۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
علامہ ہاشم موسوی

حوزہ/ نوجوانوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران ایم ڈبلیو ایم کے رہنماء کا کہنا تھا کہ قرآن سے انس انسان کو نہ صرف آخریت بلکہ دنیا میں بھی بلندی عطا کرتی ہے۔ یہ قرآن کریم ہی کی برکات کا نتیجہ تھا کہ علامہ اقبال مغرب سے متاثر نہیں ہوئیں۔ انکے کافی اشعار مغربی کلچر کے خلاف ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی شوریٰ عالی کے رکن علامہ سید ہاشم موسوی نے کوئٹہ میں نوجوانوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ علامہ محمد اقبال ایک عظیم شخصیت تھے۔ جنہوں نے تعمیر پاکستان کا خواب دیکھا اور دو قومی نظریہ پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ بسویں صدی میں ہزاروں شعراء تھے مگر ہم نے علامہ اقبال جیسا کوئی دوسرا شاعر نہیں دیکھا، جن کی اردو اور فارسی شاعری اقوام اور ملت کیلئے کسی صنعت سے کم نہیں۔ انہوں نے اردو اور فارسی کے دیگر معروف شعراء کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال ہر زہن میں پیدا ہوتا ہے کہ اردو میں جوش ملیح آبادی، اسد اللہ غالب، میر تقی میر، رئیس امروہوی اور فارسی میں پروین اعتصامی، سید محمد حسین شہریار اور دیگر معروف شعراء کی موجودگی میں اقبال کو یہ بلندی کیسے ملی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ علامہ اقبال قرآن کریم کے عاشق تھے۔ قرآن ہی انسان کو دنیا اور آخریت میں اعلیٰ مقام عطا کرسکتی ہے۔ روایات میں بھی اسکا تذکرہ ملتا ہے، کہ پڑھو اور بلندی حاصل کرو۔

مجلس وحدت مسلمین کے رہمناء نے کہا کہ علامہ اقبال کو قرآن کریم سے بے حد لگاؤ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اقبال جامعہ کیمبرج میں سات سال زیر تعلیم رہیں اور پھر وہیں درس دیا۔ وہاں ان کے روم میٹ نے یہ بات نقل کی ہے کہ جب اقبال قرآن پڑھا کرتے تھے، تو وہ بے خودی کی عالم میں گرفتار ہوجاتے اور اس قدر روتے کہ ان کے اشک قرآن کریم پر ٹپک جاتے تھے۔ وہ قرآن کریم جناب اقبال کے مقبرے میں موجود ہے، جسے دیکھنے پر یوں لگتا ہے کہ شاید یہ قرآن بارش میں رکھی گئی ہو، حالانکہ وہ نشانات بارش نہیں بلکہ اقبال کے اشکوں کے ہیں۔ قرآن سے انس انسان کو نہ صرف آخریت بلکہ دنیا میں بھی بلندی عطا کرتی ہے۔ یہ قرآن کریم ہی کی برکات کا نتیجہ تھا کہ علامہ اقبال مغرب سے متاثر نہیں ہوئیں۔ انکے کافی اشعار مغربی کلچر کے خلاف ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ علامہ اقبال کے اشعار میں بھی ہمیں قرآن کریم کی تعلیمات ملتی ہے۔ انہوں نے علامہ اقبال کے شعر "ہو حلقہ ياراں تو بريشم کی طرح نرم، رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اقبال کے بعض اشعار قرآن کریم کے ترجموں سے اخذ ہوئے ہیں اور اس طرح کے سینکڑوں اشعار ان کی شاعری میں ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خداوند عالم نے اقبال کو ایک عجیب بصیرت عطا کی تھی۔

انہوں نے نہ صرف پاکستان کا نظریہ پیش کیا تھا بلکہ وہ اپنے اشعار میں انقلاب اسلامی سے متعلق بھی پیشن گوئی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنے ایک فارسی شعر میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک مرد مومن آئینگے اور مغرب کی غلامی کی زنجیر کو مسلمانوں کے گلے سے اتھار دیںگے۔ اس شعر میں امام خمینی رح کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ جن افراد کو قرآن حکیم سے محبت ہوتی ہے، انہیں ہی ایسی بصیرت عطا کی جاتی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .