۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
سیرت زہرا کانفرنس

حوزہ/ ایران کلچرہاؤس میں بعنوان ’حضرت فاطمہ زہرا خاندانی اقدار اورمعاشرے کے لئے رول ماڈل‘ انٹر نیشنل کانفرنس میں اسکالرس اور معلمات نے خطاب کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ام الائمہ حضرت فاطمہ زہراؑ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے ایران کلچرہاؤس، نئی دہلی میں ایک انٹر نیشنل کانفرنس بعنوان ’حضرت فاطمہ زہرا خاندانی اقدار اورمعاشرے کے لئے رول ماڈل‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہندوستان اورایران کی اسکالرس ومعلمات نے دختر رسول کی حیات طیبہ پرپُر مغز خطاب کیا۔

ایران کلچرہاؤس اور ’کنیزان زہرا‘ کے باہمی اشتراک سے منعقد ہونے والی کانفرنس کا آغاز جوائریا عبداللہ نے تلاوت کلام پاک سے کیا جبکہ سیدہ ریاض فاطمہ نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ ایران کلچرہاؤس کے کلچرل کونسلر ڈاکٹر محمد علی ربانی نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کی تاریخ کو اسلامی تاریخ کا اہم واقعہ سمجھنا چاہئے کیونکہ جن ایام میں آپ کی ولادت ہوئی وہ دور خواتین اور بیٹیوں کے حوالے سے انتہائی تکلیف دہ اور شرمناک تھا، ایسے دورمیں اللہ نے پیغمبراسلام کو مصداق آیت کوثر کے طور پر فاطمہ جیسی بیٹی عطا کی جو اس دور کی تمام تراخلاقی اور سماجی کج فکریوں کا اللہ کی طرف سے بنیادی جواب بھی تھا۔

انہوں نے کہا کہ بی بی زہرا کی ولادت اللہ کی جانب سے اس اہتمام کا حصہ تھا جس میں خدا نے کاروان انسانیت اور قافلہ بشریت کو یہ جواب دینا چاہا کہ دین اسلام میں صنفی امتیازاور تفریق کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ انسان اپنے آپ میں انتہائی محترم ہے خواہ وہ مرد ہو یاعورت ہو، دونوں کی ہی اپنی عزت ہے اوراس کا وقار ہے۔ ڈاکٹر ربانی نے حضرت فاطمہ کی عظمت بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضور اکرم نہ صرف باپ کی حیثیت سے بلکہ پیغمبرخدا ہونے اور تمام تر فضائل وکمالات کے باوجود آپ بیٹی کے ہاتھ کو بوسہ دیتے تھے اوراس پرانتہائی فخرمحسوس کرتے تھے ۔

عرب میں بیٹیوں کو زندہ درگور کئے جانے دور کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد علی ربانی نے کہا کہ اللہ نے حضرت محمد کو فاطمہ جیسی بیٹی عطا کرکے ان تمام لوگوں کو دندان شکن جواب دیا جن کا خیال تھا کہ حضور کی نسل آگے بڑھنے والی نہیں ہے ،ان سب کے لئے فاطمہ کی ذات والا صفات ایک جواب تھی جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ نہ ان سلطنتوں کا کوئی نام ونشان ہے اور نہ ہی ان خلافتوں کا کوئی سراغ ہے جواس زمانے میں ہوا کرتی تھیں بالخصوص بڑی دارحکومت کے مالک سلطنت بنی عباسی کا سورج نہیں ڈوبتا تھا جن کی آج کوئی خبرنہیں ہے مگرآپ کی نسل پاک سے20 ملین تعداد آج اس دنیا میں موجود ہے۔

ایران کلچرل کونسلر نے کہا کہ اسلامی نقطہ نظر سے عورت غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے اس لئے کیونکہ اللہ نے اسلام کواخلاق اور تمام ترفطری اصولوں پر استوار کرکے اس دین کو آراستہ اور پیراستہ کیا ہے جس میں عورت کا ایک بنیادی کردار ہے ۔

موجودہ وقت میں خواتین کے سماجی ،اخلاقی استحصال کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد علی ربانی نے کہا کہ اگر دنیا نے اسلام میں خواتین کو فراہم کئے گئے مقام، حقوق، اخلاق اور وقار کا لحاظ رکھا ہوتا تو آج ایسی صورتحال نہیں ہوتی اور ابھی بھی یہ ممکن ہے اگرعورت کواس کی قدرو منزلت واپس کردی جائے تو معاشرہ میں توازن اور اخلاقی بحالی ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران اورہندوستان کے تہذیبی وثقافتی روابط کی تاریخ میں خواتین کا اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام عمارتیں اور یادگاریں جنہیں ہم ہندوستان اور ایران کے تعلقات کی شکل میں مشترکہ میراث کے طور پر دیکھتے ہیں، ان میں کہیں نہ کہیں خاتون کا کردار ہے۔

ڈاکٹر ربانی نے کہا کہ آج بھی پوری ظرفیت پائی جاتی ہے کہ ہندوستان اور ایران کی خواتین ان دوملتوں کے ثقافتی روابط میں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ سیدہ ریاض فاطمہ نے دختر رسول کی آفاقی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فاطمہ زہرا تمام بشریت کے لئے اسوہ کامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حضرت فاطمہ وہ عظیم ہستی ہیں کہ جس کے لئے خود رسول فرماتے ہیں کہ اگر تمام اچھائیاں اور اخلاقی فضائل کو مجسم کیا جائے تو وہ فاطمہ زہراؑ کے وجود میں نظرآئیں گی بلکہ فاطمہ کی منزلت اس سے بھی بالاتر ہے۔ محترمہ ریاض فاطمہ نے کہا کہ کوئی بشر فاطمہ کی عظمت وبلندی کودرک ہی نہیں کرسکتا ہے کیونکہ اسے درک کرنے کے لئے لہجہ توحید کا اور لفظ قرآن کے ہونا ضروری ہے اورزبان رسول کی ہو تب جاکر کوئی بتولؑ کی منزلت کو درک کرسکتا ہے۔

کانفرنس کی دیگر مقررین میں پروین فاطمہ زیدی نے ’کنیزان زہرا‘ گروپ کے مقاصد اور اہداف بیان کئے وہیں مدیہا زہرا نے شان فاطمہ زہرا میں قصیدہ خوانی کی۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر زہرا زیدی (جامعہ ہمدرد)، پروفیسر روحی فاطمہ (جامعہ ملیہ اسلامیہ)، پروفیسر خورشید فاطمہ حسینی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)، محترمہ فردوس جہاں، سوسن زہرا اور سطوت نقوی نے سیرت حضرت فاطمہ کے حوالے سے پُرمغز تقریر کی۔ کانفرنس میں دہلی کے علاوہ قرب وجوارسے کثیرتعداد میں خواتین نے شرکت کی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .