۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مردان آسمانی نشست میں، جہاد کی داستان

حوزہ/شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر، آستان قدس رضوی میں غیرملکی زائرین کے ادارے کی جانب سے، "مردان آسمانی" عنوان کے تحت اور استقامتی محاذ اور ایٹمی شعبے کے شہداء کے اہل خانہ کی شرکت سے ایک نشست کا اہتمام کیا گيا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر، آستان قدس رضوی میں غیرملکی زائرین کے ادارے کی جانب سے، " مردان آسمانی" عنوان کے تحت اور استقامتی محاذ اور ایٹمی شعبے کے شہداء کے اہل خانہ کی شرکت سے ایک نشست کا اہتمام کیا گيا۔

مردان آسمانی نشست کا عنوان، " شہداء کا طرز زندگي " تھا اور نشست میں استقامتی محاذ اور ایٹمی شعبے کے شہداء کے  اہل خانہ بھی شریک تھے۔ امام رضا علیہ السلام کے روضے کے " دار المرحمہ " رواق میں منعقد ہونے والی اس نشست میں شہید علی محمدی کی اہلیہ ، منصورہ کرمی ، شہید شہریاری کی اہلیہ بہجت قاسمی ،  فاطمیون بریگيد کے کمانڈر ، شہید جنرل ابو حامد کی اہلیہ ام البنین توسلی، فاطمیون بریگيڈ کے مدافع حرم شہید حمید حسین زادہ کی ہمشیرہ، پری سیما حسین زادہ، لبنانی یونیورسٹیوں میں حزب اللہ کے ثقافتی اداروں کی ذمہ دار فاطمہ حمدان اور پریس ٹی وی کی اینکر مرضیہ ہاشمی نے شرکت کی ۔ 

فاطمیون بریگیڈ کے کمانڈر شہید توسلی عرف ابو حامد کی اہلیہ ام البنین حسینی نے اس نشست میں، جسے افق ٹی وی چینل نے نشر کیا ، " گھر میں شہداء کے طرز زندگي اور رہن سہن" کے موضوع پر اظہار خيال کیا اور کہا کہ شہداء بھی عام لوگوں کی طرح معمول کی زندگي گزارتے تھے اور اپنے اہل خانہ سے محبت کرتے تھے لیکن اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے انہوں نے قربانی پیش کی اور جد و جہد کے دواران اپنی جان قربان کردی ۔ 

انہوں نے کہا کہ جو چیز شہداء کو شام کھینچ کر لے گئي وہ مقدس حرم کی حفاظت تھی۔ ہم مسلمان ہمیشہ یہ آرزو کرتے ہیں کہ کاش! امام حسین علیہ السلام کے دور میں ہوتے اور ان کے ساتھ، یزيد اور یزیدیوں کے خلاف جنگ کرتے ۔ شہداء نے یہ حقیقت سمجھ لی تھی کہ شام، کربلا ہے ۔ اسی لئے وہ داعش کے خلاف جنگ میں گئے اور تاریخ رقم کر دی ۔ 

ام البنین حسینی نے شہید ابو حامد کی شخصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بے حد کم سخن تھے اور جنگ کے بارے میں ہمیں زیادہ کچھ نہيں بتاتے تھے لیکن جو تھوڑی بہت بات کرتے تھے اسی دوران یہ بتاتے تھے کہ یہ محاذ ختم ہونے والا نہيں ہے اور اقوام عالم کے درمیان، استقامت کا جذبہ پھل پھول اور پھیل رہا ہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ شہید توسلی 28 فروری سن 2015 میں شام میں جولان کی پہاڑیوں کے قریب درعا کے مضافات میں واقع بے حد اہم اور اسٹریٹجک ٹیلے تل قرین کو آزاد کرانے کے لئے النصرہ فرنٹ کے خلاف جنگ میں شہید ہو گئے ۔

اخلاص اور صبر، شہید حسین زادہ کی اہم خصوصیت 
فاطمیون بریگيڈ کے مدافع حرم شہید حمید حسین زادہ کی بہن، پری سیما حسین زادہ نے بھی اس نشست میں کہا کہ  شہید حسین زادہ 23 سال  کی عمر میں شام گئے تھے اور 27  سال کی عمر میں شہادت کے ‏عظیم درجے پر فائز ہوئے ۔ 

انہوں نے بتایا کہ حسین زادہ،  اول وقت نمازادا کرنے، وقار اور تواضع میں اپنے تمام دوستوں اور احباب کے درمیان معروف تھے اور شام کے ہر سفر کے بعد ان کی رفتار و کردار اور چہرے میں نمایاں تبدیلی نظر آتی ۔ مجموعی طور، خلوص، صبر اور والدین کا احترام، اس شہید کی اہم خصوصیات تھیں ۔ 

پری سیما حسین زادہ نے بتایا کہ دنیا سے منہ موڑنا بے حد سخت ہے لیکن شہید حسین زادہ نے جوانی میں، جہاد کا راستہ اختیار کیا اور جیسا کہ بچپن سے شہادت کی آروز رکھتے تھے، شہادت کے درجے تک پہنچ بھی گئے ۔ 

انہوں نے کہا کہ وہ 23 نومبر سن 2017 میں  عراق و شام کی سرحد سے 10 کیلومیٹر  کی دوری پر واقع، بوکمال کے آپریشنل زون میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ 

شہید  حسین زادہ کی ہمشیرہ نے، جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بارے میں بھی کہا کہ اس عظیم جنرل کی شہادت کے بعد ایران کی پوری قوم کو یہ محسوس ہوا گویا وہ یتیم ہو گئی ہے۔ شہادت، جنرل قاسم سلیمانی کی دیرینہ آرزو تھی اور وہ برسوں تک جد و جہد اور قربانی کے بعد اپنی اس آرزو تک پہنچ گئے۔ 
 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .