تحریر: حجۃ الاسلام مولانا سید کرامت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی | مفکر اسلام مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق صاحب مرحوم زمانہ شناس عالم تھے آپ بیک وقت مصلح ، قائد ، مفکر ومدبر ، ادیب اور نباضِ وقت خطیب تھے تعلیمی مہارت میں آپ ایک منفرد مقام رکھتے تھے ۔
پروردگار نے آپ کو فہم و فراست اور حکمت و بصیرت کی دولت کے بڑے حصے سے نوازا تھا ۔
یہی وجہ تھی کہ آپ زمان و مکان کے تقاضوں اور نفسیات کے مطابق دین مذہب اور شریعت و انسانیت کی تعلیمات پیش کرنے میں لاثانی ہنر رکھتے تھے ۔
آپ باعمل ہمدرد قوم و ملت باشعور و بابصیرت علمائے سلف کے افکار و خیالات اور ان کی تمناوں کے امین و سچے جانشین تھے ۔
جہاں بھی مجالس خطاب کے لیے جاتے مومنین اور ان کے بچوں کو تعلیم و تہذیب اور اخلاقی اقدار سیکھنے اور اُن پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کرتے ۔
آپ نے اپنی تمام زندگی جہالت ختم کرنے اور علم پھیلانے میں وقف کر رکھی تھی ۔
ایمانی فراست ، سیاسی بصیرت بیدار مغزی ، ارادے کی مضبوطی ، حالات سے باخبری اور قوم و ملت کی صحیح نباضی نے آپ کی شخصیت کو پُر اعتماد بنا دیا تھا ، آپ نے اپنی منزل اور اپنا راستہ خود متعین کیا تھا ، وسعتِ ظرف ، کثرتِ عمل اور جرئت و ہمت آپ کی پہچان تھی۔
آپ کی زبان میں تاثیر اور لہجہ میں شرینی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی ۔
جلسات و کانفرانس ہوں یا سمینار مجمع غیر مسلم ہو یا اہل اسلام سنیوں کا یا شیعہ — سامعین بڑے شوق اور بے چینی کے ساتھ آپ کی تقریر اور بیان کے منتظر رہتے اور جب بیان ہوتا تو مجمع کے انہماک اور توجہ سے لگتا کہ جیسے کہ آپ کی سحربیانی نے اُن کی سماعتوں کو مسخر کر دیا ہو ۔
جس بزم میں صہبا ہو، نہ ساغر ہو، نہ خم ہو
رندوں کو تسلی ہے کہ اُس بزم میں تم ہو
دنیا کے مشرق و مغرب کے گوش و کنار میں بسنے والے اردو زبان مومنین کے علاوہ انگریزی داں مومنین میں بھی آپ یکساں مقبول تھے۔
آپ حق گوئی میں بڑے بے باک انسان تھے حق بات کہنے میں عہدہ اور مال و دولت کو کبھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے حق بات برملا کہہ جانا آپ کا طرہ امتیاز تھا۔
آپ اپنی خطابت اور تقاریر میں امت اور ملت کو تعلیم کی طرف خاص توجہ دلانا فرض اور لازم سمجھتے تھے ، وحدتِ اسلامی ، آپسی بھائی چارہ اور رواداری برقرار رکھنے پر ہمیشہ زور دیتے ، افرادِ ملت کو ایک مہذب انسان ، ایک ذمہ دار شہری بننے اور وسعت قلبی کا درس دیتے۔
ملک کے مختلف شہروں میں آپ کے قائم کردہ بہترین اسکول اور کالجیز تعلیمی و رفاہی مراکز آپ کی عظیم خدمات کا بہترین نمونہ ہیں ۔
آپ کی محبوبیت و مقبولیت اور خدمات کا دائرہ صرف علمی یا مومنین و امت مسلمہ ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ ارباب اقتدار و حکومت میں بھی آپ کی ذات گرامی کو قدر و منزلت حاصل تھی اور آپ کی رائے اور مشورے کو ایک خاص اعتبار حاصل تھا۔
احسان فراموشی ہوگی اگر آپ کی اُس شفقت و ہمدردی کا ذکر نہ کیا جائے کہ لکھنو میں ہمارے طالب علمی کے دور میں ایک وقت ایسا بھی گذرا جب لکھنو کے کچھ اوباش ، فتین اور کاروباری منبر مافیانے تنظیم المکاتب اور اس سے وابسطہ علما خصوصا خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری علامہ جوادی اور مولانا سید کرارحسین طاب ثراہم کے خلاف گھناونے الزامات بے احترامی بدتمیزی گالیاں اور منبر سے لعن طعن کا ماحول بنا رکھا تھا اُس طوفان بدتمیزی بھرے ماحول میں ہم طلاب جامعہ امامیہ کا شہر میں برپا ہونے والی مجالس و محافل اور دیگر پروگرامز میں جانا محال ہوگیا تھا ، خود ساختہ عقائد کے ٹھیکے دار ہم طلبا پر آوازے کستے تھے اور ہمیں وہابی اور دشمن اہلبیت ع جیسے غلیظ القاب سے پکارا جاتا تھا ۔
اُس کوفت بھرے ماحول میں شہر لکھنو میں حکیم امت مولانا کلب صادق طاب ثراہ ہم طلاب کے لیے بہت بڑا سہارا بن کے سامنے آئے مجالس محافل اور نماز جمعہ ہر جگہ ہم طلاب کی حوصلہ افزائی فرماتے کسی مجلس و محفل میں اجتماعی طور پر جب ہم طلاب جامعہ امامیہ پہونچتے تو آپ بڑی عزت افزائی فرماتے ، درمیان مجلس ہم لوگوں سے مخاطب ہوکر منبر کے نزدیک بٹھاتے ، علم ، طالب علم کی فضیلت بیان کرتے۔
یقیناً
آپ کی رحلت سے ملت ایک عالمی شہرت یافتہ رہنما علم و آگہی کے آفتاب اور عزم وعمل کے ماہتاب سے محروم ہوگئی ۔
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گذر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آپ کی قبر و روح پر اپنی بے پایان رحمتیں نازل کرے اور اعلٰی علیین میں بلندترین درجات نصیب فرمائے۔