۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
سید احمد علی عابدی

حوزہ/ ہمیں اشعار کہتے وقت ان اشعار کو بطورِ خاص مد نظر رکھنا چاہیے جو دعبل و فرزدق جیسے شعراء نے امام معصومؑ کی موجودگی میں پڑھے ہیں تاکہ شانِ معصوم میں مدح سرائی کے وقت ہماری فکر ان خیالات کی پیروی نہ کرے جو عوام الناس کی توصیف کے مدنظر پیش کئے جاتے ہیں،بلکہ طبیعتِ شعری ان شعرا کےخیالات کی پیروی کرے جنہیں ائمہ معصومینؑکی تائید حاصل ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رثائی ادب کے حوالہ سے مدیر جامعہ امیرالمومنین (نجفی ہاؤس) ممبئی، حجۃ الاسلام و المسلمین الحاج سید احمد علی عابدی صاحب قبلہ نے اپنے تاثرات پیش کیئے ہیں جسکا مکمل متن اس طرح ہے؛

شعر میں ایک خاص طرح کی تاثیر پائی جاتی ہے جو نثر میں نہیں پائی جاتی، اسی بناء پرشعر کہنے کی تاکید کی گئی ہے اور ائمہ معصومین علیہم السلام نےفرمایا کہ جو ہماری شان میں ایک شعر کہے اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا۔ (ثواب الاعمال،ص؍۸۴)

ائمہ معصومین علیہم السلام نے شعراء کی بڑی تعظیم وتقدیر کی ہے،ان کو بہت سراہا ہے، بڑے درجات سے نوازا ہے اور وہ شعرا جو اہلبیت ؑکی شان بیان کرتے تھے،  بالخصوص امام حسین علیہ السلام کے مصائب نظم کرنے والے شعرا جب باریاب ہوتے تو امام معصوم ؑ دریافت کرتے تھے کہ  امام حسین ؑ کے مصائب کے حوالہ سے کوئی نظم کوئی قصیدہ کوئی مرثیہ یا شعر کہا ہے؟ اور جب وہ کہتے کہ ہاں کہا ہے تو ائمہ معصومین ؑ باقاعدہ مجلسیں منعقد کراتے تھے، ان شعراء کو بالائے منبر بھیجتے تھے، وہ شعر پڑھتے تھے معصومینؑ متاثر ہوتے تھے،داد دیتے تائید کرتے اور صلے سے بھی نوازتے تھے، اور وہ صلہ بھی کوئی معمولی صلہ نہیں رہتا تھا، ایک روایت میں ملتا ہے کہ باقاعدہ سونے کے سکے عطا کیا کرتے تھے، بلکہ مزید روایت میں ملتا ہے کہ ایک شاعر آئے  انہوں نے شعر پڑھا تو خواتین اہل حرم نے بھی شعر سنا اور جب و ہ مجلسِ شعر تمام ہوئی تو عورتوں نے اپنے زیورات  اتار کر بھیج دئے اور کہلایا کہ اس وقت ہم مشکل میں ہیں فی الحال یہ زیورات ہدیے کے طور پہ پیش ہیں، اور ائمہ معصومینؑ نےخواتین کے اس عمل کی نفی و تردید نہیں کی بلکہ تائید فرمائی۔ لہذا امام حسینؑ کے غم میں شعر کہنا سننا اور شعرا کو نوازنا سنت اہلبیت علیہم السلام ہے۔

اچھے شعر میں تاثیر پائی جاتی ہے لہذا وہ تمام اشعار جو ستائش اہلبیت اطہارؑ میں کہے جائیں وہ اپنا درجہ رکھتے ہیں۔ البتہ خود شاعر بھی جب شعر کہہ رہا ہو تو اس کا ہدف بھی بیانِ فضائل ومصائب ہو، لوگوں کی جلبِ توجہ یا تعریف نہ ہو، شعر گوئی کا مقصد نشرِ مناقب ہو رنگِ محفل کا جمنا یا شورِمجلس کااضافہ نہ ہو،  اصل ہدف فلک شگاف نعروں کے بجائےذکرِ مصائب اہلبیتؐ اور تسکینِ قلبِ جنابِ سیدہ ؐ ہونا چاہیے۔

بالخصوص آج کے شعراء کے نزدیک شعر گوئی کا ہدف فضائل کا بیان اور ان اعتراضات کا جواب ہونا چاہیے جو عزاداری کے تعلق سے پیش کئے جارہے ہیں، لہذا وہ تمام اشعار جو اس عظیم ہدف کی برآری اور خلوصِ نیت سے کہے جائیں، یا وہ شعر جوسننے والے کی آنکھوں میںاہلبیتؐ کی مصیبت پر آنسو آجانے کا ذریعہ بن جائے تو ایسا شعر انسان کیلئے جنت کی ضمانت بن سکتا ہے۔

من بکا و ابکی بیانِ مصائب کے ساتھ ساتھ شعر کوبھی شامل ہے،لہذا ایسا شعر جسے سن کر آنکھوں میں آنسو آجائیں بلاشبہہ جنت میں جانے کا سبب ہے۔ (کامل الزیارات)
لہذا وہ تمام افراد جو اس وقت شعر کہہ رہے ہیں یقینا اپنے لئے ایک بڑا درجہ فراہم کررہے ہیں اور حضرتِ زہرا سلام اللہ علیہا کی تسکینِ قلب کا سبب قرار پارہے ہیں۔

ہمیں اشعار کہتے وقت ان اشعار کو بطورِ خاص مد نظر رکھنا چاہیے جو دعبل و فرزدق جیسے شعراء نے امام معصومؑ کی موجودگی میں پڑھے ہیں تاکہ شانِ معصوم میں مدح سرائی کے وقت ہماری فکر ان خیالات کی پیروی نہ کرے جو عوام الناس کی توصیف کے مدنظر پیش کئے جاتے ہیں،بلکہ طبیعتِ شعری ان شعرا کےخیالات کی پیروی کرے جنہیں ائمہ معصومینؑکی تائید حاصل ہے۔

اگر ہم نے ان موردِ تائیدِ امامِ معصوم شعراء کی پیروی کی تو کوئی بعید نہیں کہ ہمارے اشعار کو بھی امام وقتؑ کی تائید حاصل ہوجائے، اور جس شعر کو امام وقتؑ کی تائید حاصل ہو یقینا وہ جنت کی ضمانت قرار پائے گا۔

خدا تمام شعراء کو فضائل و مناقب ومصائب اہلبیتؑ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر شعر ایسا ہو جو امام وقت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرے۔ والسلام

تبصرہ ارسال

You are replying to: .