حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ریوائیول احیاء درس علماء کا آن لائن درس اور عوام کے لائیو سوال و جواب کے سلسلہ میں مدرس جناب ڈاکٹر سید حیدر رضا شریک تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے درس کا آغاز خداۓ علیم و حکیم کے نام سے کیا۔ آپ کے زیر بحث کتاب امام خمینی کی کتاب چہل حدیث ہے۔ جس کا بنیادی متن تذکیہ نفس ہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ہمارا پہلا موضوع یہ تھا کہ پلید صفات سے خود کو پاک کرنا ہے اور دوسرا اچھی صفات اور طیب صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا اور پھر وہ باقی رہتی ہیں۔ تو ہم مختلف انداز سے ان صفات کا ذکر کرتے آ رہے ہیں۔ آج ہم کتاب کی بیسویں حدیث پر بات کر رہے ہیں جس کا عنوان "اخلاص" ہے۔ چھٹے امام علیہ السلام سے قرآن کریم کی آیت "لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا" کے بارے میں پوچھا گیا۔ یہ سورہ الملک کی ابتدائی آیت ہے کہ خدا وہ ہے کہ جس نے موت اور حیات کو خلق فرمایا اور اس کا مقصد یہ تھا لِيَبْلُوَكُمْ تا کہ تم کو بلا میں ڈالے یعنی آزماۓ، أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا کہ تم میں سے عمل کے حسن کے حوالے سے کون بہتر ہے، تم میں سے کس کا عمل احسن ہے۔
انہوں نے کہا: حسن کہتے ہیں خوبصورت کو اور احسن جب ہم دو خوبصورت چیزوں کو compare کریں تو جو زیادہ خوبصورت ہو گی وہ احسن کہلاۓ گی یعنی دونوں میں سے زیادہ خوبصورت۔ پس مومنین کے اعمال کا موازنہ کیا جاتا ہے اور بہترین عمل کس کا ہے۔
پوچھنے والے نے پوچھا کہ خدا کی بارگاہ میں عمل کی خوبصورتی حسنِ عمل میں ہے تو یہ پتا کیسے چلے گا کہ عمل احسن ہے ؟ ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ ماہ رمضان قرآن کی بہار ہے اس طرح کی احادیث کو لے کر ہم بس صرف تلاوت کرتے چلے جاتے ہیں لیکن ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ ہم نے پڑھا کیا ہے ۔
ڈاکٹر سید حیدر رضا نے مزید کہا: کثرت تلاوت تو ہم کرتے ہیں لیکن اس قرآن نے ہم سے کیا کہا یہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا ۔ کیا کوئی پیغام تھا ہمارے لیے؟ اس نے ہمیں کچھ بتانا تھا ایسا کچھ نہیں معلوم ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ حسنِ عمل سے کثرتِ عمل مراد نہیں ہے، اگر معرفت کے ساتھ کثرت عمل ہو تو بات ہے لیکن اگر خالی کثرتِ عمل کو دیکھا جائے اور کیفیت کی طرف توجہ نہ جائے تو پھر وہ کثرتِ عمل کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ چونکہ ليس أكثركم عملا کہ عمل کی کثرت یہاں ہرگز مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صوابِ عمل ہے۔ یہاں وہ ثواب نہیں ہے جو ہم سمجھتے ہیں بلکہ صواب ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ "عمل کی درستگی، عمل کی خوبی، اچھے طریقے سے انجام دیا گیا عمل"۔
انہوں نے کہا: افضل کی ہم نے وضاحت کی تھی کہ جو دو میں زیادہ فضیلت والا ہو تو یہ جو وزن ہے افعل کا جس پر افضل ہے احسن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جہاں بھی لفظ اس وزن پر آ رہا ہو تو دو ایک جیسی چیزوں کو کمپیئر کرنا اور ان میں سے عمدہ کو اختیار کرنا۔ پس افضل میں بھی یہی مطلب ہے یعنی زیادہ خوبی والا عمل کس کا ہے۔ و إنما الاصابةخشيةالله والنية الصادقة والخشيه۔
ڈاکٹر سید حیدر رضا نے اس سوال کے جواب میں کہ "عمل میں اچھائی کیسے پیدا ہو گی؟"، کہا: اللہ کی خشیت کے ساتھ عمل انجام دینے سے۔ خشیت کے معنی ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ خشیت سے مراد یہ ہوتی ہے کہ انسان کے قلب پر خدا کی عظمت کا رعب موجود ہو۔ جس کی وجہ سے دل خدا کی طرف جھکے ہوں اور دل پر عظمت الہی کا اثر قائم ہو۔ جس کے تحت دل خدا کی بارگاہ میں جھکے ہوں تو جب بھی کوئی عمل کرنا ہے تو پہلی شرط خشیتِ الہی ہے اس کی عظمت کا اثر قلب پر قائم ہو۔
انہوں نے عمل کی اچھائی کا دوسرا مصداق نیت صادقہ یعنی سچی نیت کو قرار دیتے ہوئے کہا: جو عمل ہم انجام دے رہے ہیں اس عمل کو انجام دینے میں ہماری نیت قربتہ الی للہ ہونا چاہیے۔ یعنی ہم عمل کے انجام دینے میں سچے ہوں۔ بہت سے لوگ اللہ کے حضور میں اپنے دنیاوی مقصد کے لئے جاتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ہم تو فقط اللہ کے لئے کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر سید حیدر رضا نے عمل کی اچھائی کا اگلا معیار حسن عمل کو قرا دیا اور کہا: حسن عمل کی مثال ہم نے دی تھی کہ بوڑھے والدین سے کچھ ایسی چیزیں سرزد ہو جاتی ہیں جو ہمارے لئے تکلیف کا باعث ہوں اور اس کے باوجود ہمارے چہرے پر ذرا بل نہ آئے۔ یہ ہے حسنِ عمل۔ مثال کے طور پر ہم نے نماز پڑھنا شروع کی، اس کی کئی شرائط ہیں مثلاً وقتِ فضیلت پراداء کرنا، خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا وغیرہ تو عمل پر اس طریقے سے باقی رہنا کہ اس کے معیار کو پورا کیا جائے۔
آخر میں ڈاکٹر صاحب نے انتہائی احسن انداز میں شرکاء کے سوالات کے جوابات دیئے اور دعا کروائی۔
قابلِ ذکر ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا مکمل درس ریوائیول کے یو ٹیوب چینل اور فیس بک پر موجود ہے اور لائیو پروگرام اٹینڈ کرنے کے لیے زوم لنک جوائن کیجئے۔
http://www۔ youtube۔ com/c/revivalchanel
http://www۔ facebook۔ com/revivalchanel
ZOOM ID 3949619859
Password 5