۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
ریوائیول احیاء درس علماء

حوزہ / ریوائیول احیاء درس علماء کا آن لائن درس اور عوام کے لائیو سوال و جواب کے سلسلہ میں درس کے مدرس جناب افتخار عارف نے "شاعری میں عرفانی پہلو کا جائزہ" کے موضوع پر خطاب کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ریوائیول احیاء درس علماء کا آن لائن درس اور عوام کے لائیو سوال و جواب کے سلسلہ میں درس کے مدرس جناب افتخار عارف نے "شاعری میں عرفانی پہلو کا جائزہ" کے موضوع پر خطاب کیا۔

جناب افتخار عارف صاحب نے اپنے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا: ایک زمانہ تھا کہ ہر زمانہ کسی ایک شاعر سے منسوب ہوتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ ایسا وقت آیا کہ اب بڑے بڑے نثر نگاروں سے زمانے کی پہچان ہونے لگی۔

انہوں نے کہا: جب روسی سویت یونین کا زمانہ شروع ہوا تو ایک نظریہ آیا کہ ان معاملات کو بھی شاعری میں بیان کیا جانا چاہیے۔ باقی کچھ شاعروں لادس، بروسٹ ورجينا وولٹس وغيرہ کا کہنا تھا کہ اندرونی معاملات یعنی داخلی معاملات میں رہنا چاہیے۔

جناب افتخار عارف صاحب نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: علامہ اقبال نے اس نظریے کو یکسر بدل دیا کہ آپ اپنے مذہبی کیفیات کو بھی بیان کر سکتے ہیں۔ واقعہ کربلا ہماری روحانی درآمدات کا اہم جز ہے۔کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کربلا کے واقعات نے کیسے کیسے اثرات ڈالے ہیں۔

پروفیسر افتخار عارف نے کہا: ہماری پرانی زبانیں سنسکرت وغیرہ کا مذہب سے تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے سنسکرت کی کتابوں رامائن، گیتا، اور ماہ بھارت کا ذکر کیا۔

سب سے اہم شاعر خزاعی نے امام علیہ السلام کے سامنے مرثیے پڑھے۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے فوراً بعد ابن حر جعفی نے مرثیہ لکھا۔ اسی طرح ملا محسن کاشانی، شیرازی، شہریار وغیرہ ایسے شاعر تھے جنہوں نے قصائد لکھے۔

انہوں نے کہا: انقلاب اسلامی ایران کے ساتھ جن لوگوں نے اپنی شخصیت بنائی ان میں سلیمان اہرانی، قیصر امین پور وغیرہ شامل ہیں۔ شعراء میں میر، سودا، میر سوز ہیں۔ ان سب کے ہاں حمد، نعت اور مرثیے بھی ہیں۔ سلام بھی ملے گا، مسدس و مخمس بھی ملیں گے۔ جس دور کو مرثیہ کا عہد زریں کہتے ہیں اس میں گویا صنف مرثیہ قائم کیا دبیر، میر انیس وغیرہ

انہوں نے مزید کہا: تاریخ مقرر کر دی گئی کہ کب کس کا مرثیہ پڑھا جائے گا، مرثیہ پڑھنے والے کا لباس کیسا ہو گا، آواز کیسی ہو گی، ادائیگی کیسی ہو گی؟۔ غالب نے بھی مرثیہ لکھا لیکن جلد ہی دستبردار ہو گئے کہ ان کے بس کی بات نہیں کہ جو لکھ رہے ہیں۔

جناب افتخار عارف نے کہا: مرزا دبیر، مرزا خبیر کو مرثیہ پڑھتے دیکھا۔ میر انیس کے خاندان میں ان کے بھائی سبھی مرثیہ لکھتے تھے۔ پاکستان کو یہ شرف حاصل ہوا کہ یہاں دوبارہ مرثیے کو عروج حاصل ہوا۔ جمیل مظہری، نسیم امروہی، نجم آفندی، فیض احمد فیض صاحب، حسین عازمی، سیف سوشی صاحب کے بہت اچھے اچھے مرثیے لکھے گئے۔

پروفیسر افتخار عارف نے کہا: ہلال نقوی نے بہت کام کیا۔ خود بھی مرثیے لکھے اور دوسروں کے بھی محفوظ کیے۔ اسی طرح مرثیے میں بہت بڑا نام اقبال کا ہے۔ اقبال نے ائمہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں لکھا۔ جناب نے بی بی سیدہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں علامہ کی فارسی میں لکھی گئی نظم بھی پڑھی۔

انہوں نے کہا: جب آپ کچھ پڑھ رہے ہوں تو آپ کو اس کے پس منظر کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ پھر ہی آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں یا سمجھ سکتے ہیں۔ جیسے کہ حر کی نظم میر انیس نے لکھی۔ اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو حر کا پس منظر معلوم ہونا چاہیے۔

آخر میں جناب افتخار عارف صاحب نے انتہائی احسن انداز میں شرکاء کے سوالات کے جوابات دیئے اور اپنی ایک دعائیہ نظم پیش کی۔

پروفیسر افتخار عارف کا پورا درس سننے کے لئے ریوائیول کے یو ٹیوب چینل پر اور فیس بک پر موجود ہے اور لائیو پروگرام اٹینڈ کرنے کے لیے زوم لنک جوائن کیجئے:

http://www.youtube.com/c/revivalchanel

http://www.facebook.com/revivalchanel

ZOOM ID 3949619859

Password 5

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .