۔طلباء کے لئے کپڑا لتّا اور غذا کا مفت انتظام کیا جاتا تھا ۔اتنا عظیم الشان مدرسہ بغیر ایک معقول کتب خانہ کے نہیں چل سکتا تھا ،اس لئے محمود گاواں نے پینتیس ہزار سے زیادہ کتابوں پر مشتمل کتب خانہ تیار کیا تھا۔شاہی کتب خانہ محمودگاواں کے کتب خانہ سے الگ تھا ،جس میں بیش بہاقلمی مخطوطات موجود تھے ۔یہ مدرسہ ۸۷۶ ھ مطابق ۱۴۷۲ء میں پایۂ تکمیل کو پہونچا ۔ (دکن کے بہمنی سلاطین ۔ہارون خاں شیروانی ۔ص۲۳۰ تا ۲۳۱) اسی طرح ہندوستان میں موجود دیگر ریاستوں میں بھی مدارس کا ایک نظام موجود تھا،جس کی سرپرستی اس وقت کے جیّد اور نام ور علماء کرتے تھے۔

صنعت و حرفت میں بھی مدرسے کے فارغین اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔علماء تجارتی قافلوں کے ساتھ ہی ہندوستان میں وارد ہوئے تھے۔ صنعتی نظام پر ان کی دسترس کا یہ عالم تھاکہ ان کی بنائی چکّی ہوا سے چلتی تھی اور آٹا پستا رہتا تھا۔مشین گن اور چوڑی دار توپوں کی ایجاد علماء نے ہی کی تھی۔فیروز شاہ تغلق کے زمانہ میں ایک ایسی گھڑی کی ایجاد ہوئی تھی جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس گھڑی سے ہر گھنٹہ پر ایک شعر سنائی دیتا تھا ،جس مفہوم یہ تھاکہ ’’بادشاہ کے دروازہ پر ہر گھنٹہ میں جو گھڑیاں بجاتے ہیں ،یہ یاد دلاتے ہیں کہ عمر کا ایک حصہ ختم ہوگیاہے ۔

آج مدارس میں ریاضی اور دیگر مروجہ علوم پڑھانے کا مطالبہ کیا جارہاہے جبکہ مدارس میں ہمیشہ مروجہ علوم پڑھائے جاتے تھے ۔انگریزی عہد حکومت میں مروجہ نصاب کےبجائے قصے اور داستانوں کو نصاب کو جزو بنادیا گیا تاکہ مدرسے فکری جمود کا شکار بن جائیں ۔میر فتح اللہ شیرازی،حکیم علی اور حکیم کامراں جیسے ریاضی کے ماہرین ہندوستان کی سرزمین پر اپنی فکری جولانیاں دکھلا چکے ہیں ۔اس کے علاوہ علم ہئیت ،علم نجوم اور معقولات کے عالم جابجا موجود تھے ۔آیندہ اس سلسلے میں مزیدبیان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

المختصر یہ وہ عہد تھاکہ جب علماء ذریعۂ معاش کے طورپر کتابت،طبابت ،تدریس اور دیگر امور انجام دیتے تھے ۔اس عہد میں بھی علماء درباروں سے وابستگی رکھتےتھے ۔ہر دور میں علماء دو گروہوں میں تقسیم رہے ہیں ۔لیکن علماء کی اکثریت ملت کے تئیں مخلص اور اسلامی اصول و اقدار پر پابند تھی ۔موجودہ عہد کے علماء کوماضی کے علماء سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔ساتھ ہی ہمیں اپنے نظام تعلیم و تربیت کو بھی بہتر بنانا ہوگا ۔اس کے بغیر ملت کی ترقی ممکن نہیں ہے ۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .