حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،علیرضا قزوه نے جمعہ کے روز برصغیر مطالعات کانفرنس کے اجلاس میں کہا: "آج ہندوستان میں دس لاکھ فارسی کے اصل نسخے موجود ہیں ، جو ایران ، افغانستان ، ترکمنستان اور دیگر تمام ممالک میں فارسی کے تمام نسخوں سے کہیں زیادہ ہیں ، جن میں سے بیشتر ابھی تک شائع نہیں ہوئے اور نہ ہی پڑھے گئے۔" .
علی رضا قزوه نے کہا: "جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک کے مابین بڑی تعداد میں تجارتی تعلقات کی وجہ سے ، کورین اور جاپانی زبانیں آہستہ آہستہ لوگوں میں اپنی پہچان بنارہی ہیں اور فارسی زبان کا ایک چھوٹا طبقہ بھی اب لوگوں کے درمیان سے محو ہورہا ہے‘‘۔
فارسی شاعری میں ہندوستانی شاعروں کی شراکت
ہندوستان میں ایران کے نائب ثقافتی مشیر نے بتایا: کچھ لوگوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی ابتدائی موجودگی کے ساتھ ہی فارسی زبان کی ابتدائی موجودگی کا پتہ لگایا ہے۔
علیرضا قزوه نے مزید کہا: "اس کے باوجود، ایران اور فارسی زبان کا برصغیر کے ساتھ رابطہ سندھ علاقے سے اور ایران کی شرقی سرزمین سے رابطے کی راہ رہی ہے۔"
ہندوستان میں ایران کے نائب ثقافتی مشیر نے کہا: سرزمین سندھ اور شہر لاہور میں تاجروں ، صوفیوں، شاعروں وغیرہ کی موجودگی برصغیر میں فارسی زبان کی موجودگی کا باعث رہی ہے۔
علیرضا قزوه نے یاد دلایا: جب محمود غزنوی برسر اقتدار آیا اور برصغیر تک اپنا اثر و رسوخ بڑھایا، تو خراسانی طرز کے بہت سے شعراء سلطان محمود کے دربار میں موجود تھے، ان میں "عبد اللہ روزبه النکتی" تھے۔
علیرضا قزوه کے مطابق، غزنوی دور کے دوران، "مسعود سعد سلمان اور ابوالفراج رونی" جیسے خراسانی شاعروں کی ایک بڑی تعداد سرزمین سندھ اور برصغیر میں نمودار ہوئی ہے۔
علیرضا قزوه کے مطابق، مسعود سعد سلمان نے برصغیر پاک و ہند کے فارسی بولنے والے شعراء میں خراسانی انداز میں فارسی زبان کے پرچم کو سب سے اوپر بلند کیا ہے۔
انہوں نے یاد دلایا: برصغیر پاک و ہند کے شعراء نے 20فی صد شاعری فارسی زبان میں کی ہے اور اس سرزمین سے 20 شعراء تاریخ میں یادگار حیثیت کے حامل ہیں۔
علیرضا قزوه نے مزید کہا: "چھٹی سے نویں صدی تک، عراقی طرز نے خراسانی شاعری کی جگہ لی، اور فردوسی خراسانی کے علاوہ، فارسی کے سب سے بڑے اور با اثر شعراء عراقی طرز کے شاعر ہوئے ہیں۔"
ان کے مطابق، عراقی طرز پر، برصغیر کے مشہور شعراء میں دو شاعر، معین الدین چشتی اور نظام الدین اولیاء شامل تھے۔
ہندوستان میں ایران کے نائب ثقافتی کونسلر نے بیان کیا: عراقی انداز میں ہندوستانی شاعروں کا حصہ اس حصے کی شاعری میں سے تقریبا 15٪ ہے جبکہ تذکرہ نویسی میں ہندوستانی ادیبوں کا حصہ انکی نظموں سے کہیں زیادہ ہے۔
انہوں نے بیان کیا: "شہر اشوب" کے اسلوب میں فارسی شاعری کرنے میں، ہندوستانی شاعروں کا حصہ خراسانی اور عراقی اسلوب سے بہت زیادہ ہے۔
علیرضا قزوه نے کہا: "فیضی"جیسے شاعر اور کچھ دوسرے شاعروں کا شہر اشوب کے انداز میں شاعری پیش کرنے میں نمایاں کردار ہے۔"
ان کے بقول، "ہندی" یا پھر اصفہانی انداز میں ہندوستانی شاعروں کا حصہ نمایاں طور پر بڑھا ہوا ہے اور "صائب تبریزی" بحیثیت ایک عظیم فارسی شاعر ، اس انداز میں اپنی نظمیں لکھ چکے ہیں۔
ہندوستان میں ایران کے نائب ثقافتی مشیر نے کہا،"بیدل دہلوی‘‘ عظیم مفکر اور خیال پرداز ہیں جو ہندوستانی سبک کی شاعری میں پیچیدہ خیالی کے راہبر ہیں اور جو عالم اسلام کے حقیقی صوفی تھے۔ "
انہوں نے بتایا: بیدل دہلوی، کا تعلق ترکی شیرازی اور ماوراء النهر سے تھا لیکن اس نے اپنی پوری زندگی ہندوستان میں ہی گزار دی۔
انہوں نے یاد دلایا: "غنی کشمیری" ہندوستانی طرز کے ان دیگر شاعروں میں سے ایک ہیں جن کا برصغیر میں فارسی زبان پر گہرا اثر پڑا ہے۔
علیرضا قزوه کے مطابق، بیدل دہلوی کو مولانا رومی، فردوسی، حافظ، سعدی اور نظامی جیسی فارسی شاعری کے چوٹی کے شعراء کے ہم پلہ تو نہیں مانا جاسکتا، لیکن انہیں آسانی سے نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ہندوستان میں ایران کے نائب ثقافتی مشیر نے کہا کہ "حزین لاہیجی" برصغیر میں شاعری کے میدان میں ایک اور ممتاز شاعر ہیں، جو ایرانی نسل کے ہیں اور انھوں نے ادبی تنقید میں ہندوستانی شاعروں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
قزوہ نے یاد دلایا: ہندوستان میں حزین لاہیجی کی موجودگی کے ساتھ ہی، برطانوی کمپنیاں آہستہ آہستہ تجارت کے ذریعہ برصغیر سے فارسی زبان کو ہٹا رہی تھیں اور ہندوستان میں لاطینی زبان کی میز کو پھیلارہی تھیں۔
انہوں نے کہا: ہندوستان میں اپنی موجودگی کے پہلے 50 سالوں میں برطانوی فارسی زبان کو ختم نہیں کرسکے، لیکن دوسرے 50 سالوں میں، فارسی کے علاوہ، انہوں نے اردو زبان کو بھی پسماندہ کردیا ، اور تیسرے 50 سالوں میں، انہوں نے عملی طور پر انگریزی کو برصغیر کی اصلی زبانوں مین تبدیل کردیا۔ .
ہندوستان میں ایران کے نائب ثقافتی مشیر نے کہا ، "محمد اقبال لاہوری" ہندوستان میں فارسی زبان کے پرچم کو بلند کرنے والے آخری شاعر ہیں، اور اقبال کے بعد، برصغیر میں فارسی کا چراغ گل ہوتا گیا۔
علیرضا قزوه نے کہا، موجودہ دور میں "انجمن ادبی بیدل" کے آغاز کے ساتھ، برصغیر میں تقریبا 10 فارسی شعرا کو تربیت دی جا چکی ہے، اور ہندوستان میں ایک اور امید کی روشنی روشن ہوئی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا: گذشتہ چند سالوں کے دوران ، ہندوستانی شاعروں کی شاعری کی 10 کتابیں فارسی میں شائع ہوچکی ہیں۔
واضح رہے کہ جمعہ کے روز قم میں سیاسی ، ثقافتی اور مذہبی شخصیات کے خطاب کے ساتھ برصغیر پاک و ہند کی کانگریس کا اجلاس ہوا۔