۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
اختر عباس جون

حوزہ / الہی نظام کے قیام کی طرف سفر سیاسی نظام سے جڑا ہوا ہے۔ اخلاقی حالت، عبادتی حالت، تعلیمی نظام یہ سب تب درست انداز میں قائم رہ سکتا ہے جب حکومتی نظام الہی نظام ہو۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ریوائیول احیاء درس علماء کا آن لائن درس اور عوام کے لائیو سوال و جواب میں ہندوستان کے برجستہ عالم دین حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا اختر عباس جون صاحب شریک تھے۔

آپ کے زیر بحث کتاب رہبر معظم انقلاب اسلامی کی لکھی ہوئی کتاب "ڈھائی سو سالہ انسان" ہے ۔ یہ مولانا موصوف کی اس حوالے سے تیسری نشست ہے جس میں کتاب کے مقدمے پر گفتگو چل رہی ہے ۔

مولانا اختر عباس صاحب نے درس کا آغاز خداۓ علیم و حکیم کے نام سے کیا۔ علامہ صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: درحقیقت ہمارا جو موضوع ہے وہ پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ والہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی سیاسی زندگی ہے ۔ائمہ علیہم السلام کی زندگی کا کارنامہ ہے کہ آپ نے ہر صورت میں رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی دین بیان کیا اور اس کو قائم رکھنے کی کوشش کی۔ جس کا امت میں صرف ایک ڈھانچہ رہ گیا تھا جس دین میں روح نہ وہ مردار ڈھانچہ کی طرح ہے۔

انہوں نے کہا: محض نماز روزے اور حج والے دین سے کسی حکومت یا حاکم کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا اور نہ پریشانی ہوتی ہے۔ دراصل جب حقیقی دین جو کہ الہی حکومت کا قیام ہے اس کی جھلک بھی نظر آ جائے تو پھر حکومت کو پریشانی شروع ہو جاتی ہے۔

مولانا اختر عباس نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: ائمہ علیہم السلام نے امامت کے بارے میں دو چیزیں بیان فرمائی ہیں: امامت کے شرائط اور امام کی خصوصیات۔

انہوں نے امام حاکم کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا: امام حاکم معصوم ہو، شجاعت رکھتا ہو، بابصیرت ہو اور بعض موقعوں پر امام نام بھی لیتے تھے کہ وہ ہم ہیں اور الہی حکومت کے قیام کا حق ہمیں حاصل ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ شیعوں نے بھی امامت کو محض عقیدے کے طور پر اپنا لیا اور امامت کی حقیقی روح سے دور ہو گئے۔

مولانا اختر عباس نے مزید کہا: ائمہ علیہم السلام اس انداز میں لوگوں کی تربیت کرتے تھے کہ لوگ حکومتوں سے سوال کرتے اورکبھی کبھی یہی سوال تحریک کی شکل اختیار کر جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ زمانے کی حکومتیں خوف زدہ رہتی تھی اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی عملی کوشش بھی چلتی رہتی اور آپ کو اور ائمہ علیہم السلام کے ساتھیوں کو زندان میں ڈال دیا جاتا اور زندان ائمہ کے چاہنے والوں سے بھرے ہوئے ہوتے۔

انہوں نے کہا: ائمہ علیہم السلام سے مخالفت کی بنیادی ترین وجہ یہی سیاسی جدوجہد تھی۔ ظاہراً یہ لگتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور آسان دور تھا لیکن درحقیقت ان کو بھی حکومت بہت پریشان رکھتی۔ کئی دفعہ آپ کے گھر پر یلغار کرتے اور آپ بمشکل چند ضرورت کی چیزیں بچا پاتے اور وہ لوگ آپ کا گھر جلا دیتے تھے۔ ایک خوف رہا حکومتوں میں کہیں یہ نظام حاوی نہ ہو جائے۔

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: کسی بھی چیز کی طرف ایسی دعوت نہیں دی گئی جیسی ولایت کی طرف دی گئی ہے ۔ ائمہ علیہم السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو امام کے طور پر پہچنوایا جیسے جناب ابراہیم علیہ السلام امام تھے ۔

مولانا موصوف نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: مسئلہ وہاں آتا ہے جہاں امامت کا ذکر ہو۔ آج بھی نمازیں ہو رہی ہیں، لاکھوں لوگ حج کر رہے ہیں لیکن اس سب سے حکومتوں کو کوئی مشکل نہیں۔ الہی نظام کے قیام کی طرف سفر سیاسی نظام سے جڑا ہوا ہے۔ اخلاقی حالت، عبادتی حالت، تعلیمی نظام یہ سب تب درست انداز میں قائم رہ سکتا ہے جب حکومتی نظام الہی نظام ہو۔

مولانا اختر عباس نے خیمے کی مثال دی کہ جیسے خیمے کا درمیانی بڑا ستون نہ ہو تو وہ درست طور پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ درمیان میں سے گرا ہوتا ہے یہی حال بغیر سیاسی نظام کے دین کا ہے جس میں درمیانی ستون غائب ہے ۔

مولانا نے انتہائی احسن انداز میں درس کے شرکاء کے سوالات کے جوابات دیئے اور دعا کروائی۔

مولانا اختر عباس جون کا مکمل درس ریوائیول کے یو ٹیوب چینل پر اور فیس بک پر موجود ہے اور لائیو پروگرام اٹینڈ کرنے کے لیے زوم لنک جوائن کیجئے:

http://www.youtube.com/c/revivalchanel

http://www.facebook.com/revivalchanel

ZOOM ID 3949619859

Password 5

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .