۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
تمدن

حوزہ/ہمارے دور میں مشرقی عورت کی تین قسمیں ہیں ایک وہ جو روایات کہنہ کا شکار ہے اور ان روایات کو مذہب سمجھ کر انہیں ناقابل تغیر سمجھتی ہے عورتوں کی دوسری قسم وہ ہے جو مغرب کی نقالی کو اپنی نجات اور آزادی کا ذریعہ سمجھتی ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی| طلوع اسلام سے قبل مختلف ادیان میں عورت کے بارے میں دل دہلانے والے شرمناک اور افسوناک عقائد و افکار تھے۔مکتبِ جاہلیت کے پروردہ انسان نما درندے نے جنسیت کی بناءپر عورت کے مقام کو نیچے گرادیاتھا۔بیٹی کی پیدائش پر باپ کا چہرہ سرخ ہوجاتا تھا۔سنگ دل باپ شرم و عار محسوس کرکے بے رحمانہ انداز میں اپنی معصوم کلی کو زندہ درگور کرتاتھا۔ قرآن پاک اس دردناک واقعہ کی تصویر کشی کرتا ہے ۔”اور جب خود ان میں سے کسی کو بیٹی کی بشارت دی جاتی تھی تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا تھا اور خون کے گھونٹ پینے لگتا تھا گویا بہت بری خبر سنائی گئی ہے “(سورہ نحل آیت نمبر 58-59)۔اسی واقعہ کے تناظر میں کلام پاک ان ظالم اور جابر افراد کے احساسات واقدامات کی مذمت کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں ارشادفرماتا ہے”جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ انہیں کس خطاءمیں مارا گیا“(سورہ التکویرآیت نمبر 8-9)

جہالت کے گھٹا ٹوپ دور میں جب صدر اسلام کا نور چمکا تو آپ نے عورت کو عزت،وقار، رتبہ اورمقام و منزلت بخشا۔مساوات،برادری اور برابری کا نظریہ پیش کیا ۔جنسیت حسب و نسب رنگ اور نسل کو مرد و عورت کے درمیان برتری و بلندی کا میعار قرار نہیں دیا بلکہ واضع الفاظ میں بیان فرمایا کہ”اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ صاحب تقویٰ ہے“( سورہ الحجرات آیت 13 )

کلام پاک کے رو سے مرد اور عورت از لحاظ جنسیت ایک دوسرے کے مساوی ہے۔کلی طور پر اگر دیکھا جائے تو مرد اور عورت ہونے کے لحاظ سے دونوں کے مقام و منزلت میں کوئی فرق نہیں ۔دونوں جنس ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہے ۔ایسے انسانی معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جو صرف مردوں یا صرف خواتین پر شامل ہو ۔ سورہ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے کہ ”تمہاری بیویاں تمہاری لباس ہیں اور تم ان کا لباس “۔ قرآن پاک میں عورت کے بارے میں بہت سے آیات نازل ہوئے ہیں جن کے ذریعے عورت کی فضیلت مقام و مرتبت کا ادراک کیا جاسکتا ہے اور یہ آیات قرآنی مرد و عورت کے مابین فرق کے نظریہ کو خارج کردیتے ہیں۔

سورہ مبارکہ نحل آیت نمبر 97 میں اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبان ایمان ہو ہم اس سے پاکیزہ حیات عطاءکریں گے“

اس آیہ کریمہ میں مرد و عورت کو از لحاظ جنسیت مساوی حیثیت دے کر واضع کردیا گیا کہ جنسی اعتبار سے مرد اور عورت کو ایک دوسرے پر فوقیت نہیں اگر ایک دوسرے پر فوقیت ہے تو وہ صرف ایمان ،اخلاق ،تقویٰ اور پرہیز گاری کی بنا پر ہے ۔یعنی تقویٰ و پرہیزگاری کو محبوبیت کا بنیادی عنصر قرار دیا گیا ہے۔

ایک دوسری آیت میں خداوند عالم کا ارشاد ہے:”اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو “(سورہ حجرات آیت نمبر 13 )

اسی طرح سورہ مبارکہ روم آیت نمبر 31 میں زن و مرد کے مساوی ہونے کی دلیل پیش کی گئی ہے؛۔ ”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہارے ہی جنس سے حسین بیویاں پیدا کیں تاکہ تمہیں سکون حاصل ہو اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لیے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں“

سورہ بقرہ میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے اسی طرح سورہ احقاف آیت نمبر 15 میں دوران حمل ماں کی زحمت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے والدین (ماں باپ) کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔

گویا قرآن کریم کی روشنی میں مرد اور عورت دونوں کا وجود مساوی کلام پاک کے علاوہ رسول اکرم و ائمہ اطہار ؑکی نگاہ میں بھی مرد و عورت جنسیت حسب و نسب اور رنگ و نسل کے اعتبار سے مساوی ہے۔

پیغمبر گرامی اسلام(ص) کا ارشاد ہے کہ”لڑکیاں تمہاری بہترین اولاد ہیں “(مکارم الاخلاق ص 219)۔روایات میں ہے کہ جب رسول گرامی اسلام کو بیٹی کے پیدائس کی بشات دی گئی ۔تواصحاب کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔اصحاب کے چہرے سے کراہیت کی ظاہر ہونے لگی ۔تو رسول اسلام نے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تمہیں کیا ہوگیا۔لڑکی ایک پھول ہے جسے ہم سونگھتے ہیں اور اس کے رزق کی ذمہ داری خدا کے اوپر ہے“(بحار الانوار جلد 20)

اس طرح سے قرآن و احادیث مرد و عورت کے مساوی ہونے کی وکالت کرتا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ عورت انسانی معاشرہ کا ایک لازمی او قابل احترام کردار ہے۔انسانی معاشرہ کا نصف حصہ مثل ایک گاڑی کے دو پہئے ہیں۔نسل انسانی کا ذریعہ ہے مرد کی ترقی ،کامیابی اور کامرانی میں اس صنف نازک کا ایک اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے۔علامہ اقبال ؒ بڑی دلکش انداز میں اہمیت عورت کی تصویر کشی کرکے فرماتے ہیں :

وجود زن سے ہیں تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

طول تاریخ میں مثالی خواتین نے وقتاً فوقتاً ایک کردار نبھایا۔وحدانیت،رسالت،اور امامت کے پرچار میں شانہ بشانہ مردوں کا ساتھ نبھایا۔ عظیم الشان خواتین نے انبیاءو اولیاءاﷲکے مقدس مشن کی آبیاری میں اپنا آرام حرام کردیا۔مریم ؑ ،آسیہ ،ہاجرہ ؑ ،بی بی آمنہ، فاطمہ بنت اسدؑ ،حضرت خدیجہ ،دیگر امہات المومنین ،خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا ؑ اور شیر دل خاتون جناب زینب ؑ جیسی مثالی، نڈر اور باہمت خواتین نے دین مبین اسلام کے تئیں بیش بہا خدمات انجام دے کر اسلامی و انسانی معاشرے کا لازمی کردار ہونے کا ثبوت پیش کیا۔

عصر حاضرمیں سید علی خامنہ ای شہید قاسم سلیمانی شہید محسن حججی ،شیخ زکزکی ،شیخ باقر نمر النمر ،سید حسن نصر اللہ،خالد مشعل جیسے عظیم المرتبت مجاہدین اور شہدائے اسلام کے خواتین نے جس انداز سے اپنے مرد مجاہدوں کا حوصلہ بڑھایا جہاد برائے اسلام میں ان کا ساتھ نبھا یا۔اور اسلامی معاشرے میں خواتین کی آزادی کا جیتا جاگتا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ صدیوں کے صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مغربی اور یورپی نظام کے پروردہ خواتین کو”نام نہاد آزادی نسواں “ کے نظریے کے باوجود بھی اس طرح کی آزادی نصیب نہیں ہوگی۔

امام خمینی (رح) فرمارہے ہیں کہ ”مرد در دامن زن بہ معراج می رود“(صحیفہ امام) یعنی ایک مرد کے کمال تک پہنچنے میں خاتون کا اہم رول ہوتا ہے اور زن باہوش کے بلند قامت حوصلوں کے سایے تلے ایک مرد قرب خدا کا معراج حاصل کرسکتا ہے۔قول خمینی ؒ کی تازہ مثال شہید قاسم سلیمانی ،شہید حججی جیسے شہداءہیں جن کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت میں اپنی بیویوں ،بیٹیوں اور بہنوں کا حوصلہ اور ہمت پوشیدہ ہے۔علامہ اقبال (رح) نے عورت کی اہمیت دلکش الفاظ میں بیان کیا ہے:

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

افسوس کا مقام ہے کہ اگرچہ عورت شعور و ادراک کے اعتبار سے ناقص نہیں تو پھر معاشرے میں عورت کے مقام کو کیوں کر اور کس طرح گرادیا گیا۔عورت پس سے پست ترین اور کمزور مخلوق کیوں سمجھی گی۔کمتری کا برتاو کرکے عورت کو صرف گھر کی نوکرانی کے روپ میں پیش کیا گیا۔نرم اورنازک مزاج عورت پرآئے روزدست درازی،محض مرد کے جنسی تسکین کا ذریعہ اور کھلونا کیوں سمجھا جارہا ہے۔ان سختیوں اور اذیتوں نے صنف نازک کو احساس کمتری کا شکار بنادیا۔

تاریخ کے جھروکوں سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کی پستی اور گراوٹ کا ذمہ دار مغرب کا استعماری نظام ہے جس نے نام نہاد آزادی نسواں کے نام پر عورت کے ساتھ استحصال کیا ۔عورت کو نوکرانی کے روپ میں پیش کرکے اس کا مقام حد درجہ گرادیا ۔آزادی زن کے پرچم تلے عورت کی عصمت اور شرم و حیا کا سودا کیا۔جنسی آزادی کے نام پر خواتین کو ہوس کے غلیظ و بدترین قیدخانے کی جانب دھکیل دیا۔آج کے انسانی معاشرے میں اگر کسی جگہ عورت کے ساتھ دست درازی ،عصمت دری،چھیڑ خوانی او ر قتل و غارتگری کے واقعات رونما ہورہے ہیں یہ مغرب کا ہی دین ہے ۔اسلامی نظام کے ہوتے ہوئے کسی کا مجال نہیں بنتا تھاکہ کہ عورت کی جانب میلی نظروں سے دیکھیں ۔استعماری نظام کے ہوتے ہوئے ان نظروں کی ہمت بڑھ گئی اور بے چاری عورت ہوس و درندگی کی شکار بن گئی یہ مخلوق مظلوم تر بن گئی ۔بقول ڈاکٹر شریعتی ”مغرب کے استعماری نظام کا سب سے گھناونا حربہ فرائڈزم کی جنسی آزادی کا تصور تھا“۔

ڈاکٹر شریعتی کہتے ہیں کہ” ہمارے دور میں مشرقی عورت کی تین قسمیں ہیں ایک وہ جو روایات کہنہ کا شکار ہے اور ان روایات کو مذہب سمجھ کر انہیں ناقابل تغیر سمجھتی ہے عورتوں کی دوسری قسم وہ ہے جو مغرب کی نقالی کو اپنی نجات اور آزادی کا ذریعہ سمجھتی ہے عورتوں کی تیسری قسم وہ ہے جو آگاہ اور باشعور ہے جو اپنے لیے خود انتخاب کرنا چاہتی ہے۔یہ وہ عورت ہے جو نہ چہرہ موروثی کو قبول کرتی ہے اور نہ مغرب سے درآمد شدہ مکروہ اور انسانیت دشمن نظریات میں گرفتار ہونا چاہتی ہے“۔

اگر اجتماعی طور پر دیکھا جائے کہ ان تینوں قسموں میں دوسری قسم کی عورت سب سے زیادہ ہوس کا شکاربن رہی ہے اس قسم کی عورت نے مغربی نظام کے ساتھ اپنے جسم کا سودا کیا ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ سودا کرنے والی عورت کاجنسی ہوس کا شکار ہونا یقینی ہے ۔افسوس صد افسوس اس قسم کے طبقے میں مغرب نقال مسلم خواتین کی ایک تعداد شیطانی خواتین کے کندھوں سے کندھا ملا کر اپنی زندگی برباد اور معاشرہ آلودہ کررہے ہیں ۔ہماری وادی کشمیر جسے ایک وقت ”پیرہ واری“ کے نام سے جانا جاتا تھا میں بھی مغرب نقال خواتین کی ایک بڑی تعداد صاف وپاک معاشرے کو آلودہ اوراسلامی تہذیب و تمدن کو تباہ و برباد کررہے ہیں ۔بے جا نہ ہوگا کہ اس وادی گلپوش میں آئے روز عصمت دری اور چھیڑ خوانی کے جو واقعات رونما ہورہے ہیں اس کی ذمہ دار مغرب نقال خواتین ہیں ۔بڑی حد تک مغرب پرست والدین بھی ہے جو اپنے اولاد کی تربیت شیطان کو سونپ رہے ہیں ۔

ڈاکٹر شریعتی مزید کہتے ہیں کہ مغرب سے درآمد شدہ نظریات انسانیت اور حرمت کے دشمن ہیں یہ آزادی کے نام پر عورت کو جنسی بے راہ روی کے دام میں گرفتار کرکے اپنے مذموم مفادات اور پست مقاصد کو حاصل کرتے ہیں۔(مسلمان عورت اور عہد حاضر کے تقاضے)

اگرچہ آزادی ہر فرد کا بنیادی اور فطری حق ہے لیکن انقلاب فرانس کے بعد اس اصطلاح کو ہائی جیک کرکے مغربی اور یورپی نظام نے آزادی زن کے نام پر انسانی معاشرہ کو آلودہ کیا۔ اس غلیظ ترین نظام نے بیہودہ اور جاہلانہ قوانین تیار کرکے آزادی کے نام پر عورت زاد کا استحصال کروایا۔ اس نظام نے عورت کا مقام مفلوج زدہ کردیا۔ڈریس کوڑ اور دیگر ذرائع سے عورت کی عصمت کو سرعام نیلام کردیا ۔حماقت کی بات ہے کہ آزادی زن کے نام پر مغرب کے اس بیہودہ تصور نے بڑی تیزی کے ساتھاسلامی تمدن کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔سادہ لوح مسلمان نے تعلیمات قرآنی اور اسوہ معصومین کو بالائے طاق رکھ کر مغرب کے فرسودہ نظام کاجوش و جذبہ کے ساتھ استقبال کیا اوراپنے بدنصیب کندھوں پر شریعت کا جنازہ نکال کر اپنی پستی ،ذلالت و رسوائی کا اعلان کردیا۔

مغرب نے سب سے پہلے حجاب کو ہدف تنقید کا نشانہ بنایا گیا مسلمانوں خواتین کے ایک طبقے نے بے شرم معاشرہ کی نقالی کرتے ہوئے اپنے سروں سے حجاب اتار دیا اپنے تنوں کو تنگ لباس ے عریاں کردیا یہ بے حجابی ان کی تذلیل و تحقیر کا بنیادی سبب بنا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نام نہاد آزادی زن کے ڈھنڈورے پر فرماتے ہیں :کہ” مغرب والوں کا ہم پر اعتراض ہے کہ آپ کی عورتیں حجاب میں کیوں رہتی ہے کیوں حجاب کو لازمی کردیا گیا ہے ؟جبکہ ان لوگوں نے بے حجابی و بے پردگی کو لازمی کر رکھا ہے۔مغربی دنیا میں عورت کو رسوا کرکے رکھ دیا گیا ہے اس کی تحقیر و توہین کی گئی ہے انہوں نے عورت کو لذت و شہوت کے سامان کے طور پر استعمال کیا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ میک اپ کے بغیر عورت کی کوئی ارزش و قیمت نہیں اسے چاہے کہ سجے سنورے تاکہ مردوں کو اچھے لگے۔یہ عورت کی سب سے بڑی توہین ہے“۔

قرآن پاک بھی بے حجابی،بیہودگی اور عریانیت کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمارہا ہے: ”اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے بناو سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نماز کی ادائیگی کرو زکواۃ دو اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو“۔( احزاب آیت 33 )

الغرض مغربی نظام نے آزادی نسواں کے نام پرجس عورت کو کھلونے کے طور پر پیش کیا ہے۔ اسلام نے اسی مخلوق کو حجاب کے سایے میں عظیم رتبہ اور مقام دیاہے۔عورت اس وقت جو احساس کمتری کی شکار ہوگئی ہیں ۔ظلم و تشدد کا نشانہ بن گئی ہے اس میں زیادہ تر عورت کا ہی ہاتھ ہے ساتھ ساتھ والدین اور چھوٹے بڑے مسلم حکمران بھی ذمہ دار ہے ۔

دورحاضر کی خواتین اگر خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا ؑ اور ثانی الزہراؑ کے سیرت پر عمل پیرا ہوجائیں تو ان کے تمام مشکلات کا حل بغیر کسی کے جھنڈے تلے حل ہوجائیں گے ۔ خواتین کا جو طبقہ رسول اسلام کے میلاد کو یوم رہبر ،مولائے کائنات کے یوم ولادت کو یوم پدر، حضرت زہرا ؑ کے میلاد باسعاد کو یوم مادر اور جناب ذینب ؑ کے یوم ولادت کو یوم خواہر کے طور پرمناتے ہیں اور ان کے سیرت پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔وہ طبقہ دین و دنیا میں سرخرو ہے۔
مادران را اسوهٔ کامل بتول(اقبال)

تحریر و ترتیب : مجتبیٰ ابن شجاعی 
mujtabaalia5@gmail.com

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .