۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
کتب خانہ رفاہ المومنین فیض آباد، ایک نظر میں

حوزہ/ آپ نے فیض آباد کا نام بہت سنا ہوگا۔ فیض آباد آجکل بلکہ کئی برسوں سے بابری مسجد کی وجہ سے بھی مشہور ہے اس سے پہلے یہاں پر کافی علم و فضل کا چرچا اور ماحول رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آپ نے فیض آباد کا نام بہت سنا ہوگا۔ فیض آباد آجکل بلکہ کئی برسوں سے بابری مسجد کی وجہ سے بھی مشہور ہے اس سے پہلے یہاں پر کافی علم و فضل کا چرچا اور ماحول رہا ہے۔ یہاں بہت سے علماء گزرے ہیں اور مجموعی اعتبار سے یہ شہر ایک علمی شہر ہوا کرتا تھا۔

مشہور شاعر جناب میر انیس صاحب اور دوسرے مشہور شاعر جناب چکبست صاحب ان دونوں کا تعلق فیض آباد سے رہا ہے۔

اس شہر میں متعدد قدیمی اور تاریخی مسجدیں ہیں اور دوسری تاریخی عمارتیں بھی ہیں۔ فیض آباد ایک ایسا شہر ہیں جہاں مولانا محمد علی کشمیری صاحب بھی رہائش پذیر ہوا کرتے تھے اور وہیں اسی شہر کے اطراف میں ان کی قبریں منور بھی ہے۔ مولانا محمد علی کشمیری صاحب جن کو ملا محمد علی صاحب اور پاشا صاحب یا بادشاہ صاحب بھی کہا جاتا تھا وہ ایسے عالم دین تھے جنہوں نے اس علاقے میں یعنی ہوتے اودھ کے علاقے میں اور آس پاس کے علاقے میں شیعہ نماز جماعت قائم کرنے کے لیے تحریک شروع کی تھی اور اس تحریک کے لیے انہوں نے نماز جماعت قائم کرنے کے موضوع پر ایک کتاب بھی تحریر فرمائی تھی اور نواب آصف الدولہ کے وزیر جناب حسن رضا صاحب کے ذریعے سے بڑی کوشش کی کہ لکھنؤ میں جمعہ و جماعت کا سلسلہ قائم ہو اور الحمدللہ وہ قائم ہو گیا تھا۔

کتبخانہ رفاہ المومنین در حقیقت فیض آباد میں چوک کی مسجد کے زیر انتظام آتا ہے۔

کتب خانہ رفاہ المومنین فیض آباد، ایک نظر میں

اس مسجد کو نواب آصف الدولہ کے مذکورہ وزیر جناب حسن رضا خان صاحب نے تعمیر کرایا اور یہ کتب خانہ تقریبا ڈیڑھ سو سال پرانا ہے۔

اس کتب خانے کی کتابیں کافی حد تک ضائع ہو چکی ہیں اور بہت سی کتابیں ایسی ہیں جو ناقابل استفادہ ہونے کی وجہ سے بوریوں اور اس طرح کی چیزوں میں رکھی گئی ہیں۔ اس وقت اس کتب خانے میں تقریبا پانچ سو قدیمی کتابیں موجود ہیں اس کے علاوہ تقریبا پچاس یا ساٹھ کے قریب قلمی نسخہ بھی موجود ہیں۔ دور حاضر میں لکھی گئی کتابیں مذکورہ کتابوں سے الگ ہیں اور ان کی تعداد تقریبا ایک ہزار پہنچ جاتی ہے۔

اس کتبخانے سے استفادہ کرنے کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے علماء اور محققین آتے رہے ہیں۔

کتب خانہ رفاہ المومنین فیض آباد، ایک نظر میں

کتاب خانے میں ایک کافی ضخیم رجسٹر موجود ہے جس میں پچاس سال سے زائد پہلے زمانے میں کتب خانے میں آنے والے لوگوں کی تفصیلات درج ہیں۔

کتب خانہ رفاہ المومنین فیض آباد، ایک نظر میں

اس رجسٹر میں لوگوں کے آنے جانے اور کتب خانے سے استفادہ کرنے کی تفصیلات کو کافی باریکی کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔ مثلا اگر کوئی شخص کتبخانہ میں نہیں آسکا ہے یا کوئی پریشانی رہی ہے تو نہ آنے کی وجہ اور اس کا عذر ہو وہاں پر درج ہے۔

چالیس پچاس سال پہلے وہاں پر موجود کتابوں کی جلد بندی کرائی گئی تھی لیکن کافی برسوں سے یعنی تقریبا 20 سال سے کتاب خانہ بند ہوگیا اور اس سے استفادہ ختم ہو گیا یہی وجہ رہی کہ کتابیں ضائع ہونے لگیں اور اکثر کتابیں کتب خانے کی عمارت سے باہر دوسری جگہ پر رکھ دی گئی تھیں۔

کتب خانہ رفاہ المومنین فیض آباد، ایک نظر میں

ڈاکٹر مرزا شہاب شاہ صاحب سابق متولی چوک کی مسجد جس کے ماتحت یہ کتب خانہ بھی ہے انہوں نے حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا قمر مہدی صاحب سے کتب خانے کو از سر نو منظم کرنے کی گزارش کی تو پھر کافی زحمتوں کے بعد مولانا نے حجت الاسلام والمسلمین جناب محمد عباس مونس صاحب اور دیگر دو طلباء مولوی مبشر حسین اور مولوی سید فرزان کے ساتھ مل کر اس کتب خانے کو از سر نو منظم کیا اور الحمداللہ اب یہ قابل استفادہ ہوگیا ہے اور اس وقت جناب وسیم صاحب مسجد کے متولی اور جناب مولانا اقبال حسین عرفی صاحب اس کتب خانے کے منتظم ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .