حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ، بلتستان ایک ادیب شاعر مصنف مترجم اور عظیم علمی سرمایہ سے محروم ہو گیا.
پروفیسر حشمت کمال الہامی اچھےاخلاق بہترین کردار واعلی گفتار اور نیک صفات و خصوصیات کے مالک تھے،آپ منکسر المزاج سادہ طبیعت حلیم الطبع مہمان نواز اور غریب پرور انسان تھے۔
آپ کی علمی دینی اور ملی خدمات ناقابل فراموش ہیں ادبی محفل ہو یا جشن میلاد آپ زینت محفل اور رونق جلسہ تھے آپ کی نعتوں اور منقبتوں سے محفلیں مزین اور روحانی ہو جاتی تھیں
آپ جہاں ادیب اور شاعر تھے وہاں آپ قابل ترین معلم اور مربی بھی تھے
آپ نے ہزاروں شاگردوں کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کر کےاعلی مقامات تک پہنچنے میں صدق دل سے راہنمائی کی
گلگت بلتستان میں آپ کی عزت اور نیک شہرت آپ کےاعلی اخلاق و کردار اور علمی خدمات کااعتراف ہے
آپ کو علم اور علماء سے ایک خاص قسم کا لگاؤ تھا یہ آپ کی علم دوستی کی علامت تھی
کسی نے مولا علی علیہ السلام سے سوال کیا آپ کے ماننے والوں کی کیا نشانی ہے تو آپ نے فرمایا:
میرے ماننے والے علم دوست ہیں یا عالم دوست ہیں
آپ میں یہ دونوں نشانیاں موجود تھیں
آپ کو کتابوں سےبہت لگاؤ تھا کتب کا مطالعہ آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا
علماء اور دانشوروں کی صحبت اور ہم نشینی کو ہر چیز پر ترجیح دیتے تھے
آپ سے علمی گفتگو میں وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا
بلخصوص شعر و شاعری کی بات چھڑجاتی تو رات دن میں بدل جاتی لیکن بات ختم نہ ہوتی
آپ کے اشعار بہت گہرے بامعنی ادب سے بھر پور اور حالات اور واقعات کی مکمل عکاسی کرتے ہیں
آپ نے شعر و شاعری کی طرف اہل علم کو متوجہ کیا اور نئے نئے شعراء کو متعارف کرایا اور گمنام شعراء جناب شیخ غلام حسین سحر جیسے شاعر چار زبانوں پر عبور رکھنے والے اور جناب حکیم جیسے بابائے بلتی کو متعارف کرایا یوں بلتستان علم و ادب کامرکز وگہوارہ بن گیا
شعر و شاعری اور ادب کی ترقی میں جہاں تمام اہل علم و دانش کا عمل دخل ہے وہاں کمال الہامی کی باکمال خدمات قابل ستائش و قابل تقلید ہے
آپ کی رباعیات پر مشتمل کتاب یقینا ایک علمی ذخیرہ ہے
اور آپ قوم وملت کا ایک عیظم علمی سرمایہ تھے
آپ کا تعلق ایک علمی ودینی خاندان سے تھا آپ بلتستان کواردوکے معروف عالم دین حجة الإسلام و المسلمین شیخ محمد جو اعلی اللہ مقامہ کے نواسے اور مایہ ناز عالم دین حجة الإسلام و المسلمین شیخ علی فاضلی مرحوم اور حجة الإسلام و المسلمین شیخ حسن فخر الدین کے بھتیجے تھے آپ کے دادا بھی کواردو کے اعلی اور معروف دینی خاندانوں میں سے تھے
آپ خیر پورکےمدرسہ سلطان المدارس اور کراچی کے مدرسہ جامعہ امامیہ کے فارغ التحصیل علماء میں سے تھے اسی لئے آپ کو دینی علوم پر مکمل دسترسی حاصل تھی،
آپ نے اپنی پوری زندگی قوم و ملت کی خدمت اور تعلیم وتعلم میں گزاری ،کچھ عرصہ گلگت میں تعلیمی خدمات انجام دیتے رہیں پھر سکردو کے ڈگری کالج میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہیں پھر آپ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں اور کچھ عرصہ قبل آپ رٹائرڈ ھوئے تھے،
تاہم آپ کی علمی فعالیت اسی طرح جاری تھی کہ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے ایک دنیا کو روتا چھوڑ کر عالم بقا کی طرف کوچ کر گئے
اللہ تعالی آپ کو اعلی علیین میں جوار رحمت اور اھلبیت اطہار علیہم السلام کی قربت میں جگہ عطا فرمائے ، مداحان محمد و آل محمد علیہم السلام میں قرار فرمائے ،شفاعت اھلبیت علیہم السلام سے بہرہ مند فرمائے اور منازل قبر وآخرت کو آسان فرمائے.
News ID: 361750
1 اگست 2020 - 22:23
- پرنٹ
حوزہ/ پاکستان ایک مایہ ناز ادیب شاعر مصنف مترجم اور عظیم علمی سرمایہ سے محروم ہو گیا.