۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
مباحث کلام جدید

پروردگار فطری حادثات کے عرض میں نہیں ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی علیت سے انکار کی بنا پر دوسرے کی نفی کا امکان پیدا ہوجائے؛عالم ممکنات کی ہر شئ اسی سے وجود میں آئی اور اپنا وجود اسی کی وجہ سے باقی رکھے ہوئے ہے اور پوری طرح اسی سے وابستہ ہے، اسی لیے تو پروردگارکائنات میں ہونے والے ہر ایک حادثات و واقعات کے لیے علتِ اصلی و علت العلل کا حکم رکھتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی؍

تحریر: سید لیاقت علی کاظمی

زیادہ تروہ لوگ جو الحادی عینک سے دین کا مطالعہ کرتے ہیں وہ لوگوں کی لاعلمی اور نادانی کو دینداری کی اصل وجہ مانتے ہیں ؛تاہم، بغیر کسی معقول وجہ کے مذہب اور جہالت کی منسلکی والا نظریہ فرانسیسی ماہر معاشرت، اگسٹ کانٹ (1857–1798) کے نام سے منسلک ہےجس کی تقریریں بہت سارے دوسرے صاحبان نظر افراد کے نظریات کے لیے ایک اہم ذریعہ بنی ہیں[1]۔

انسانی افکار و خیالات کی تبدیلی کے مراحل

اگسٹ کانٹ انسانی سوچ کے ارتقاء میں تین مراحل کے درمیان فرق پیش کرتا ہے:

الف) ربّانی/تصوّراتی مرحلہ

یہ مرحلہ، جو مکمل طور پر مذہبی بنیادوں پر استوار ہے [2]، خود تین چھوٹے چھوٹے مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے، پہلے چھوٹے مرحلے میں، انسان ، بےجان چیزوں کو زندہ اور روح و جان والا تصور کرتا ہے کہ جنکے سامنے تعظیم بجالانے سے،اور پھر بدلے میں وہ بھی اپنے اختیارات سے، انسانوں کو نوازتے ہیں ، دوسرے چھوٹے مرحلے میں –کہ جو ایک نہ دکھائی دینے والے خدا کے تصور سے ہمرنگ ہے–انسانوں کی توجہ اندرونی اشیاء کے بجائے خارجی عوامل کی جانب توجہ مبذول کرواتا ہے، دوسرے الفاظ میں، پہلے مرحلے میں، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ –مثال کے طور پر–ہر پام کے درخت میں ایک روح ہے، اور پھر،اگلے مرحلے میں، عالمگیر روح تمام پام کے درختوں اور آخر کار تمام درختوں کی جانب منسوب کردی جاتی ہے، اور اس طرح "جنگل کےخدا" کا تصور روشنی میں آتا ہے، اور اس طرح تیسرا چھوٹا مرحلہ ،مختلف معبودوں (جنگل کا خدا، سمندر کا خدا ۔۔۔) کے ساتھ متفق ہوکر اور ایک واحد خدا کے تصور کے قیام کے ساتھ، توحیدی ادیان کو جنم دیتاہے۔

ب) فلسفیانہ/ تعقّلی مرحلہ

اس مرحلے میں، انسان، قدرتی حادثات و واقعات کو بجائے اس کے کہ اسے پروردگار کی جانب نسبت دے ، رونما ہونے والے حادثات و واقعات کی علّت تلاشتا پھرتا ہے اور تخیلات کی دنیا میں تعقلات کا بازار گرم کرتا ہے ،تاہم، یہاں بھی، پوشیدہ عوامل کوہی توجہ ملتی ہے اور اسی قدیمی ڈھب پر واقعات کے رونما ہونے کے اسباب کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔

ج) سائنسی / اثباتی مرحلہ

کینٹ کے مطابق،انسان، اپنی سوچ کے تبادلے کے تیسرے مرحلے میں، چیزوں کی تباہی اور اسے خدا کے ارادوں سے وابسطہ کرنے اور اسکے لیے کسی علت و سبب کو تلاش کرنے کے مرحلے گزر جاتا ہے ،اور «کیوں» کے بجائے «کس طرح » کے بارے میں بحث و گفتگو کرتا ہے،مثال کے طور پر، جو اس مرحلہ تک پہنچ جاتا ہےوہ افیون کے خواب آور ہونے کو پروردگار کے ارادہ میں نہیں تلاش کرتا (جیسا کہ پہلے مرحلہ میں کیا جاتا ہے) اور نہ ہی کسی نامعلوم قوت، جیسے اسے مواد مخدر کی طاقت کی طرف نسبت دیتا ہے (جیسا کہ دوسرے مرحلہ میں کیا جاتا ہے) ؛ اس کے بجائے، تجرباتی طریقہ سے افیون کے استعمال اور اسکے خواب آور ہونے کے درمیان پائے جانے والے تعلقات کے بارے میں تلاش و جستجو کرتا ہے اور پھر دیگر مشاہدوں کی مدد سےایک عام اصول طئے کرلیتا ہے۔

اس نقطۂ نظر کے مطابق، جب بھی سائنس اپنا قدم آگے بڑھاتی ہے ، خدا اپنے قدم پیچھے کھینچتا نظر آتا ہے ؛ اور اگسٹ کانٹ کے الفاظ میں : «سائنس نے فطرت اور کائنات کے خدا کو اسکے کام سے علاحدہ کرکے کنارے لگادیااور اسے تنہائی کی گہرائیوں کی طرف دھکیل دیا؛اور اسکی عارضی خدمات پراسے سراہتے ہوئے اسے اسکی عظمتوں سمیت اسکی بلندیوں کی سرحدوں تک روانہ کردیا »[3]۔ ان الفاظ کی سُر تال اس سے پہلے ’’اپیکر‘‘ کی بھی دُھن میں سنائی دی ہے: «سائنس، ان سارے واقعات کی بلکل آسان اور نپے تلے طریقہ سے توثیق و توجیہ بیان کرنے پر قادر ہے جنہیں خرافات پرست لوگ خداؤں کی قدرت کی طرف منسوب کرتے ہیں»[4]۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کینٹ،باوجود اسکے کہ سائنس کی ترقی کو روایتی مذاہب کے خاتمے کی وجہ جانتا ہے، خود بھی ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ جس میں سماجی ماہرین اسکے پادری شمار کئے جاتے ہیں، کچھ لکھنے والوں کے مطابق، «اس نے اپنے اس نظریہ کو اس قدر سنجیدگی سے اختیار کیا تھا کہ اس نے اپنے سماجی ماہرین کے لیے رسمی طور پر لباس ڈیزائن کروائے تھے اور ان کے لیے کچھ رسم و رواج بھی معین و مشخص کروائے تھے»![5]۔

نقد و نظر

یہ نظریہ، اس اہم تنقید کا سامنا کرتا ہے کہ، اس کے اس دعوے پر کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے، اور بس اس مفروضہ پر زور دیا گیا ہے کہ مذاہب عقلی اور فطری بنیادوں پر استوار نہیں ہیں ، اس کے علاوہ، بہت سےدانشوروں نے اس نظریہ میں دیگر خامیوں کا حوالہ دیا ہے، کہ جن میں سے یہاں ہم کچھ کا حوالہ دیتے ہیں:

۱۔:اس نظریے کے مطابق، انسانوں کے مذہبی رجحانات، فلسفیانہ دور سے پہلے تھے ، جبکہ تاریخی ثبوت اس بات پر شاہد ہیں کہ، بہت سارے عظیم مذاہب ،فلسفیانہ سوچ کے عروج کے ہی زمانہ میں ابھرے ہیں، مثال کے طور پر، ابراہیم ؑکے مذہب سے پہلے، فلسفہ ، ہندوستان میں ، مصر اور بابل میں موجود تھا؛ اسی طرح عیسائیت یونانی فلسفہ کے بعد وجود میں آئی؛ اور پھر اسلام نے بھی یونانی اور اسکندریہ فلسفہ کے عروج کے بعد اپنی دعوت کا آغاز کیا[6] ۔اس اصول کی بنیاد پر تو، سائنس کی آمد کے ساتھ، دین اور فطرت سے باہر کے معاملات کا نام و نشان تک نہیں ہونا چاہیئے؛ تاہم،حقیقت حال یہ ہے کہ کتنے سارے ایسے لوگ موجود ہیں جو سائنس کے میدان میں دانشوروں کے پیشوا تھے اور ساتھ ہی اس دور کے کسی مُروجہ دین کے پیروکار بھی رہے[7]۔ مجموعی طور پر اس قسم کے طرز فکر کا نام و نشان ہر دور میں دیکھنے کو مل جائے گا، جیسا کہ ایک مغربی مفکر بیان کرتا ہے کہ: ربانی اور مابعدالطبيعی اور اثباتی یہ تینوں طرز فکر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ، اور حتیٰ کہ ایک ہی زمانے میں اور ایک ہی شخص کے اندر ایک یونٹ کی طرح اکٹھا ہوجاتی ہیں ، جیسا کہ شروعاتی دور کے لوگوں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ غیر فطری چیزوں کی وضاحت عقلی بنیادوں پر پیش کرتے تھے؛ مثال کے طور پر، اگر قدیم لوگ آواز کی وضاحت اور تشخیص میں –کہ جس کا سبب نامعلوم ہو– خدا سے لَو لگاتے تھے اور اس سے متوسل ہوتے تھے تو اسی طرح کسی چیز کے نیچے کی طرف گرنے کو کشش ثقل کی وجہ سے مانتے تھے۔۔۔ ماوراء الطبیعیات دور میں ، ارسطو اور البرٹس ِ عظیم ۔۔۔صاحب عرفان اور پریٹیکل لوگ بھی تھے اور صاحبان ماوراء الطبیعیات بھی۔۔۔ قرون وسطی کی سوچ، جو کہ ایک ربانی طرز فکر تھی اس نے بھی ماوراء الطبیعیات جیسے پرانے طرز فکر سے فائدہ اٹھایا ، موجودہ زمانے میں کہ جب سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے پھر بھی ہم ماوراء الطبیعیات کے میدان میں ایک نئی گہماگہمی کے شاہد اور اس عنوان پر نِت نئی نئی تحقیقات کے گواہ ہیں[8]۔

۲۔:اسلام کے بنیادی افکار کی بنا پر الٰہی ، فلسفی اور علمی یہ تینوں ہی وضاحتیں ایک ہی واقعہ سے ملکر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہماہنگ ہیں؛ کچھ اس طرح کہ پروردگار کو ان سارے واقعات و حادثات کا علتِ اصلی شمار کیا جائے اور اس طرح علم و فلسفہ کی بتائی علت سے بھی کنارہ کشی کرنا ممکن ہوجائے گا[9]۔پروردگار فطری حادثات کے عرض میں نہیں ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی علیت سے انکار کی بنا پر دوسرے کی نفی کا امکان پیدا ہوجائے؛عالم ممکنات کی ہر شئ اسی سے وجود میں آئی اور اپنا وجود اسی کی وجہ سے باقی رکھے ہوئے ہے اور پوری طرح اسی سے وابستہ ہے، اسی لیے تو پروردگارکائنات میں ہونے والے ہر ایک حادثات و واقعات کے لیے علتِ اصلی و علت العلل کا حکم رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1]۔ نمونہ کے طور پر، جیمز جارج فریزر= James George Frazer (1854 ـ 1941 م) اگست کانٹ کے نظریہ سے متاثر ہوتے ہوئے، تین مراحل <جادو> ، <دین> و <علم> کے سلسلہ میں بات کرتا ہے۔ رجوع فرمائیں: جان مک‏کویری، تفکر دینی قرن بیستم، ترجمه عباس‏ شیخ‏شعاعی و محمد محم ضایی، ‏ص211؛ باتومور، جامعه‌شناسی، ترجمه حسن منصور و حسن حسینی، ص271۔
[2] – اُسْتُوار : مستحکم ، مضبوط ، پختہ نہ ٹوٹنے والا، ناقابل رد ، اٹل غیر متزلزل حتمی ، ایک اصول اور ضابطے پر قائم ؛ منظم و مرتب ۔
[3]۔ رجوع فرمائیں: مرتضی مطهری، مجموعه آثار، ج1 (علل گرایش به مادیگری)، ص482
[4]۔ برٹینڈر رسلBertrand Russell = تاریخ فلسفه غرب، گزشتہ حوالہ، ص358۔
[5]۔ ملکم ہملٹن، گزشتہ حوالہ، ص40۔ اسی طرح، رجوع فرمائیں: اتین زیلسن، نقد تفکر فلسفی غرب، ترجمه احمد احمدی، ص247۔
[6]۔ محمدحسین طباطبایی، المیزان، ج1، ص424۔
[7]۔ مرتضی مطهری، فطرت، ص173۔
[8]۔ پال فولکی= Paul Foulquié فلسفه عمومی یا مابعدالطبیعه، ترجمه حیدری مهدوی، ص163۔
[9]۔ گزشتہ حوالہ، مجموعه آثار، ج1 (علل گرایش به مادّی‏گری)، ص486، 487۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .