۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
ڈارون کے نظریہِ ارتقاء پر علامہ طباطبائی کی تنقیدی نظر

حوزہ/ علامہ طباطبائی چودہویں صدی ہجری کے بڑے مفسر، فلسفی، متکلم، اصولی، فقیہ، عارف، اسلام شناس اور فکری اور مذہبی لحاظ سے ایران کے بااثر علماء میں شمار ہوتے ہیں ۔اس مقالہ میں ڈارون کے نظریہ  ارتقاء اور علامہ طباطبائی کے موقف کا جائزہ لیا جائے گا۔

تحریر: محمد جواد حبیب کرگلی

مقدمہ:
حوزہ نیوز ایجنسی |
انسان اور دوسرے حیوانات کی پیدائش کے بارے میں دانشوروں کے درمیان دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں جن میں ایک نظریہ ارتقاء (Transformism) ہے اور ددسرا نظریہء ثبات (Fixism)یا نظریہءتخلیق (Creation)ہے۔نظریہٴ ارتقا ء جسے چارلز ڈارون (CHARLES DARWIN) نے سنہ 1859 میں اصل الانواع(THE ORIGIN OF SPECIES)کے عنوان سے لکھی گئی اپنی کتاب میں پیش کیا تھا۔اس کے خلاف ایک اور نظریہ ہے جسکو نظریہٴ ثبات کہاجاتاہے جس کے مطابق انسان خدا کا مخلوق ہے اور اسے خدا نے بحیثیت انسان ہی پیدا کیا ہے۔قرآن واحادیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہےکہ خدا نے حضرت آدم علیہ السلام اوران کی بیوی حضرت حوا کومٹی سے پیدا کیا ، پھر اس جوڑے سے تمام بنی نوع انسان دنیا میں پھیلے ہیں۔آدم علیہ السلام کا پتلا جب خداٰ نے بنایا تو اس میں اپنی روح پھونکی اور اسی روح کا اثر ہے کہ انسان میں دوسرے تما م حیوانات سے بہت زیادہ عقل وشعور ،قوت ارادہ و اختیار اور تکلم کی صفات پائی جاتی ہیں۔اس نظریہ ماننے والےاگرچہ زیادہ تر الہامی مذاہب کے پیروکار ہیں تاہم بعض مغربی مفکرین نے بھی اس نظریہ کی حمایت کی ہے۔

نظریہٴ ارتقاء کے ماننے والے اکثر مادہ پرست(Materialism)،لاادریت اور اشتراکیت(Communism) ہیں جو انسان کوخالص ارتقائی شکل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق زندگی اربوں سال پہلے ساحل سمندر سے نمودار ہوئی ۔پھر اس سے نباتات اور اس کی مختلف انواع وجود میں آئیں پھر نباتات ہی سے ترقی کرتے کرتے حیوانات پیداہوئے۔ انہی حیوانات سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے۔لیکن بہت سے اسلامی و غیراسلامی دانشور بالخصوص علامہ طباطبائی اس نظریہ کو سریہ سے رد کرتے ہیں اور نظریہٴ ثبات کی تایید کرتے ہیں ۔علامہ طباطبائی چودہویں صدی ہجری کے بڑے مفسر، فلسفی، متکلم، اصولی، فقیہ، عارف، اسلام شناس اور فکری اور مذہبی لحاظ سے ایران کے بااثر علماء میں شمار ہوتے ہیں ۔اس مقالہ میں ڈارون کے نظریہ ارتقاء اور علامہ طباطبائی کے موقف کا جائزہ لیا جائے گا۔یہ بامسلم ہے کہ علامہ طباطبائی کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام اوران کی بیوی حضرت حوا کو خداوندمتعالی نے مٹی سے پیدا کیا ہے علامہ طباطبائی نظریہ ثبات کی تائید کرتے ہوئے نظریہٴ ارتقاء کے بارے میں یوں لکھتے ہیں کہ نظریہٴ ارتقاء ایک مفروضہ ہے اور یہ مفروضہ ثابت بھی نہیں ہوا ہے حیاتیات کے ماہرین سالوں سال کے کھوچ کے بعد یہ بتانے سے قاضر ہیں کہ کوئی ایک موجود ایسا ہو جو دوسرے نوع کے حیوان سے پیدا ہوا ہو ۔اس بناپر نظریہٴ ارتقاء ایک ظنی مفروضہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے لیکن اس مفروضہ کو آج سیاسی طاقت کے زرو پر سائنسی علوم کا مرکز بنادیا گیا ہے ۔ اور یہ ممکن ہے کہ ایک دن دوسرا مفروضہ اسکی جگہ لے لے ۔یہی وجہ ہے کہ عصر حاضرمیں محققین نظریہٴ ارتقاء کوہر میدان میں شکست فاش دے چکے ہیں اور بہت سے ماہرین علوم آج نظریہءتخلیق (Creation)یا نظریہء ثبات (Fixism)کو حقیقت کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔ آج ماہرین علوم اس نقطۂ نظر کا بھرپور دفاع کرتے ہیں کہ ہر شے ایک عظیم ترین خالق نے ’’تخلیق‘‘ کی ہے اور یہ کہ ہر شے اپنی جگہ پر خالقِ عظیم کی عظیم تر تخلیق کا ایک جزو ہے۔ مقالہ ھذا میں ان دو نظریات کی وضاحت کے ساتھ ساتھ تقابلی جائزہ بھی لیاجائے گا۔ عصرحاضرمیں انسان ان دو نظریات کی بنیاد پر اپنی زندگی کو گزارنے کی کوشش کرتے ہیں نظریہ ءارتقاء انسان کو الحاد کی جانب اور نظریہ ءتخلیق انسان کو توحید کی جانب دعوت دیتی ہے ۔

تحقیق کی ضرورت:

قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور انسان کے ذاتی،اخلاقی،سماجی،معاشرتی،معاشی،قانونی اور زندگی کے دیگر پہلوؤں پر رہنمائی فراہم کرتا ہے-انسان کی پیدائش ایک ایسا موضوع ہے جوفلسفیوں، سائنس دانوں،مذہبی دانشوروں سمیت مختلف شعبہ جات میں انسان کے ہاں ہمیشہ سے مقبول رہے ہیں-بہت مسلمان اور غیر مسلمان دانشوروں کی جانب سے انسان کی خلقت کے بارے میں بہت ساری تحقیق کی جاچکی ہے اس کے باوجود ابھی بھی بہت سارے ابہام اور پیچیدگیاں انسان کے بارے میں موجود ہیں اس تحقیق میں نظریہٴ ارتقاءکو قرآن کی آیتوں اور علامہ طباطبائی کے افکار اور تفسیر کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی اس تحقیق کا بنیادی سوال یہ ہے ۔کہ کیا قرآن نظریہٴ ارتقاء کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں ؟ علامہ طباطبائی انسان کی خلقت کے بارے میں کیانظریہ رکھتےہیں؟۔

اس تحقیق کا اہم مقاصد :
1. نظریہ ارتقاء (Transformism)اور نظریہءتخلیق (Creation)کی وضاحت ۔
2. خلقت بشر کے بارے میں علامہ طباطبائی کا تفسیری نظریہ۔
3. نظریہٴ ارتقاء اور نظریہٴ علامہ طباطبائی کا تقابلی جائزہ ۔

• چارلز ڈارون (CHARLES DARWIN)
چارلز ڈارون ۱۲ فروری ۱۸۰۹ کو انگلستان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ایک ڈاکٹر اور دادا ایک دانشور تھے۔ ان کی والدہ ایک مذہبی خاتون تھی۔ ڈارون کوچٹانوں ’پرندوں اور جانوروں کے مشاہدے اور مطالعے کا بہت شوق تھا اس نے ایک کتاب لکھی جس کا نام THE ORIGIN OF SPECIES رکھا جس میں انہوں نے اپنا نظریہٴ ارتقا پیش کیا۔اور زندگی کے آخری دنوں میں ڈارون نے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام DESCENT OF MAN تھا ۔

• علامہ سید محمدحسین طباطبائی:

سید محمد حسین طباطبائی 1903ء ذی الحجہ کی آخری تاریخ کو تبریز کے شہر شادآباد کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ چودہویں صدی ہجری کے بڑے مفسر، فلسفی، متکلم، اصولی، فقیہ، عارف، اسلام شناس اور فکری اور مذہبی لحاظ سے ایران کے بااثر علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ نے تفسیر میں المیزان، فلسفہ میں بدایۃ الحکمۃ و نہایۃ الحکمۃ اور اصول فلسفہ و روش رئالیسم نامی کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔آپ نے تین کتابیں انسان کے بارے میں لکھی ہے جسکا عنوان الانسان قبل الدنیا،الانسان فی الدنیا اور الانسان بعد الدنیا ہے مزید تفسیر المیزان میں مختلف مقامات پر آیات کی تفسیر کرتے ہوئے انسان کے بارے میں اظہار نظر کی ہے۔اور علامہ طباطائی نے نظریہٴ ارتقاء کو مسترد کرتے ہوئے اسکو ایک ظنی مفروضہ کہاہے اور خود نظریہٴ تخلیق (Creation) کی تائید کرتے ہیں ۔

• نظریہٴ ارتقاء (Transformism):

ڈارون کی کتاب سے پہلے دنیا کے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کا یہ ایمان تھا کہ انسان کرہِ ارض پر جنت سے اترا ہے اور اس کی تخلیق باقی جانوروں’ پرندوں اور مچھلیوں کی تخلیق سے مختلف ہے۔ اس مذہبی نظریے کے مقابلے میں ڈارون نے یہ سائنسی نظریہٴ پیش کیا کہ انسان کی تخلیق لاکھوں سالوں کے ارتقا کا ماحصل ہے اور انسانوں’جانوروں ’پرندوں اور مچھلیوں کے آبا و اجداد مشترک ہیں۔ڈارون نے ۱۸۵۸ میں اپنی مشہور کتاب THE ORIGIN OF SPECIES چھاپی۔ ڈارون کے دور کے عیسائی پادریوں کا ایمان تھا کہ بائبل میں آیا ہے کہ کرہِ ارض کی عمر چھ ہزار سال ہے اور آدم و حوا جنت سے زمین پر آئے ہیں اور ڈارون نے یہ ثابت کیا کہ کرہِ ارض پر انسان کا وجود لاکھوں برس کے ارتقا اور NATURAL SELECTION کا نتیجہ ہے۔

زندگی کے آخری دنوں میں ڈارون نے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام DESCENT OF MAN تھا۔ اس کتاب میں ڈارون نے ثابت کیا کہ انسانوں اور حیوانوں کی بہت سی ذہنی خصوصیات مشترک ہیں اور انسانی دماغ جانوروں کے دماغ کی ارتقا یافتہ صورت ہے۔ ڈارون نے کہا کہ رحمِ مادر میں انسانی بچے کا دماغ ساتویں مہینے میں اتنا نشوونما پا چکا ہوتا ہے جتنا کہ بندر کا دماغ جوانی میں ہوتا ہے۔ اسی لیے انسانوں اور حیوانوں کی ذہنی اور جذباتی خصوصیات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
ڈارون نے ثابت کیا کہ انسانوں کی طرح جانور بھی خوش ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے کھیلتے اور شرارت کرتے ہیں۔خوشی کے ساتھ ساتھ جانور غم کا اظہار بھی کرتے ہیں اور جب انسانوں کی طرح خوف زدہ ہو جاتے ہیں تو ان کے دل زور زور سے دھڑکنے لگتے ہیں اور ان کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر جانوروں کا کوئی قریبی رشتہ دار فوت ہو جائے تو وہ دکھی بھی ہوتے ہیں۔ جب کسی بندر کے بچے یتیم ہو جائیں تو انہیں دوسرے بندر اپنے بچوں کی طرح پالتے ہیں۔جانور انسانوں کی طرح محبت بھی کرتے ہیں۔ کتے اپنے مالک کے بہت وفادار ہوتے ہیں۔ جانوروں کوحسن کا احساس بھی ہوتا ہے۔ مورنی کا رقص اس کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔

ڈارون کا کہنا تھا کہ جو چیز ارتقا کے حوالے سے انسانوں کو باقی جانوروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کے الفاظ اور زبان WORDS AND LANGUAGE ہیں۔زبان کی وجہ سے انسانوں نے شاعری اور ادب’سائنس اور ٹکنالوجی ’ نفسیات اور سماجیات کو تخلیق کیا او کلچر اور تہذیب کو فروغ دیا۔

ارتقا کا نظریہ پہلے سے موجود تھا۔ ڈارون نے اس کا سائنسی ثبوت مہیا کیا۔ اس طرح ارتقا کا وہ نظریہ جو فلسفے اور ادب کی کتابوں میں پیش کیا جاتا تھا سائنس کی کتابوں میں داخل ہو سکا۔ ڈارون کے بعد کئی اور سائنسدانوں نے اس نظریے کے مزید سائنسی ثبوت فراہم کیے۔اور اسکے نظریے نے وہ بنیادیں فراہم کیں جن پر ڈارون کے بعد آنے والے ماہرینِ حیاتیات’نفسیات اور سماجیات نے بلند و بالا عمارتیں تعمیر کیں۔

ڈارون نےاپنے اس نظریہ کو مندرجہ ذیل چار اصولوں پر استوار کیا ہے :
۱۔تنازع للبقاء (Struggle for Existence)
۲۔۔طبیعی انتخاب (Natural Selection)
۳۔ماحول سے ہم آہنگی (Adaption)
۴۔قانون وراثت (Law of Heritance)

• نظریہٴ ارتقاء علامہ طباطبائی کی نظر میں:

علامہ طباطبائی ان دانشوروں میں اسے ایک ہیں جنہوں نے اس موضوع پر بہت توجہ دی ہے انہوں نے تین کتاب انسان کے بارے میں لکھی ہے جسکا عنوان الانسان قبل الدنیا،الانسان فی الدنیا اور الانسان بعد الدنیا ہے آپ نظریہٴ ارتقاء کے بارے میں یوں لکھتے ہیں : نظریہٴ ارتقاء مفروضہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اس مفروضہ کو ثابت کرنے کےلئے کوئی خاص دلیل بھی نہیں ہے حیاتیات کے ماہرین سالوں سال کے کھوچ کے بعد یہ بتاتے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی بھی جاندار ایسا نہیں ہے جو دوسرے نوع کے حیوان سے پیدا ہوا ہو اس ناطے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نظریہء ارتقاء ایک ظنی مفروضہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔آج مغربی مادہ پرست، سیاسی طاقت کے زور پر اس مفروضہ کو سائنسی علوم کا مرکز بنائے ہوئے ہیں اورعنقریب یہ ممکن ہے کہ دوسرا مفروضہ اسکی جگہ لے لے ۔یہی وجہ ہے اب بہت سارے اسلامی اور غیر اسلامی دانشوروں کی تحقیقات اس نظریہ کے خلاف ہے اس مفروضہ کو مسترد کرتے ہیں ۔ اس بارے میں مولانا شہاب الدین ندوی اپنی کتاب (اسلام اور نظریہٴ اتقاء) میں لکھتے ہیں کہ ’’ ابھی حال ہی میں آکسفرڈ سے ایک کتاب (The Encyclopaedia of ignorance) کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔ اس میں سائنس کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ساٹھ مستند ماہرین نے بنظرِ غائر اپنے اپنے علم و فن کا جائزہ لے کر دکھایا ہے کہ انسانی معلومات کا دائرہ بہت ہی محدود ہے اور طبیعی و حیاتیاتی علوم کے بہت سے اسرار ہیں جن کو انسان اب تک نہیں جان سکا ہے ۔ اس وقیع اور قابلِ قدر کتاب میں نظریہٴ ارتقا کی تردید میں بھی چند مضامین بہت اچھے ہیں اور ایک مضمون کا عنوان ہی ’’ نظریہٴ ارتقا کے مغالطات ‘‘ Fallacies of Evolutionary Theory ہے ۔صاحبِ مضمون TOMLIN اپنے مضمون کے آخر میں تحریر کرتا ہے کہ ’’موجودہ ارتقائی تفکیر میں سخت پیچیدگی، جو بہت سے مغالطات پیدا کرنے کا باعث ہے، یہ ہے کہ حیاتیاتی حقائق کی تشریح و توجیہ ازکار رفتہ طبیعی نظریات کی روشنی میں کی جاتی ہے ‘‘ ۔
علامہ طباطبائی نظریہٴ ارتقاء کے مسترد کرتے ہوئے قرآن مجید کی آیات کے مطابق خلقت انسان کے بارے میں نظریہٴ تخلیق کی تائید کرتے ہیں۔ تفسیرالمیزان میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۳ کے ذیل میں لکھتے ہیں : قرآن کے مطالعہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انسانی نسل کی انتہا حضرت آدم علیہ السلام پر ہوتا ہے اور حضرت آدم اور انکی بیوی حضرت حوا کسی ماں باپ سے پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کو خدا نے مٹی سے پیدا کیا ہے جس پر قرآن کی متعدد آیات دلالت کرتی ہیں جیسے خداوند فرماتا ہے :﴿ ان مثل عیسی عند الله کمثل آدم خلقه من تراب ثمٌ قال له کن فیکون ﴾ اللہ کےہاں عیسی علیہ السلام کی مثال آدم کی سی ہے جسے اللہ نےمٹی سے پیدا کیا پھر کہا انسان بن جا تو وہ انسان بن گئے۔ یہ آیت انسان کو کسی حیوان سے پیدا ہونے کو مسترد کرتی ہے۔اس بناپر کوئی یہ خیال نہ کرے کہ سارے انسان مٹی سے بنے ہیں بلکہ علامہ طباطبائی کے مطابق پہلے انسان کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے باقی سارےانسانوں کا وجود حضرت آدم علیہ السلام ہے۔

علامہ طباطبائی کی نظریہ کو تین حصوں میں خلاصہ کرسکتے ہیں:
1. نظریہٴ ارتقاء علمی مفروضہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے
2. قرآن کی آیات انسانی تخلیق کے بارے میں نظریہٴ ثبات یا تخلیق کی تائید کرتی ہیں ۔
3. اگر نظریہٴ ارتقاء ثابت ہوجائے تو خلقت کے بارے میں موجود آیات کی تاویل کیا جاسکتا ہے .

• نظریہٴ ارتقاء(Transformism) کی حقیقت:
1. ۱ڈارون کا نظریہ تمام کافرانہ نظریات سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اسکی وجہ انیسویں صدی میں سائنسدانوں کا عقیدہ تھا کہ ہر چیز کی حقیقت مادہ ہے اس فلسفہ کے مطابق اس کائنات کا کوئی خالق موجودنہیں ہے یعنی فرعون ونمرود کی طرح اس فلسفہ کے قائلین نے بھی اس کائنات کے رب وخالق ومالک و رازق ومدبرکا انکار کیا ہے اور مادہ (Matter)ہی کو اصل یا کل حقیقت قرار دیا ہے۔ اس فلسفہ کے مطابق مادہ قدیم اور ہمیشہ سے ہے اور ہر دور میں اپنی شکلیں بدلتا رہا ہے ۔ پس اس کائنات یا انسان کا وجود ایک حادثہ ہے جس کے پیچھے کوئی محرک، مسبب الاسباب یا علۃ العلل موجود نہیں ہے۔مادہ پرستوں یا منکرین خدا کی ایک الجھن ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ اگر ہم خدا کے وجود کا انکار کر دیں تو اہل مذہب کے بالمقابل اس کائنات اور انسان کے بارے کیا توجیہ پیش کریں کہ یہ انسان کہاں سے آیا ہے؟ کیسے پیدا ہوا ہے؟ یہ کائنات کیسے وجود میں آ گئی ہے؟واقعہ یہ ہے کہ ان سوالات کا کوئی جواب مادہ پرستوں کے پاس نہیں تھا یہاں تک کہ ڈاروان نے اپنا نظریہ ارتقا پیش کیا تو مادہ پرستوں کی تو گویا عید اور چاندی ہو گئی اور انہیں اس کائنات اور انسان کے وجود کے بارے ایک عقلی ومنطقی توجیہ ہاتھ آ گئی۔ ڈارون نے ارتقا کا جو نظریہ پیش کیا تھا وہ اس کے ذاتی مشاہدات پر مبنی تھا جبکہ آج کی سائنس اور سائنسی حقائق اس ڈارونی نظریہ ارتقا کی بنیادیں ہلا چکے ہیں اور اس نظریہء ارتقاء کومستقل طور پر ردی کی ٹوکری میں پھینک چکے ہیں لیکن مادہ پرستوں کے لیے ڈاروان کے نظریہ ارتقا کی سائنسی تردید ، موت سے کم نہیں ہے کیونکہ نظریہ ارتقا کے غلط ثابت ہو جانے سے ان کی فلسفہ مادہ پرستی کی واحد عقلی ومنطقی توجیہ ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو خلا میں محسوس کرتے ہیں جہاں ان کے پاس کے اس کائنات اور انسان کے وجود کے بارے اہل مذہب کے بالمقابل کوئی توجیہ باقی نہیں رہتی اور اہل مذہب ان پر ہنس رہے ہوتے ہیں کہ عقل کے یہ پجاری اپنے وجودوماحول کی موجودگی کی بھی کوئی توجیہ کرنے سے قاصر ہیں ۔
2. زندگی اپنی ظہور کی ابتداء سے لیکر متواتر ارتقاء کرتی رہی ہے اور اسی ارتقاء کے نتیجہ میں نوع بشر کا ظہور ہوا ہے ۔ ڈارون کایہ سوچ بھی اسلام اور قرآن کے تعلیمات کے خلاف ہے اسلام انسان اور کائنات کے وجود کے بارے میں نظریہء تخلیق کی تایید کرتا ہے ۔
3. جانوروں کے اجسام میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور طویل مدت کے دوران ان تبدیلیوں سے نیا جاندار وجود میں آتا ہے ۔ یہ دعوی بھی ڈارون کا سائنٹفک نہیں ہے چونکہ بہت سی تحقیقات اس کے خلاف موجود ہے ۔
4. اگرجاندار نسل کی اعتبار سے اس قابل ہو کہ مشکل حالات کا مقابلہ کرسکے تو وہ زندہ رہتی ہیں ورنہ مٹ جاتی ہیں ۔
اس نظریہ کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ انسان ایک ترقی یافتہ حیوان ہے اور یہ عقیدہ براہ راست حیاتیات سے تعلق رکھتا ہے ۔ در حالیکہ یہ عقیدہ بھی اسلام کی تعلمیات کے خلاف ہے انسان کسی حیوان سے نہیں بلکہ انسان اول حضرت آدم ابوالبشر سے پیدا ہوا ہو اور حضرت آدم علیہ السلام کو خداوند نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔
ہارون یحی ترکی کے معروف قلم کار ہیں جو فری میسنری یہودی تحریک اور مادہ پرستی کی عالمی الحادی تحریک کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ ہارون یحی نے اپنی اس کتاب میں ان تمام سائنسی حقائق اورمعروف سائنسدانوں کے اقوال کو جمع کیا ہے جو ڈارون کے نظریہ ارتقا کی سائنسی موت ثابت ہوئے ہیں۔ہارون یحی نے فوسل ریکارڈ سے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ اس کائنات پر تخلیق کی ابتدا اچانک ہوئی ہے نہ کہ ارتقاء اً ۔ ہارون یحی نے ڈارون کے نظریہ ارتقا کے فروغ میں مادہ پرستوں اور منکرین خدا کے مکر وفریب کی دھجیاں بکھیردی ہیں۔ بہر حال ڈارونی نظریہ ارتقا کے حاملین ملحدین، منکرین خدا اور مادہ پرستوں کی رات کی نیندیں اڑانے کے لیے عقلی، منطقی اور سائنسی دلائل پر مبنی ایک بہترین کتاب ہے

• ارتقاء کے تین مراحل :
1. کائنات کی ابتدائی حالت سے لے کر زندگی کے ظہور تک ۔
2. پہلے جاندار سے لے کر نسل انسانی کے ظہور تک ۔
3. انسان کے ظہور سے لے کر انسا ن کی نفسیاتی تکمیل تک اور یہ مرحلہ جاری ہے ۔

• نظریہ ءارتقاء قرآن مجید کی روشنی میں :

خلقت انسان کے بارےمیں جو دو نظریے پیش ہوئے انکو اجمالی طور پر بیان کرنے کے بعد اب وقت آگیاہے کہ قرآن کو سامنے رکھیں؛ اور دیکھیں کہ قرآن مجید ان دو نظریوں میں سے کس کے ساتھ موافقت کرتا ہے یا یہ کہ کوئی اور تیسرا نظریہ رکھتا ہے ۔خالق کائنات نے سورہ غافر کی آیت 67 میں انسان کی خلقت کے مراحل یوں بیان فرمایا ہے:( هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ)اللہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر تمہیں (شکمِ مادر سے) بچہ بنا کر نکالا۔ پھر (تمہاری پرورش کی) تاکہ تم اپنی پوری طاقت (جوانی) کو پہنچو (پھر زندہ رکھتا ہے) تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ اور تم میں سے کوئی پہلے اٹھا لیا جاتا ہے (یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ تم مقررہ وقت تک پہنچ جاؤ اور عقل سے کام لو (خدا کی قدرت و حکمت کو سمجھو)"۔
انسان کے وجود کا پہلا مرحلہ مٹی ہے۔ مٹی، کھانے والی چیزوں اور درختوں کو اُگاتی اور پروان چڑھاتی ہے، پھر انسان کے والدین اسے کھاتے ہیں اور وہ خوراک کچھ مراحل گزارنے کے بعد نطفہ کی صورت میں بدل جاتی ہے۔ دوسرا مرحلہ نطفہ ہے جو ماں کے رحم میں ٹھہرتا ہے۔ تیسرا مرحلہ علقہ ہے یعنی خون کا لوتھڑا۔ چوتھا مرحلہ بچہ کی پیدائش ہے۔ اتنے مراحل طے کرنے کے دوران اللہ تبارک و تعالٰی نے ماں باپ کے ذریعے بچہ کی حفاظت کی اور کئی خطروں سے محفوظ رکھا۔ خلقت کے اس سلسلہ سے اللہ تعالٰی کی قدرت اور ربوبیت کی عظمت واضح ہوتی ہے اور نیز انسان متوجہ ہوتا ہے کہ خداوند متعال نے اپنے بندوں کو کن مراحل سے گزارتے ہوئے یہاں تک پہنچایا ہے۔ ان مراحل کے درمیان دیگر مراحل بھی پائے جاتے ہیں جو دوسری آیات میں ذکر ہوئے ہیں۔
اللہ نے انسان کو جو مٹی سے پیدا کیا ہے تو مٹی بے جان چیز ہے، اللہ تعالٰی کی قدرت کی ایک جھلک یہ ہے کہ اس نے بے جان سے جاندار چیز خلق کی ہے اور آیت کے آخر میں جو دعوت فکر دی ہے، یہ قدرت الٰہی ہے کہ اس نے بےجان چیز سے غوروخوض کرنے والی مخلوق بنادی ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ میں لفظ "ثم" جو کئی بار ذکر ہوا اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کی خلقت، رفتہ رفتہ اور تدریجی طور پر ہے۔ الفاظ "تُرابٍ"، "طِفْلًا"، "شُيُوخاً"، "يُتَوَفَّى" سے معلوم ہوجاتا ہے کہ انسان کی زندگی، تکامل کے مراحل کو طے کرتی ہے۔لہذا اتنے تعجب انگیز مراحل طے کروانے والا اللہ ہی لائقِ عبادت ہے۔
پس قرآن کریم انسان کو ایک مستقل نوع سمجھتا ہے اور انسان کے دیگر انواع کے تکامل سے وجود میں آنے کو قبول نہیں کرتا ہے جو ڈارون کا عقیدہ تھا اور قرآن اس مطلب کی حکایت کرتاہے کہ انسان مٹی کے کچھ مراحل سے گزر کر اس حالت انسانی میں داخل ہوا ہے ۔لیکن ان مراحل سے کس طرح گزر کر آیاہے اس کے بارے میں تصریح نہیں کی ہے ۔جیسا کہ فرمایا: (و لقد خلقنا الانسان من سلالة من طین )اور بتحقیق ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے بنایا۔اور مٹی کے بعد جو دوسرا مرحلہ ہے وہ پانی اور مٹی کا ملا ہوا گارا ہے جو سیر تکاملی انسان میں ایک مرحلہ کے نام پر بیان ہوا ہے۔علامہ طباطبا ئی فرماتےہیں : کہ انسان سے مراد نوع انسان ہے جو آدم اور اس سے نیچے تمام انسانوں کو شامل ہے اور خلق سے مراد خلقت ابتدائی ہے جوحضرت آدم کی ہوئی تھی ۔
قرآن مجید ایک اور مرحلہ کے بارے میں خبر دیتا ہے ۔(خلق الانسان من صلصال كالفخار ) اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح کے خشک گارے سے بنایا۔علامہ طباطبائی نے صلصال کو خشک گارا سے تعبیر کیا ہے ۔یہ گارا کئی مرحلوں کو گزارنےکے بعد خشک ہو کر ایک نئی حالت اپناتاہے اور وہ پہلے والی حالت جوکہ نرمی ہے وہ نہیں رہتی ہے اور اسی حالت کو صلصال سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن نظریہ ارتقاء کو تسلیم نہیں کرتا ہے ۔بلکہ نظریہء اثبات اور تخلیق کی تائید کرتا ہے۔

• قرآن مجید نے خلقت انسان کےسات مراحل بیان کیے ہیں۔
قرآنِ مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی زندگی کا کیمیائی اِرتقاء کم و بیش سات مرحلوں سے گزر کر تکمیل پذیر ہوا جو درج ذیل ہیں ان مراحل کو ڈاکٹر طاھر القادری اپنی کتاب اسلام اور سائنس میں یوں بیان کرتے ہیں جسکا خلاصہ ہم اس مقالہ میں ذکر کررہے ہیں
• تراب Inorganic matter
• ماء Water
• طین Clay
• طین لازب Adsorbable clay
• صلصال من حماء مسنون Old physically and chemically altered mud
• صلصال کالفخار Dried and highly purified clay
• سلالہ من طین Extract purified clay

قرآنِ مجید مذکورہ بالا سات مرحلوں کا ذکر مختلف مقامات پر یوں کرتا ہے:
1۔ تراب (Inorganic matter)
اللہ رب العزت نے اِنسان کے اوّلین جوہر کو غیر نامی مادّے سے تخلیق کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَاب ) وہی ہے جس نے تمہیں مٹی ( یعنی غیر نامی مادّے ) سے بنایا۔”
اس آیت کریمہ میں آگے حیاتیاتی ارتقاء کے بعض مراحل کا بھی ذکر کیا گیا ہے، مثلاً (( ثُمَّ مِن نُّطفَةٖ ثُمَّ مِن عَلَقَةٖ ثُمَّ
يُخرِجُكُم طِفلٗا ) لیکن قابل توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ انسانی زندگی کے ان ارتقائی مرحلوں کا ذکر باری تعالیٰ نے اپنی صفت ربُّ العالمین کے بیان سے شروع کیا ہے۔
2۔ ماء (Water)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(وَهُوَ ٱلَّذِي خَلَقَ مِنَ ٱلۡمَآءِ بَشَرٗا ) اور وہی ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا۔
3۔ طین(Clay)
اِنسان کی کیمیائی تخلیق میں "تراب” اور "ماء” بنیادی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن دونوں عناصر کے مِکس ہو جانے پر "طین” کو وُجود ملا۔ "طین” کا ذِکر اللہ ربّ العزت نے قرآنِ حکیم میں یوں کیا ہے:هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٖ ( اللہ ) وہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا۔ جب کہ "طین” اس مٹی کو کہتے ہیں جو پانی کے ساتھ گوندھی ہو، جیسا کہ مذکور ہے:
الطین : التراب و الماء المختل ۔ مٹی اور پانی باہم ملے ہوئے ہوں تو اُسے ”طین” کہتے ہیں۔
4۔ طین لازب(Adsorbable clay)
’طین‘ کے بعد ’طین لازب‘ کا مرحلہ آیا، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا ہے:
إِنَّا خَلَقنَٰهُم مِّن طِينٖ لَّازِبِ بے شک ہم نے اُنہیں چپکتے گارے سے بنایا۔
5۔صلصال من حماء مسنون (Old physically and chemically altered mud)
مٹی اور پانی سے مل کر تشکیل پانے والا گارا جب خشک ہونے لگا تو اُس میں بو پیدا ہو گئی۔ اس بودار مادّے کو اللہ ربّ العزت نے ”صلصال من حماء مسنون” کا نام دیا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَلَقَد خَلَقنَا ٱلإِنسَٰنَ مِن صَلصَٰلٖ مِّن حَمَإٖ مَّسنُونٖ اور بیشک ہم نے اِنسان کی ( کیمیائی ) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی ہے۔
6۔ صلصال کالفخار (Dried and highly purified clay)
اِنسان کے کیمیائی ارتقا میں چھٹا مرحلہ صلصال کالفخار ہے، جس کی نسبت ارشادِ باری تعالیٰ ہے:خَلَقَ ٱلإِنسَٰنَ مِن صَلصَٰلٖ كَٱلفَخَّار ِ اُس نے اِنسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیا۔
7۔ سلالہ من طین (Extract purified clay)
اِنسان کی کیمیائی تخلیق کے دوران پیش آنے والے آخری مرحلے کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے(:وَلَقَد خَلَقنَا ٱلإِنسَٰنَ مِن سُلَٰلَةٖ مِّن طِينٖ )اور بیشک ہم نے اِنسان کی تخلیق (کی اِبتدا) مٹی ( کے کیمیائی اجزا ) کے خلاصہ سے فرمائی۔
صاحب تفسیرمجمع البیان ان مراحل کو اسطرح سے بیان کرتا ہے
اصل آدم كان من تراب و ذلك قوله«خلقه من تراب‏» ثم جعل التراب طینا و ذلك قوله: «خلقه من طین‏» ثم‏ترك ذلك الطین حتى تغیر و استرخى و ذلك قوله: «من حماء مسنون‏» ثم ترك حتى جف‏وذلك قوله: «من صلصال‏» فهذه الاقوال لا تناقض فیها اذ هی اخبار عن حالاتهاالمختلفة‏» ۔
مجمع البیان کی اس عبارت سے بآسانی روشن ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کی رو سے انسان کی خلقت مٹی سے شروع ہو جاتی ہے اور دوسرے مرحلہ میں داخل ہوکر پانی اور مٹی سے مخلوط ہوکر خالص گل کی حالت میں تبدیل ہونے کے بعد خشک ہوکر گارا بن جاتاہے اس کے بعد اس میں روح انسان داخل ہونے کی صلاحیت پیداہوتی ہے۔ پس قرآن مجیدکے مطابق انسان ایک مستقل وجود رکھتاہے نہ کہ دوسرے موجوات کے تکامل کیوجہ سے وجود میں آیا ہے۔ اور ابھی جو انسان موجود ہے وہ آدم ابو البشر کی نسل سے ہے۔

• انسان فیوضات الہیہ کے مالک :

جب انسان کے مراحل تخلیق ختم ہوااور اس میں روحِ الٰہیہ پھونکی گئی اس وقت وہ فیوضاتِ الٰہیہ کے اخذ و قبول اور انوار و تجلیات ربانی کے اِنجذاب کے قابل بنا ۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا:(فَإِذَا سَوَّيتُهُۥ وَنَفَختُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُۥ سَٰجِدِينَ ) پھر جب میں اس کی ( ظاہری ) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چُکوں اور اس پیکر ( بشری کے باطن ) میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔چنانچہ بشریت اِنسانی کی اسی جوہری حالت کو سنوارا گیا اور اسے نفخِ روح کے ذریعے( وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلأَسمَآءَ كُلَّهَا ) اللہ نے آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیے ، کا مصداق بنایا گیا اور تب یہی حضرتِ انسان مسجودِ ملائکہ ہوا۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں انسان اپنی روحی طاقت کے ذریعہ کمالات اورمعنویات کے طویل سفرکو طےکرتا ہے اور خود کو اشرف الخلوقات کےزمرہ میں لے آتا ہے یہاں سے یہ انسان دوسرے سارے جانداروں سے ممتاز ہوجاتا ہے اور اپنی زندگی کو کسی عقیدہ یا آئیڈیالوجی کے مطابق بسر کرتا ہے اگر وہ صحیح عقیدہ کے مالک بنے تو اس کی زندگی بہترین زندگی ہوتی ہے جسکے بدولت وہ دنیا اور آخرت میں سعادتمند ہوتا ہے ۔

• مبابع :

1. قرآن مجید
2. تفسیرالمیزان، محمد حسین طباطبایی ، (۱۲۸۱–۱۳۶۰ ،ش)
3. مجمعُ البیان فی تفسیر القُرآن، فضل بن حسن طبرسی (متوفای ۵۴۸ق)
4. المفردات في غريب القرآن، أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (ت ٥٠٢هـ)
5. مولانا شہاب الدین ندوی ،اسلام اور نظریہٴ اتقاء ۔
6. زندگی نامہ علامہ طباطبائی ، ویکی شیعہ https://ur.wikishia.net
7. اسلام اور جدید سائنس ،مصنف : شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ، نظریہ ڈارون۔
8. انسائیکلو پیڈیا آف اگنورنس، ص ۲۳۴، آکسفرڈ ۱۹۷۸ ۔
9. تکامل زیستی و آیات آفرینش،ابراهیم کلانتری۔
10. نظریہء ارتقاء ۔ایک فریب، ہارون یحیی (Harun Yahya)، جن کا اصلی نام عدنان اکتار ہے، (پیدائش: 2 فروری سنہ 1956ء)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .