۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
میر انیس نمبر‘رثائی ادب کا ماہ کمال’

حوزہ/ میر انیس کا خصوصی شمارہ منظر عام پر آنے سے انقلاب پیدا ہوگیا ۔اس شمارے کے نظم و نثر کا مجزا قابل داد و تحسین ہے اور اردو ادب کے تمام شعبوں میں ماہنامہ ’’نیادور‘‘ کی زمزمہ ریحانی نے اس خصو صی شما رے کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو گیا ۔

تحریر: محمد رضا ایلیاؔ، مبارک پور، اعظم گڑھ

حوزہ نیوز ایجنسیڈاکٹر وضاحت حسین رضوی کی اردو ادب سے حقیقی محبت مجبول و مفطور ہے ۔ باعتبار نیادور کا خصوصی شمارہ ’’میرانیس نمبر‘‘ کے مطالعہ کے بعدمیں ہمہ دانی کا قائل تو نہیں بہر کیف یہ عبارت ضرور تحریرکروں گاکہ شہر لکھنؤ جو زبان و ادب ، تہذیب و ثقافت کا مرکز ہے ، جہاں خدائے سخن میر انیس ومر ز ا دبیر وغیرہ کی آخری قیام گاہ ہے ، میری ذاتی حبرت کے مطابق اب تک تو میر انیس پرمنحصر ایسا خصوصی شمارہ منظر عام پر نہیں آیا۔میرا نیس نمبر ارباب علم و دانش ،محقق و نقاد بالخصو ص اہل لکھنؤ کے لیے مرہونیت و ممنونیت ہے۔ اس خصوصی شمارہ کے ذریعہ مدیر نے ادبی صلاحیتوں کا لو ہا منوا لیا ۔

یہ خصوصی شمارہ ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی کے حسن انتخاب اور ذاتی ادبی شوق و ذوق نیز معراجی بالیدگی کا بین ثبوت ہے جس کو صرف ذی فہم ہی درک کر سکتا ہے۔اگر نگاہ بسط اوربلا حسد اس شما رہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ خصوصی شمارہ اپنے آپ میں مخاطبہ کا نایاب و اجمل موضوع ہے ۔حلقہ اردو ادب و محقق و مدبر اور مفکر و محرر میں یہ تذکرہ متداول ہے کہ ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے اپنی ادارت میں خصوصی شمارہ کے ذریعہ جو اردو ادب کی خدمت کی ہے جسکی تاابد کی پذیرائی ہوتی رہے گی اور اس کی علمی و ادبی اہمیت و افادیت سے اہل علم مستفیض و مستفید ہوتے رہیں گے ۔ نیز اس دستاویزی شمارے کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا اور مظنونیت سے پرے حقانیت سے قریب تر خصوصی شما رہ کے شایع کرنے میں ان کی خدمات آب زر کی حامل ہے ۔

یقین کامل سے یہ بات تحریر کررہا ہوں کہ خصوصی شمارہ ’’ میر انیس نمبر‘‘میں گزشتہ شما روں کی بہ نسبت اس خصو صی شما رہ میں علمی مواد کا فی جانفشانی کا مظہر ہے ۔ اس شما رہ میں میر انیس کی حیات و خدمات مراثی کے اسرار ورموز ،مخفی نکات کے بارے میں کا فی اہم اطلاعات و معلومات کے مخازن ہیں۔ اگرکوئی مطالعہ مستغرق سے کام لے تو اس شمارے میں اخلا ف و اسلاف (میر انیس کا سلسلۂ خاندانی ، مر ثیہ و خاندان انیس ،میر انیس مغفور، جسکی مجھے تلاش تھی) ، آثار و اقدار(کو چہ میر انیس ، واجد علی شاہ اور میر انیس ، لکھنؤ سے میر انیس کی محبت وغیرہ ، دیدھائے رنگا رنگ ، (میر انیس اور عالم انسانیت ، مرثیہ کی معنویت ، میر انیس ماہر آئینہ فطرت ، انیس کے کلام میں تاریخ اسلام ، فردوسی و انیس ، موازنۂ انیس و خیامی وغیرہ )چیدہ و چنیدہ ( زندگی نامہ میر انیس ، میر انیس کے مرثیہ میں ، میر انیس کی منقبت ،کلام انیس میں صنعت غیر منقوطہ ، انیس کے مرثیہ میں علم الاعداد ، میر انیس کی بدیہہ گوئی وغیرہ ) موجود ہیں جو توجہ مر کز ہیں یا یوں کہا جائے تو کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ اردو ادب ورثائی مگس کے لیے ’’نیادور‘‘کا میر انیس نمبر ایسا گلستان ہے جہاں مختلف اقسام کے گل مشمو م و خالص عسل النحل کی وافر مقداد میں دستیابی ہے ۔تمام خصوصی شماروں میں میر انیس نمبر کو ماہ کمال ، مرتبہ کمال کا درجہ حاصل ہے جو آسمان ادب و ثقافت پر مثل بدر منیر چمکتا رہے گا اور اس کی ادبی شعائیں محققین ونقاد پر مسلسل پڑتی رہیں گی ۔ جس سے مذکورہ مراتب کے افراد فیضیاب ہوتے رہیں گے۔

میر انیس کا خصوصی شمارہ منظر عام پر آنے سے انقلاب پیدا ہوگیا ۔اس شمارے کے نظم و نثر کا مجزا قابل داد و تحسین ہے اور اردو ادب کے تمام شعبوں میں ماہنامہ ’’نیادور‘‘ کی زمزمہ ریحانی نے اس خصو صی شما رے کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو گیا ۔ مگر بطور نور ایقان کہی جا سکتی ہے کہ کسی بھی تحقیقی دستاویزاور خصوصی شمارے شایع میں عرق ریزی ، جانفشانی ، امتثال ، امتثال امر، تگ و دو کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی خود ا س مجلہ میں اداریہ میں اس بات کی آگاہی یوں کرتے ہیں:
’’یہ الگ بات ہے کہ اس کا م کو انجام دینے میں بڑی جگر کا وی اور دماغ سوزی کرنی پڑی ، چونکہ ’’نیادو ر‘‘ ایک سرکاری رسالہ ہے اور آپ یہ بات مجھ سے بہتر جا نتے ہیں کہ سرکارکی کفالت میں نکلنے والے رسائل و جرائد میں مدیران کو کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بالخصوص کسی نمبر کی اشاعت یہ ایک ناگزیرعمل ہے ۔ میر انیس نمبر سے پہلے بھی میں نے بہت سے خا ص نمبر نکالے ہیں لیکن ان میں مجھے اتنی دشواریوں کا سامنا کرنا نہیں پڑا جتنا اس نمبر کی اشاعت میں مجھے دشواریاں پیش آئیں۔‘‘ اس تاثرات و دلی جذبات اردو ادب سے والہانہ مودت کے لیے بس میں اتنا ہی کہوں گا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

میر انیس کے اس خصوصی ادبی جرید ہ کی ذو معنی اور دو اندیش فکری جہات نے اردو بستیوں کے اولوالعزم نباض ادب ،مشاہیرعلم و دانش ، فراخ حوصلہ شخصیت اوربا ذوق نوجوانوں کو اپنی طرف ملتفت کرلیا ۔ ’’نیا دور‘‘خصوصی شمارے کے لیے یہ فخر کا مقام ہے کہ ہمیشہ علم کے متلا شی ، لا ئق و فائق اورمحقق و مدبراور مفکر و محرر ہی اس کے محب رہے ہیں ۔ اداریہ کے ثانی خط عمود کے تناظر میں تمام قارئین ،حق پرست کواس کا اعتراف و اشتہاد نیز علم میں تفریع کا سبب ہو گا، جس طرف مدیر نے توجہ مبذول کرائی ہے :

’’اس سے پہلے نیادور کی ادارت کی ذمہ داری اردو ادب کے ایک سے بڑھ کر ایک قدآور شخصیتوں کے ہاتھوں میں رہی اور ان مدیران نے نیادور کو ایک ادبی وقار ضرور عطا کیا اور ان میں سے بہت سے مدیران نے عام شماروں کے ساتھ خاص نمبر بھی نکالے لیکن کسی نے میر انیس جیسے عظیم شاعر پہ اتنی توجہ نہیں دی جس کے وہ حقدار تھے ۔‘‘

مدیر کی علمی ، فنی اور تحریری دواندیشی نے میرانیس نمبر منظر عام پر لانے کا امتیازی فیصلہ کیا ۔ مطالباتی مضامین جمع کرنا ہیرے تراشنے کے مترادف ہے ۔مگر جب ارادہ نقش کالحجر ہو، نیت میں پاکیزگی ہوجب اردوادب و رثائی کی محبت ترشع ہو تو وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے ۔
روشنی گر خدا کو ہو منظور
آندھیوں میں بھی چراغ جلتے ہیں

رسالہ اردو ادب، اوراردو کی بے لوث ، والہانہ خدمات تقریباً سوبر سوں سے چلی آرہی ہے لیکن یہ بات قابل ذکر و غور ہے کہ میر انیس کے حوالے سے ترتیب وار مضامین کا انتخاب ، اس کی اعتبا ریت وانفرادیت کو ظاہر کر رہا ہے ۔مضامین کے انتخاب میں کا فی با لغ النظری سے کام لیا گیا ہے۔ اس شمارے میں علمی مواد اور تحقیقی مطالب کے پیش نظریہ بات بطور مکمل اعتما د و یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس کے فکر انگیز ، تحقیقی دستاویزکا ذخیرہ کئی صدیوں پر محیط اور اثرا نداز ہوں گے نیز جب جب بھی نیادور کے خصو صی شماروں کا تذکرہ کہیں بھی ہوگا توڈاکٹر وضاحت حسین رضوی کی بے لوث خدمات نیز میرانیس نمبر کا تذکرہ اول ذکر کا مصداق ہوگا۔ یاداشت کے قلم سے یہ بات اذہان عالیہ میں مستحضر رہیں گی کہ نیادو رکا خصوصی شماروں میں میرانیس نمبر کو آب نیساں کا مقام حا صل ہے ، اردو ادب کے لیے مستودع ہے۔

اس شمارے کے کو رپیج پر میر انیس کی تصویر جاذب نظر ، سر ورق پرنیادو ر کی موجودہ ادارت میں 2004 سے تاحال نکلے والے خصو صی شمارے کی تصاویر عشاق ادب ، دانشوران ،محققین ، اہل ذوق ،نیادور کے محب خاص ،متلاشی خصوصی شمارہ نیادور کے لیے سکون قلب نیز مشعل راہ کا سبب خاص ہے ۔ آخری صفحہ سے قبل ’شہر لکھنؤ میں واقع مقبرۂ میر انیس کی ایک تصویر بھی اجمل ہے ۔

میر انیس کا سلسلہ خاندانی کے ضمن میں1231ء قلمی مخطوطہ سے استفادہ کرکے سید یو سف حسین شائق جو مضمون قارئین کے لیے بیش قیمتی مضمون صفحہ قرطاس کے حوالے کیا ۔ اس پر تبادلہ خیال کرنا سورج کو شمع دکھانے کے مترادف ہوگا ۔ اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ضرورکہوں گاکہ اس مضمون کو ہر قارئین کو لازمی طور پرمطالعہ کرنا چاہئے ۔ جناب رئیس کی تحریر لاجواب ہے ۔ان کا مضمون تحقیقی ہے ۔ اس مضمون میں دعوی کے ساتھ دلیل بھی ہے ۔ رثائی ادب سے والہانہ محبت کے مدعی کے لیے مشعل راہ ہے نیز ایصال الی المطلوب کا ذریعہ بھی ہے ۔ عزت مآب علی احمد دانش متعدد بار دو بدو گفتگو کا شرف حاصل ہوا ۔ ان کے حبیب کدہ پر جانے کا بھی شرف حاصل ہوا ۔جہاں پر میر انیس کا قلم ، ان کی ٹوپی ، آخری کلام کی زیا رت کا شرف حا صل ہوا جس کو میں نے بر قی آلہ سے محفوظ کر لیا ۔ان کے مضامین کا مطالعہ سے اس بات کا احساس ہوا کہ جس طرح دوران گفتگو علم و ادب ، تہذیب وثقافت کے پھول جھڑتے تھے ۔ان کی تحریر میں وہی تمام صفا ت موجود ہیں ۔ مرحوم کی شخصیت غیر معمولی صلاحیت کی حامل تھی ۔ انہوں نے متعدد ایسے کام پایہ تکمیل تک پہنچایا جس کا اجر انہیں ضرور ملے گا۔ ان کے انتقال سے لکھنؤ ،اردو ادب کے درمیان اسکو پرکرنا محال ہے۔

عمید جامعہ ناظمیہ آیت اللہ سید حمید الحسن نے اپنے مضمون ’’میر انیس اور عالم انسانیت ‘‘میں کلام انیس میں انسانیت کے ذیل میں اس کی فلاح و بہود کے اصول بیان کیا ہے۔مضمون میں واقعہ کربلا کی بصیر آمیز تعلیمات کو کلام انیس کے آئینے میں پیش کیا گیا ہے ۔عالم انسانیت کے لیے کلام انسانیت میں تین اصناف سخن کو جس ماہرانہ اوراستاد الاساتذانہ انداز میں قارئین کے لیے پیش کیا ہے ۔ اس پر تبصرہ کرنا مجھ جیسے طفل مکتب سے نا ممکن ہے ۔ علامہ علی الاطلاق حضرت مفتی سید محمد عباس شو ستری اور حضرت میر انیس کے درمیان محبت والفت کی نشاندہی قابل ذکر ہے ۔تاریخی قطعہ ’’ہائے جز خاک نہ تکیہ نہ بچھونا ہو گا‘‘ مفتی محمد عباس شوستری کی کمال تاریخ گوئی کا اندازتحریرخوب سے خوب ترہے ۔ فضل امام صاحب کے مضمون میں دعوی اور دلیل دونوں موجود ہیں ۔انہوں اپنے مضمون میں یہ ثابت کیا ہے کہ میر انیس وہ شاعر عظیم ہیں جن کے کلام میں دلی اور لکھنؤ کے دبستانوں کے امتزاج موجود ہیں۔

استادالا ساتذہ مولانا مظفر سلطان حسن ترابی بہترین مقرر ،استادالشعراء جن کی شاعری زبان زد ہے۔ان کے متعدد تاریخی، تحقیقی اورتنقید ی مضامین کے مطالعہ سے فیضیاب ہوا ۔ مو صوف کی شاعری ، تقریر، مضامین ان کی علمی صلاحیت کو اجاگر کرتی ہے ۔اپنے مضمون میں انہوں نے میرانیس کے کلام میں اہلبیت اطہارؑ سے متعلق حقیقی واقعات ،قرانی آیات اور احادیث ، اسلام کی جنگ و جدال وغیرہ کابحسن خوبی جائزہ لیا ہے ۔مولانا کی تحقیق ، جد و جہد عمیق مطالعے کا بین ثبوت ہے ۔

شمارے میں شامل پروفیسر زماں آزردہ کے مضمون ’’مرزا دبیر معترف میر انیس ‘‘ کو کمال رافت کا درجہ حاصل ہے۔ مضمون میں انہوں نے جس صداقت سے قارئین کو روشنا س کرایااور عوام الناس کی توہم پرستی، غلط فہمی کو دور کیا وہ یاد رکھنے کے قابل ہے ۔روح قفس عنصری سے پرواز کے بعد14 اشعار پرمنحصر دبیرکا تحریر کردہ قطعہ تاریخ اس مضمون میں پیش کیا ہے۔فن علم الاعداد کے حوالے سے ڈاکٹر محمد علی عابدی کے مضمون کو انفرادی حیثیت حاصل ہے متعدد مصرعوں میں انہوں نے قارئین کی توجہ مبذول کرائی ہے وہیں ڈاکٹر عباس رضا نیر نے منظر نگاری کے اسرار و رموز نیز محاربۂ عظیم کے تمام پہلوؤں پرروشنی ڈالی ۔ انیس کی رباعیوں نے اردو ادب کو معراجی بلندی عطا کی رباعی کی صنف کو کوزہ میں دریا سمونے کے مترادف ہے میر انیس نے مخصوص بحروں میں کل کائنات کا احاطہ کر دیا ۔عالیجناب مولانا علی اصغر الحیدری نے ’’موازنہ رباعیات انیس و خیامی ‘‘کے عنوان سے جو مضمون قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے یہ تحقیقی سر چشمہ ہے جس سے شائقین ادب کو سیراب ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کا موازنہ علمی ، فنی صلاحیت کی علامت ہے ۔ مولانا علی ریحان ترابی نے’’ میر انیس کی بدیہہ گوئی‘‘میں بے حد عمیق اور بلیغ فکر و خیال سے کام لیا ہے ۔ اس میں انہوں نے میر انیس اور مرزا دبیر کے درمیان فکری و فنی ، آپسی علمی و ادبی معرکہ آرائی کا بھی بحسن و خوبی جائزہ لیا ہے ۔

اس خصوصی شمارے میں خواتین نے بھی منفرد انداز میں اپنی صلاحیت کا ثبوت پیش کیا ہے جن میں ڈاکٹر شبینہ صغری ، شمیم فاطمہ ، ڈاکٹر نکہت جہاں اور حبیبہ بانو ہیں جنہوں نے مختلف زاویوں ، فنی اصول و ضوابط کو بر قرار رکھتے ہوئے علمی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ۔ مضمون میں تطویل کے سبب دیگر معزز اور قابل قدر شخصیات کے مضامین پر تبصرہ نہیں کر سکا جس کے لیے معذرت خواں ہوں ۔

میر انیس نمبر‘رثائی ادب کا ماہ کمال’
محمد رضا ایلیاؔ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • وسیم حیدر ھاشمی IN 20:29 - 2021/11/27
    0 0
    B.10/ 43, Shivala, Varanasi-221001