۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
میر انیس

حوزہ/ انیس ؔکی شاعری ہر نئے نظریے سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔انیسی مرثیہ بظاہر ایک مخصوص واقعے اور ایک محدود موضوع سے متعلق ہے لیکن انیس نے اپنی قوت کلام اور وسعت معنی کی وجہ سے اس میں شاعری کے وسیع امکانات اور مختلف النوع جہات پیدا کردیے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اودھ کے مردم خیز خطے مصطفےٰآباد میں میر انیسؔ پر فہم بالشان تقریب کا انعقاد کیا گیا، اس پروگرام میں پروفیسر انیس اشفاق ،سابق صدرشعبۂ اردو لکھنؤ یونیورسٹی نے معروف سینئر صحافی سعید نقوی کی صدارت میں منعقد اس منفرد جلسے میں کیا جس کا اہتمام کانپور کے نامور سینئر ایڈوکیٹ سعید نقوی مصطفےٰ آبادی نے انیس کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے مصطفےٰ آباد میں واقع اپنی آبائی رہائش گاہ پر میر انیس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اپنے شاعرانہ محاسن کی وسعت اور ہمیشہ ذہن میں زندہ رہنے والی صفت کی بنا پر انیس کی شاعری ہر نئے نظریے سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔انیسی مرثیہ بظاہر ایک مخصوص واقعے اور ایک محدود موضوع سے متعلق ہے لیکن انیس نے اپنی قوت کلام اور وسعت معنی کی وجہ سے اس میں شاعری کے وسیع امکانات اور مختلف النوع جہات پیدا کردیے ہیں۔

پروفیسر انیس اشفاق نے انیس کا مصرعہ’’ نافہم سے کب داد سخن لیتا ہوں‘‘ پڑھتے ہوئے کہاکہ یہ میری خوش بختی ہے کہ میں انیس فہموں اور مرثیہ شناسوں کے درمیان گفتگو کررہاہوں ۔مصطفےٰ آباد کی سرزمین پورے برّ صغیر میں اپنی انیس دانی کے لئے مشہور ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کی مٹی کے ساختہ و پرداختہ ایک شخص ضمیر اختر نقوی نے اردو مرثیے بالخصوص انیس پر وہ کام کیا جس کی پذیرائی برّصغیر میں ہرطرف کی گئی ۔اس مردم خیز خطے کے بچے بچے کی زبان پر انیس کے بندرواں رہتے ہیں اور وہ منبر پر پر انیس خوانی کا غیر معمولی مظاہرکرتے ہیں۔پروفیسر انیس اشفاق نے اپنی گفتگو میں انیس کی شاعرانہ خوبیوں کا تفصیل سے احاطہ کیا اور بتایا کہ شاعری کے بہت سے رموز ایسے ہیں جن سے انیس ہی نے پہلی بار متعارف کرایا۔انہوں نے کہاکہ آج نئے نئے شعری اور ادبی نظریے وجود میں آرہے ہیں ،بالخصوص ’’بیانیات‘‘ کی نئی تعریفیں وضع کی جارہی ہیں۔ان تعریفوں سے ہمارا شعری اور نثری ادب آنکھیں ملانے میں ناکام نظر آرہاہے لیکن انیس کی بیانیہ شاعری اپنے مختلف الرنگ صفتوں کی بنا پر ان نئے نظریات کو بھی بڑی خوبی سے انگیز کررہی ہے ۔

تقریب کے صدر اور معروف سینئر صحافی سعید نقوی نے اپنے مخصوص انداز میں انیس کے بہت سے بندوں کی قرأت کے ذریعے انیس کی بہت سی شعری خوبیوں کا احاطہ کیا اور کہاکہ اپنی شاعری کی بے پناہ خوبیوں کی بناپر انیس بجاطورپر خدائے سخن کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔

نوجواں ادیب کاشف اختر مصطفےٰآبادی نے اس موقع پر انیس پر ضمیر اختر کی تحریروں کی روشنی میں بڑی سیر حاصل گفتگو کی اور بتایا کہ کس طرح ضمیر اختر نے انیس کی شاعری کے نئے گوشوں کو منور کیاہے ۔بزرگ شاعر اور استاد اصغر نقوی مصطفےٰ آبادی ،تسنیم کوثر اور تراب اختر نے انیس کی غزلوں اور سلاموں کے ذریعے انیس کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا ۔اس فہم بالشان تقریب کے مہتمم سعید نقوی ایڈوکیٹ نے اپنی تعارفی تقریر میں انیس کے شاعرانہ محاسن بیان کرتے ہوئے انہیں ہر زمانے میں زندہ رہنے والا شاعر قراردیا اور شرکائے جلسہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ اب یہ تقریب ان شاء اللہ ہر سال اسی شان سے منعقد کی جاتی رہے گی ۔

جلسے کی نظامت کے فرائض نوجوان ادیب اور خطیب اویس نقوی نے بڑی خوبی سے انجام دیے اور انیس کے بندوں کی برمحل قرأت کے ذریعے سامعین کو خوب محظوظ کیا ۔اس پروقار تقریب میں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والوں نے شرکت کی نیز غیر ملکوں میں رہائش پذیر مصطفےٰآباد کے باشندے بھی اس خصوصی تقریب میں شرکت کرنے آئے ۔سید علی رضا مجتہد نے اس تقریب میں خاص طورپر شرکت فرمائی ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .