۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا قاضی عسکری

حوزہ / ریوائیول احیاء درس علماء کا آن لائن درس اور عوام کے لائیو سوال و جواب کے سلسلہ میں مدرس جناب مولانا قاضی عسکری شریک تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ریوائیول احیاء درس علماء کا آن لائن درس اور عوام کے لائیو سوال و جواب کے سلسلہ میں "ترقی کا راز" کے موضوع پر مدرس جناب مولانا قاضی عسکری شریک تھے۔

مولانا صاحب نے درس کا آغاز خداۓ علیم و حکیم کے نام سے کیا۔ آپ نے پروگرام کے موضوع سے متعلق فرمایا کہ ترقی ایک ایسا موضوع ہے جو ہر سماج میں رائج ہے۔ اکثر لوگ اس کے حصول کے لئے کوشاں بھی رہتے ہیں لیکن عزیزو پہلا سوال یہ ہے کہ ترقی ہے کیا؟ کیونکہ جو چیز ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں اگر ہم اس سے واقف نہیں ہیں، اس سے آشنا نہیں ہیں، اس کے بارے میں جانتے نہیں ہیں تو ہو سکتا ہے جو چیز ہم حاصل کر کے خوش ہو رہے ہوں وہ نہ ہو جو ہم چاہتے ہوں۔

انہوں نے کہا: انسان کو ہیرے کی تلاش ہو لیکن پہچان نہ ہو۔ تو ہو سکتا ہے کہ وہ بھاری قیمت ادا کر کے شیشہ اٹھا لائے اور خوش ہے کہ ہمارے پاس ہیرا ہے لیکن جب اسے جوہری کے سامنے پیش کیا، گوہر شناس کے سامنے پیش کیا جب اسے معلوم ہو گا کہ یہ تو ہیرا نہیں ہے۔ تو تب اس پر کیا گزرے گی؟ لہذا معلوم ہونا چاہیے کہ ترقی ہے کیا؟ پھر اسے پہچاننے کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ اسے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ اس کا راستہ کیا ہے اس کا راز کیا ہے؟ ۔

مولانا قاضی عسکری نے مزید کہا: ترقی کے سلسلے میں مختلف نظریات اور مختلف افکار پاۓ جاتے ہیں۔ قرآن مجید اسی مہینے میں نازل ہوا۔ دین اسلام کی سب سے بڑی دستاویز جس کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کا پیغام ہے۔ جس کے اللہ کا پیغام ہونے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جس کا کلام خدا ہونا یقینی ہے۔ آئیے دیکھیں کہ اللہ جل شانہ ترقی کے بارے میں کیا نظریہ دیتا ہے؟

قرآن مجید نے پہلے دوسروں کے نظریہ کو پیش کیا ہے کیونکہ انصاف کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ آپ جو بیان کر رہے ہیں اس میں دوسروں کے نظریہ کو بھی بیان کر دیا جائے تاکہ انسان تاریکی میں کسی نظریہ کو نہ چنے۔ آج دنیا میں بہت سارے افراد کا خیال ہے کہ ترقی یہ ہے کہ جتنا زیادہ پیسہ ہمارے پاس آ جائے اتنے ہی ہم ترقی یافتہ ہیں۔ جس ملک میں پیسے کی فراوانی ہو اس ملک کو ترقی یافتہ سمجھتے ہیں اور جہاں پیسہ کم ہے اسے ہم پسماندہ سمجھتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: یہی وجہ ہے کہ پسماندہ ملکوں سے نکل کر لوگ اپنے خام خیالی میں خود کو ترقی یافتہ ممالک میں تصور کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے جس نظریہ کو پیش کیا ہے کہ یہ جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر دولت آ جائے تو یہی سب سے بڑی ترقی ہے۔ تو سورہ قصص میں قارون کی کہانی بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں پروردگارعالم فرماتا ہے: قارون کے پاس بہت دولت تھی تو اس نے سوچا کہ نمائش کرے فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ یعنی وہ (ایک دن) اپنی قوم کے سامنے اپنی زیب و زینت کے ساتھ نکلا تو جو لوگ دنیاوی زندگی کے طلبگار تھے وہ کہنے لگے کہ کاش ہمیں بھی وہ (ساز و سامان) ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ بیشک وہ بڑا نصیب والا ہے۔ (سورہ قصص :79)

مولانا قاضی عسکری نے کہا: عام طور پر جن لوگوں کے پاس پیسہ آ جاتا ہے اکثر کا یہی رویہ ہوتا ہے جن کے پاس دولت آ جاتی ہے تو وہ اس کی نمائش کرتے ہیں۔ لہذا وہ بھی اپنی ساری دولت اونٹوں پر لاد کر قوم کے سامنے لے آیا۔ اب لوگوں نے جب قارون کی دولت دیکھی تو دو طرح کا رد عمل سامنے آیا، وہ افراد جو دنیا کی ہی زندگی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں جو کچھ ہے یہی دنیا ہے جو تکلیف ہے اسی دنیا کے لئے ہے جو خوشی ہے اسی دنیا کی ہے، اے کاش ہمارے پاس بھی قارون کی طرح خزانہ ہوتا۔ قارون کو بہت بڑا حصہ ملا ہے، ترقی اگر ہے تو قارون کے پاس ہے ۔

انہوں نے مزید کہا: حالانکہ اصل ترقی یہ ہے کہ انسان کی آخرت سنور جائے، دنیا سنورے یا نہ سنورے۔

مولانا نے پروگرام کے آخر میں انتہائی احسن انداز میں شرکاء کے سوالات کے جوابات دیئے اور دعا کروائی۔

مولانا کا مکمّل درس ریوائیول کے یو ٹیوب چینل پر اور فیس بک پر موجود ہے اور لائیو پروگرام اٹینڈ کرنے کے لیے زوم لنک جوائن کیجئے۔ پروگرام کے بارے میں با خبر رہنے کے لئے واٹس ایپ گروپ جوائن کیجئے:

http://www.youtube.com/c/revivalchanel

http://www.facebook.com/revivalchanel

https://rebrand.ly/revival-whatsapp

ZOOM ID 3949619859

Password 5

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .