تحریر: مولانا سید غلام رضا رضوی مشہدی
حوزہ نیوز ایجنسی | حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی شان اور عظمت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے تمام امام زادوں میں آپ کا رتبہ حضرت زینب(س) اور جناب عباس علمدار(ع) کے بعد سب سے بلند ہے، آپ خداوند متعال اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی نظر میں اعلی مقام رکھتی ہیں اسی لئے تین اماموں کے توجہ کا مرکز قرار پائیں، آپ کی زیارت پرحضرت امام صادق، حضرت امام رضا اورحضرت امام محمد تقی علیہم السلام نے زور دیا ہے۔ تینوں اماموں نے بیان کیا ہے کہ آپ کی زیارت آپ کے زائر کو جنت میں لے جائے گی۔ البتہ وہ زیارت جو معرفت کے ساتھ ہو۔ مثال کے طور پر امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "مَن زارَها عارِفاً بِحَقِّها فَلَهُ الجَنَّةُ۔(۱)
اس حدیث میں حضرت معصومہ (س) کے حق کی معرفت سے کیا مراد ہے؟ آپ نہ امام ہیں نہ رسول اور نہ ہی کسی دوسرے منصب کی حامل ہیں جس کی وجہ سے یہ کہا جائے کہ دیگر ائمہ کی طرح آپ کا بھی امت کی گردن ایک خاص حق ہے تو پھر یہ کونسا حق ہے جو شیعوں کی گردن پر ہے؟
اگر کوئی یہ کہے کہ: بی بی کا کوئی خاص حق نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ تمام مومنین پردوسرے امام زادوں کی طرح آپ کا احترام لازم ہے۔
تو میں کہوں گا کہ امام رضا علیہ السلام نے لفظ حق کو "ہا" کے ساتھ اضافہ کیا ہے جو تخصیص کا معنی دے رہا ہے جس سے پتہ چلتا ہے حضرت معصومہ (س) کا ایک خاص حق ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کی عظمت عام لوگوں سے بلند اور ائمہ سے کمتر ہے۔
جناب آقای خسرو شاہی کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے آیۃ اللہ العظمی محمد تقی بہجت (نور اللہ مرقدہ)سے سوال کیا " مَنْ زارَها عارفاً بِحَقّها وَجبت لَهُ الجَنَّةُ"(۲) کا کیا مطلب ہے۔آپ نےایک جملے میں جواب دیا "عارفا بحقھا " کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا مرتبہ معصومین علیہم السلام سے کمتر اور عام لوگوں سے بالاتر جانیں ۔"(۳)
آپ کے حرم میں تمام اولعزم پیغمبر اور چودہ معصومین علیہم السلام کو سلام کیا جاتا ہے جس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے امام حسن عسکری علیہ السلام تک مخاطب کی ضمیر استعمال ہوئی ہے۔
السَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا خَيْرَ خَلْقِ اللَّهِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا صَفِيَّ اللَّهِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَصِيَّ رَسُولِ اللَّهِ السَّلامُ عَلَيْكِ يَا فَاطِمَةُ سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ السَّلامُ عَلَيْكُمَا يَا سِبْطَيْ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ وَ سَيِّدَيْ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ۔
جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان تمام ہستیوں کا حضور لمحہ لمحہ آپ کے حرم میں رہتا ہے، شاید اسی لئے آپ کے حرم کو معصومین علیہم السلام کا حرم اور آشیانہ آل محمدعلیہم السلام کہا جاتا ہے۔
اس بات کی تائید حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس حدیث سے ہوتی ہے" إنَّ لَنا حَرَما و هُوَ بَلَدَةُ قُمَّ و سَتُدفَنُ فيهَا امْرَأةٌ مِن أولادِي تُسَمّى فاطِمَةَ" (۴) ہم اہل بیت علیہم السلام کا حرم قم ہے عنقریب ہماری ایک خاتون وہاں دفن ہوگی جس کا نام فاطمہ(س) ہوگا۔
اللہ ہم سب کو حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی معرفت کے ساتھ زیارت کرنے توفیق عطا فرمائے۔
حوالہ؛
(۱)بحار الأنوار، ج 102، ص 266
(۲)بحار الانوار، ج 48، ص 317 وج 102، ص 266.
(۳) برگي از دفتر آفتاب، ص 140.
(۴)بحار الأنوار ، ج 60 ، ص 216