۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
یاد انیس

حوزہ/ پروفیسر سراج اجملی: میر انیس کے نام سے مرثیہ ریسرچ سنٹر قائم کیا جائے:ڈاکٹر عمار رضوی، متن کو صحیح پڑھنا قاری کا اولین فریضہ ہے/ وقار رضوی مرثیہ تحقیق ایوارڈقاضی اسد ،میر انیس ایوارڈباقر حسین نجمی، میر انیس سوزخوانی ایوارڈ حسن رضا اورعشرت لکھنوی ایوارڈ مضطر جونپوری کو دیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ میر انیس نے اپنے مرثیوں کو زبان کاایک ایسا مجموعہ بنایا کہ جس کی دوسر ی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے۔ہم شعرا کی عظمت کی بات کرتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے یہاںاچھے اور بڑے شعرا کی کمی نہیں ہے۔ میر بھی ہیں،غالب بھی ہیںاور دوسرے شعرا بھی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ میرا نیس کی شخصیت اور میر انیس کا فن ان دوسرے بڑے شعرا سے مختلف کیسے ہے۔لہذا عظمتوں کے مدارج ہم ایک نہیں رکھ سکتے۔یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ اگر میر تقی میر عظیم ہیں تو انیس نہیں ہو سکتے۔یا غالب عظیم ہیں تو انیس نہیں ہو سکتے۔ان کی عظمتوں کے مدارج الگ ہیں۔میرا نیس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے روزمرہ کو ادبی زبان کا درجہ دیا۔

روزمرہ کو ادبی زندگی دینا میر انیس کا سب سے بڑا کمال ہے: پروفیسر شارب ردولوی

ان خیالات کا اظہار پروفیسر شارب ردولوی نے حسین آباد کے چھوٹے امام باڑے میںا ودھ نامہ ایجوکیشنل اینڈ چیریٹبل ٹرسٹ اور فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی اتر پردیش کےباہمی اشتراک سے آسمان مرثیہ کے مہر تاباں میر انیس کے 148 ویں یوم وفات پر ہونے والےایک روزہ سمینار بعنوان ”یاد انیس“ میں کیا۔اپنے صدارتی خطاب کو جاری رکھتے ہوئے پروفیسر شارب نے کہا کہ میر انیس نے روز مرہ کو ادبی زندگی دی ہے۔ان کے کلام کوہم جہاں سے دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ ان کے یہاں یہ خوبی اور یہ خوبصورتی اور اظہار کی یہ طاقت انھیں دوسروں سے بہت ممتاز کرتی ہے۔

مہمان خصوصی اطہر صغیر تورج زیدی (چئیر مین فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی اتر پردیش) نے کہا کہ میر انیس پر یہ سمینار جس کامیابی سے ہمکنار ہو رہا ہے اور اس میں جس طرح کا جوش اور جذبہ سامنے آیا ہے اس سے ہمارے حوصلے بلند ہو ئے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ اودھ نامہ ٹرسٹ اگر تجویز اور پرپوزل دے تو فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی آئندہ سال میر انیس پر بین اااقوامی سطح کے سمینار کاانعقاد کرنے کے لئے اپنا تعاون پیش کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میر انیس کے نام سے ایک لائبریری کا قیام ہونا چاہئے ،جس کے لئے کتابوں کا انتظام کمیٹی کرے گی۔تورج زیدی نے اودھ نامہ کے بانی وقار رضوی کو یاد کرتے ہوئے ان کے ذریعہ مزار انیس کی تزئین کاری کا ذکرخاص طور سے کیااور وقار رضوی کے نام سے شہر میں ایک لائبریری کے قیام پر بھی زور دیا۔سمینار میں خاص طور سے کاٹھمنڈو نیپال کی جمعہ مسجد کے امام ڈاکٹر زین العابدین ، لندن کے قائم مہدی اور میر جعفر عبداللہ بھی شہ نشین کی زینت تھے ۔

روزمرہ کو ادبی زندگی دینا میر انیس کا سب سے بڑا کمال ہے: پروفیسر شارب ردولوی

سمینار کے مہمان اعزازی ڈاکٹر عمار رضوی (سابق عبوری وزیر اعلی اترپردیش)نے اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لکھنؤ کی تہذیب اور کلچر کو مانے کی کوششیں تو بہت کی گئیں لیکن لکھنؤ آج بھی زندہ ہے،۔اس کا کلچر زندہ ہے اور میر انیس زندہ ہیں یہ کوئی چھوٹی بات نہیںہے، برائی کے خلاف،زیادتی کے خلاف،ظلم کے خلاف جنگ ہمیشہ چلتی رہے گی۔کربلا دس محرم کو ختم نہیں ہوئی بلکہ کربلا کا سلسلہ دس محرم سے شروع ہوا ہےاور وہ قیامت تک چلتا رہے گا۔اس موضوع کو میر انیس نے جس طرح سے پیش کیا ہے شاید ہی کسی نے پیش کیا ہو۔انھوں نے کہا کہ مرثیہ کے موضوعات اور مشمولات سے کلی طور پر آپ بھلے متفق نہ ہوں لیکن اس کی ادبی قدر و قیمت کے سامنے آپ کو سر تسلیم خم کرنا ہی ہوگا۔

مہمان ذی وقار کی حیثیت سے شعبہ اردو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر سراج اجملی نے اپنے خطاب میں کہا کہ میر اور غالب کے بعد عظمت کا تاج جس کے سر پر سجتا ہے وہ میر انیس ہیں۔انھوں نے کہا کہ شاعری پہلے بھی ہوری تھی،مرثئیے پہلے بھی لکھے جا رہے تھے۔مرثیہ کی یہ ہیئت یعنی مسدس بھی موجود تھی۔لکھنؤ میں رثائی شاعری ہو رہی تھی لیکن کوئی آئے اور چھا جائےاور صف اول کی جگہ حاصل کر لے بلکہ وہ جگہ اسےنذر کر دی جائے، یہ مرتبہ یہ مقام یہ عظمت ،یہ کمال انیس کا ہے۔ابھی تو ڈیڑھ سو برس گذرے ہیں ،ڈیڑھ ہزار برس بھی گذریں گے ۔ہم تو نہیں ہوں گے لیکن میر انیس کا نام اسی طرح لیا جاتا رہے گا۔

ڈاکٹر وضاحت رضوی سابق ایدیٹر ماہنامہ نیا دور ،لکھنؤ نے” فن سوز خوانی کا اجمالی جائزہ۔“موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے سوز خوانی کی تاریخ اور تعریف پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ سوزخوانی موسیقی کے راگ '”دھر پت؛پر مبنی ہے ۔انھوں نے فی زمانہ سوز خوانی اور مرثیہ خوانی کی تربیت کی ضرورت پر بھی زور دیا۔غلام عباس ریسر چ اسکالر نے میر انیس کی قوت منظر نگاری موضوع پر مقالہ پیش کیا۔

روزمرہ کو ادبی زندگی دینا میر انیس کا سب سے بڑا کمال ہے: پروفیسر شارب ردولوی

کاظم رضا شکیل کی کنوینر شپ میں ہونے والےپروگرام کاآغاز ڈاکٹر ہارون رشید نے تلاوت کلام ربانی سے کیااور حسن رضا خان نے سوز خوانی کی ۔مہمانوں کی گلپوشی کے بعدموسی رضا نے سمینار کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے مرثیہ کی مختصر تاریخ بھی بیان کی ۔انھوں نے میر انیس کے مزار کی تزئین کاری اور اس کی تحریک میں وقار رضوی کے تعاون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ میر انیس کے نام سے ایک اکادمی کا قیام بھی کرنا چاہتے تھےآج کایہ سمینار وقار رضوی کے خوابوںکی تعبیر کی طرف پہلا قدم ہے۔

اس موقع پر وقار رضوی ایوارڈ برائے مرثیہ تحقیق قاضی اسد کو،میر انیس ایوارڈ ان کے خاندان کے فرد باقر حسین نجمی کو،میرانیس سوز خوانی ایوارڈ حسن رضا کو،عشرت لکھنوی ایوارڈ شیعہ انٹر کالج کے سابق پرنسپل اور مرثیہ نگار مضطر جونپوری کو،حیدر نواب جعفری ایوارڈ عارش عباس کو اور انیس شناسی ایوارڈ امروہہ کے انجم عباس نقوی کو دیا گیا ۔سمینار میںمیر انیس کے حوالے سے سوالات و جوابات کا سلسلہ بھی رکھا گیا اور پہلے درست جواب دینے والوں کو انعام سے نوازا گیا۔ان کے علاوہ حسینی چینل،خدیجہ ٹی وی اور ہز ٹی وی کے زمہ داروں کو ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ سے نواز گیا۔

سمینار میں جن اہم شخصیات نے خاص طور سے شرکت کی ان میںمولانا قسیم اشرف،سید کاظم رضا تقوی،ایم ایم محسن،سید جمیل احمد،ٖسید عارف،ڈاکٹرمنتظر قائمی۔ڈاکٹر معصوم رضا،سیف عابدی، فاطمہ ہاشمی،سمن رضوی،عالم رضوی،نذر مہدی رضوی۔عاصم رضا ،شمیم حسنین ،شبد ستا کے ایڈیٹر سوشیل سیتا پوری اورسید جمیل کے علاوہ بڑی تعداد میں محبان اہل بیت و ادب موجود تھے۔

روزمرہ کو ادبی زندگی دینا میر انیس کا سب سے بڑا کمال ہے: پروفیسر شارب ردولوی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .