تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | دو برس پہلے 24 نومبر 2020 کو ماہر تعلیم خادم بشریت عالم و مجاہد حکیم امت مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی طاب ثراہ انتقال فرما گئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی صاحب قبلہ مرحوم سے مجھ ناچیز کی چند بار ہی ملاقات رہی لیکن آپ کی شخصیت کے نقوش دل و ذہن پر ایسا اثر انداز ہوئے کہ جسے بھول پانا مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے۔ ذیل میں مرد مجاہد کی زندگی کے چند نقوش پیش ہیں۔
عبادت: نماز اول وقت، نماز جماعت میں شرکت، نماز شب کی پابندی اور دعا و مناجات آپ کی عبادی زندگی کا حسن تھا۔
مطالعہ: تمام تر مصروفیات کے باوجود مطالعہ کا بے انتہاء شوق تھا۔ کثیرالسفر تھے اور سفر میں کتابیں ہی آپ کی ساتھی ہوتی تھیں۔
اخلاق: ہر ایک سے اس طرح ملتے کہ وہ آپ کے حُسنِ خلق کا معتقد ہو جاتا اور یہی سمجھتا کہ مولانا ہمیں بہت چاہتے ہیں۔
ماہر تعلیم: آپ کو جہالت سے نفرت تھی۔ جہالت، غربت اور کریپشن کو آپ انسانیت کا اصل دشمن جانتے تھے۔ لہذا آپ نے جہالت کے خاتمہ کے لئے اسکول، کالج اور یونیورسٹی قائم فرمایا۔ یونٹی نام کے اسکول اور کالج کھولے تا کہ اسمیں پڑھنے والے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بھای چارے کی تربیت بھی ہوتی رہے۔
جس طرح خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ نے تحریک دینداری کے ذریعہ قوم میں دینی تعلیم کی ترویج کی کہ مکاتب امامیہ اور اس کے نصاب تعلیم نے بے دینی کے دامن کو دینداری کے چراغ سے چاک کر دیا۔ اسی طرح حکیم امت مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی صاحب قبلہ طاب ثراہ کی تحریک تعلیم نے ملک و ملت کو سربلندی عطا کی۔
بردباری اور برداشت: جیسے آپ کو غصہ آتا ہی نہ ہو۔ خود ہی فرماتے تھے کہ غصہ والا پیچ ڈھیلا ہی نہیں بلکہ گر چکا ہے۔
سعہ صدر: کسی بھی اہم کام کے انجام دینے کی پہلی شرط سعہ صدر ہے۔ جناب موسی کلیم خدا کو جب اللہ نے حکم دیا کہ "فرعون کے پاس جاو وہ سرکش ہو گیا ہے" تو کلیم الہی نے پہلی دعا یہی مانگی کہ "خدایا مجھے سعہ صدر عطا فرما۔" ہمارے حضور کو بھی اللہ نے شرح صدر عطا فرمایا۔۔ "اے نبی کیا میں نے آپ کو سعہ صدر نہیں عطا فرمایا۔" مفسرین نے شرح صدر کے سلسلہ میں لکھا کہ اس کی ابتدا عقل، انتہاء معرفت اور وسط علم ہے۔ یعنی عقل و علم کی منزلیں طے کرنے کے بعد انسان کو مقام معرفت نصیب ہوتا ہے جو اس کے سعہ صدر ہونے کی دلیل ہوتا ہے۔
مولانا سید کلب صادق نقوی صاحب قبلہ مرحوم کی اعلی ظرفی اور سعہ صدر کی بہت سی مثالیں ہیں جن میں سے کچھ تو تاریخی یاد گار ہیں بلکہ انکی کامیابی کا راز ہے۔
نظم و ضبط: حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے وصیت نامہ میں تقوی الہی کے بعد جس چیز کی وصیت فرمائی وہ نظم ہے۔
مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی صاحب قبلہ مرحوم وقت کے ایسے پابند تھے کہ اگر کہیں انکی خطابت کا اعلان ہوتا تو مومنین بروقت حاضر ہو جاتے کہ یہ مجلس بروقت ہی ہو گی۔ اگرچہ اس پابندی وقت میں آپ کو کافی دشواری کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن آپ ثابت قدم رہے۔
رسم و رواج سے دوری: آج ہمارے ہر پروگرام میں دین پیچھے اور رسمیں اگے ہیں۔ مثلا شادی بیاہ میں مہنگے میرج ہال و دیگر فضول خرچیاں آگے ہیں۔ اور مہر کی واجب ادائگی اکثر مقامات پر فقط نکاح نامہ کی زینت ہی ہوتی ہیں۔
مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی صاحب قبلہ کو اگر عقد کی دعوت دی جاتی تو آپ اس شرط پر قبول کرتے کہ مہر کی بروقت ادائگی ہو، جہیز نہ ہو اور نہ ہی بہت مہنگا میرج ہال ہو۔ حکیم امت نے یہ تبلیغ بعد میں کی پہلے خود عمل کر کے دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیا۔
دین و مذہب کی نمایندگی: مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی صاحب قبلہ مرحوم نے جہاں مختلف شہروں میں اسکول، کالج اور یونیورسٹی قائم کئے جس سے دانشور طبقے میں آپ کا فقط ایک بلند مقام ہی نہیں بلکہ اس طبقہ کے لئے قابل تاسی ہے۔ لیکن آپ خالص مذہبی تھے اور آپ کی یہ تمام تعلیمی سرگرمیاں مذہب کے آئینہ میں ہی تھیں۔ علمائے ابرار جیسے خواجہ نصیرالدین طوسی، شیخ بہائی، سید مرتضی علم الھدی اعلی اللہ مقامھم کی تاریخ نہ جاننے والوں کے لئے بہر حال یہ مقام تعجب اور غیر مذہبی سرگرمی ہو گی لیکن جو جانتے ہیں انکے لئے قطعا نہیں۔
مولانا سید کلب صادق نقوی صاحب قبلہ مرحوم کا طرہ امتیاز تھا کہ آپ نے کبھی غیر مسلم مجمع میں نہ مسلمان کا سر جھکنے دیا اور نہ ہی غیر شیعہ مجمع میں شیعوں کا سر جھکنے دیا بلکہ ہر مقام پر آپ نے اپنے علم و حکمت سے مقابل کو لا جواب کیا۔
زندگی کے دیگر بہت سے اہم پہلو ہیں جن میں حکیم امت مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی صاحب قبلہ طاب ثراہ ممتاز تھے۔ جن لوگوں کی ساری فکر فقط ان کا کنبہ ہوتی ہے اور انکی ساری زحمتیں بھی انہیں کے لئے ہوتی ہیں تو ان کے غم میں سوگوار بھی فقط انکا کنبہ ہی ہوتا ہے اور انکو یاد بھی فقط گھر والے ہی کرتے ہیں بلکہ اکثر وہ بھی بھول ہی جاتے ہیں لیکن حکیم امت کی طرح جو بندگان خدا رنگ و نسل، مذہب و ملت سے اوپر اٹھ کر خلق خدا کی خدمت کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں تو ان کے غم میں نہ فقط سب شریک ہوتے ہیں بلکہ سوگوار ہوتے ہیں اور انکو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔
ایسا کہاں سے لاوں کہ تجھ سا کہیں جسے۔