۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
جون پور میں ایام عزائے فاطمیہ کے موقع پر سہ روزہ مجالس مرثیہ خوانی کا انعقاد

حوزہ/ مرثیہ کی عظمت و فضیلت کے ساتھ ساتھ ضرورت ہے کہ اس فن کو قوت و شہرت دینے کے لئے زیادہ سے زیادہ موقع مہیا کئے جائیں۔اور عالی شان پیمانہ پر مجالس مرثیہ خوانی کا اہتمام کیا جائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام مولانا شیخ ابن حسن املوی واعظ بانی و سرپرست حسن اسلامک ریسرچ سینٹر املو مبارکپور ،اعظم گڑھ(اتر پردیش) ہندوستان نے "مرثیہ کی عظمت و فضیلت" کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فطرتِ انسانی میں جذبہ دردوغم کی حیثیت قوی تر ہے اور رنج وغم کے احساس کی شدت ہی اشک وآہ کی شکل اختیار کرتی ہے اور چوںکہ دنیا کی بیش تر زبانوں کی ابتدا نظم سے ہوئی ہے اس لیے شاعر کادل جب دردوغم سے لبریز ہوتا ہے تووہ 'آہ و بکاء کو شعر کے قالب میں اسی طرح ڈھالتا ہے کہ اشعار خود مجسم تصویر درد بن جاتے ہیں۔ اسی بیانِ رنج والم کو مرثیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں بقول عظیم امروہوی:
''انسانی آنسوؤں کی اس مکتوبی شکل کانام ہی مرثیہ ہوگا۔ حضرت ہابیلؑ کی موت پر ابوالبشر حضرت آدمؑ کی آنکھوں میں چھلک آنے والے آنسو شاید وہ پہلا خاموش مرثیہ ہیںجو خود فطرت نے ایک درد رسیدہ باپ کے صحیفۂ عارض پر لکھا ہوگا‘‘(مرثیہ از آدمؑ تا این دم، عظیم امروہوی، آج کل، نئی دہلی، ستمبر ۱۹۸۲ء، ص:۶)
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے ساتھی، عزیز یا خوردو بزرگ کی موت پر اور اس کی دائمی جدائی پر رنج والم کے شدید جذبہ سے دوچار ہوتاہے۔ اس کا اظہار وہ مختلف صورتوں میں کرتاہے۔ عربی، فارسی اور اردو میں اسے مرثیہ کہا گیا ہے۔ سنسکرت میں رودررس(jkSnzjl) کروڑ رس (djw.kjl) اور انگریزی میں الیجی (Elegy) کی مثال دی جاسکتی ہے۔ اس کی ابتدا نسل انسانی کے ساتھ ہوئی ہے۔ اسی لیے دنیا کے پہلے انسان کے نام کے ساتھ ، ایک تصور مرثیہ کا بھی اُبھرتا ہے۔ علماء کاخیال ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا شعر آدمؑ ہی نے سریانی زبان میں کہا تھا، اور یہ شعر مرثیہ ہی میں موزوں کیاگیاتھا۔ بعضوں کا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ نے جب حضرت آدمؑ کو جنت سے نکال کر دنیا میں بھیج دیا تو انھوں نے جنت کے فراق میں مرثیہ کہا۔ کئی لوگوں کی یہ رائے ہے کہ جب قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو موت کے گھاٹ اُتارا تو آدمؑ نے اپنے بیٹے پر رنج وغم کا اظہار کیاتھا اور اپنے مقتول بیٹے پر ماتم وبکا کیاتھا۔ یہ کلمات موزوں کلام کی صورت میں رونما ہوئے اور اسی کا نام مرثیہ ہے‘‘( میر انیسؔ بحیثیت رزمیہ شاعر، ڈاکٹر اکبرحیدری، ص: ۴۴۵)
مرثیہ: عربی لفظ”رثا“ سے بنا ہے جس کے معنی مردے کو رونے اور اس کی خوبیاں بیان کرنے کے ہیں۔ یعنی مرنے والے کو رونا اور اس کی خوبیاں بیان کرنا مرثیہ کہلاتا ہے۔
مرثیہ کی صنف عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو میں آئی۔ لیکن اردو اور فارسی میں مرثیہ کی صنف زیادہ تر اہل بیت یا واقعہ کربلا کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی عظیم شخصیات کے مرثیے لکھے گئے ہیں۔

اردو میں مرثیہ کی ابتدا:
اُردو میں مرثیہ کی ابتدا دکن سے ہوئی۔ دکن میں عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں کے بانی امامیہ مذہب کے پیروکار تھے اور وہ اپنے ہاں امام باڑوں میں مرثیہ خوانی کرواتے تھے۔ اردو کا سب سے پہلا مرثیہ گو دکنی شاعر ملا وجہی تھا۔ لکھنؤ میں اس صنف کو مزید ترقی ملی اور میر انیس اور میر دبیر جیسے شعرا نے مرثیہ کو اعلٰی مقام عطا کیا۔ مرثیہ کا زیادہ استعمال واقعہ کربلا کو بیان کرنے میں ہوتا ہے۔
غریب زہرا ؐ کی عزاداری میں شعر لکھنا:
شیخ صدوق علیہ لرحمہ نے کامل الزیارات میں اور ابن قولویہ نے کامل الزیارات میں پورے سلسلۂ سند کے ساتھ ابو عمارہ شاعر کے ذریعہ امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ۔آپ نے مجھے فرمایا :
اے ابو عمارہ مجھے مظلومیت حسین ؑ کے چند اشعار سناؤ۔
میں نے ایک مرثیہ سنایا ۔آپ ٹوٹ کر روئے۔میں چپ ہو گیا ۔آپ نے فرمایا۔نہیں ابو عمارہ تو مرثیہ خوانی کرتا رہ۔اور میں ایک کے بعد دوسرا مرثیہ پڑھتا رہا ۔اور امام صادق علیہ السلام دھاڑیں مار کر روتے رہے حتیٰ کہ پس پردہ سے بھی رونے کی آوازیں آنے لگیں۔
آپ نے فرمایا ! ابو عمارہ جو غم مظلوم کربلا میں شعر لکھ کر پچاس آدمیوں کو رلائے وہ داخل جنت ہوگا۔
جو غم حسین ؑ میں شعر لکھ کر تیس آدمیوں کو رلائے وہ داخل جنت ہوگا۔
جو غم حسین ؑ میں شعر لکھ کر دس آدمیوں کو رلائے وہ داخل جنت ہوگا۔
جو غم حسین ؑ میں شعر لکگ کر ایک آدمی کو رلائے وہ داخل جنت ہوگا۔
جو غم حسین ؑ میں شعر لکھ کر خود روئے وہ داخل جنت ہوگا۔جو غم حسین ؑ میں شعر لکھ کر رونے کی صورت بنائے وہ داخل جنت ہوگا۔’’(الدمعۃ الساکبہ جلد دوم صفحہ ۱۱۷)
اسی انداز کی ایک روایت مشہور شاعر اہل بیت جناب دعبل خزاعی کی حضرت امام رضا علیہ السلام سے بھی مروی ہے۔
غرض مرثیہ کی عظمت و فضیلت کے ساتھ ساتھ ضرورت ہے کہ اس فن کو قوت و شہرت دینے کے لئے زیادہ سے زیادہ موقع مہیا کئے جائیں۔اور عالی شان پیمانہ پر مجالس مرثیہ خوانی کا اہتمام کیا جائے۔

لائق تحسین و آفرین ہیں حجۃ الاسلام مولانا سید صفدر حسین زیدی مدیر و پرنسپل جامعہ امام صادق ؑ شہر و ضلع جون پور(اتر پردیش ) ہندوستان اور اراکین و مدرسین و طلاب جامعہ امام جعفر صادق ؑ و مومنین شہر و و ضلع جون پور جنھوں نے اس سال ایام عزائے فاطمیہ کے سلسلہ کی سہ روزہ مجالس بتاریخ ۱۷؍۱۸؍۱۹ دسمبر بروز جمعہ و سنیچر و اتوار صرف مرثیہ خوانی کا نہایت کامیاب پروگرام تشکیل دیا جس میں ملک کے مختلف نامور مرثیہ نگار شعراء کرام سید محمد احسن جونپوی،سید محمد جواد عابدی محمدآبادی،سید اشجع رضا زیدی سیتھلی،پروفیسر علی خان محمودآبادی،سید ثمین مصطفےٰ مقیم حال اٹلی،سید سعید الحسن رضوی،سید ندیم زیدی نوئیڈا،سید شبیہ الحسن جونپوری،عون پرتاب گڑھ،کمیل جونپوری وغیرہ اپنے نو تصنیف مراثی پیش فرمائیں گے۔

مذکورہ پروگرام اپنی نوعیت و ندرت کے لحاظ سے قوم و مذہب کی خدمت کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی بھی قابل قدر خدمات کے طور پر ’’خوش آئند اقدام ‘‘ تصور کیا جارہا ہے۔اس موقع پر مراثی محترمہ بابو سید پوری اور مجموعہ قصائد سید ضمیر الحسن رضوی کی رسم اجراء بھی ادا کی جائے گی ۔نظامت کے فرائض سحر ؔ عرشی بڑا گاؤں انجام دے رہے ہیں ۔آج کے پروگرام میں عون پتاب گڑھی و ثمین مصطفیٰ اٹلی اور سعید الحسن اور ڈاکٹر شبیہ الحسن جونپوری بہت کامیاب نے ذاکری فرمائی۔

جون پور میں ایام عزائے فاطمیہ کے موقع پر سہ روزہ مجالس مرثیہ خوانی کا انعقاد

جون پور میں ایام عزائے فاطمیہ کے موقع پر سہ روزہ مجالس مرثیہ خوانی کا انعقاد


لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .