۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
سید امین حیدر حسینی

حوزہ/اسلام نے ايک کامياب زندگي گزارنے کے لئے اصول و ضوابط متعين کئے ہيں جن پر انسان عمل پيرا ہو کر کاميابي اور کامراني سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔

حوزه نیوز ایجنسی |

تحرير:سيد امين حيدر حسيني،استاد جامعہ ايمانيہ،بنارس

اسلام نے ايک کامياب زندگي گزارنے کے لئے اصول و ضوابط متعين کئے ہيں جن پر انسان عمل پيرا ہو کر کاميابي اور کامراني سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔دين اسلام کے پاس ايک ايسا مکمل نظام حيات ہے جو انساني وجود کے مادي اور روحاني،انفرادي اور اجتماعي ،دنيوي اور اخروي تمام پہلؤوں پر محيط ہے،اگر انسان کے اندر عزم مصمم اور خود اعتمادي ہو تو آسمان کي رفعتوں کو چھونا بے حد آسان ہوجاتا ہے۔ايک کامياب انسان بننے کے لئے مذہب اسلام کے قوانين و ضوابط کو حرزجاں بنانا پڑے گا ان پر صدق دل سے عمل پيرا ہونا پڑے گاتاکہ کاميابي يقيني ہو جائے ،اسلام کا معاشرتي نظام ہميںا ٹھنے بيٹھنے،ملنے جلنے،رہنے سہنے،کھانے پينے وغيرہ کے آداب تعليم کرتا ہے،پُرسکون زندگي گزارنے کا سليقہ عطا کرتا ہے،اجتماع ميں رہ کر کامياب زندگي بسر کرنے کا ہنر سکھاتا ہے،دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور محبت کي زندگي جينے کا طريقہ بتاتاہے؟ مگر حيف در حيف آج کا مسلم معاشرہ ايسي مفيد بخش تعليم سے يکسر غافل نظر آتا ہے۔با ادب بننے کے بجائے بے ادب نظر آرہا ہے،لوگوں کو سکون فراہم کرنے کے بجا ئے پريشان کر رہا ہے،حوصلہ افزائي کے بجائے ٹانگ کھينچتا ہوا نظر آرہا ہے،کاميابي ميں ساتھ دينے کے بجائے ناکامي کي سازشيں رچ رہا ہے؟ لہذا دانشمندي کا يہي تقاضا ہے کہ ہم اپنے روشن مستقبل کے لئے اسلامي تعليمات کو اپنا شعار بنا ليںاور بغير کسي رکاوٹ کے اخلاص و خلوص کے ساتھ اپنے عمل کا کارواں آگے بڑھاتے رہيں۔   
           

لوگوں سے ملنے جلنے کا طريقہ :فردي اوراجتماعي زندگي ميں بہت فرق پايا جاتا ہے؟دونوں کے اصول جدا ہيں؟فردي زندگي بسر کرنا بے حد آسان ہوتاہے ليکن اجتماعي زندگي گزارنا بہت سخت مرحلہ ہوتاہے؟شريعت نے زندگي کے ہر موڑ پر ہماري رہنمائي کي ہے تاکہ دنياہي ميں جنت جيسي پُرسکون زندگي فراہم ہو سکے؟نہج البلاغہ ميں مولائے کائنات ارشاد فرماتے ہے :خالطُواالناس مخالطة ان متم معھا بکوا عليکم،و ان عشتم حنوا اليکم(حکمت10)،ترجمہ:''لوگوں کے ساتھ ايسا ميل جول رکھو کہ مر جاؤ تو لوگ گريہ کريںاور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق رہيں''؟ہر انسان اس بات کا خواہشمند ہوتا ہے کہ لوگ اسے زندگي ميں اور موت کے بعدنيک نامي سے ياد کريں؟اس منزل تک پہنچنے کے لئے اسلامي طريقہ، کار کو اپنانا پڑے گاجو نہ صرف عزت و وقار سے سرفراز کرے گا بلکہ محبوب بارگاہ خداوندي بنا دے گا،امام  مذکورہ حکمت کے ذريعہ اجتماعي زندگي کے اہم ترين اصول کي جانب رہنمائي فرما رہے ہيں کہ جب انسان کا ہر عمل اسلامي تعليمات کے سانچے ميں ڈھلا ہوگا تو لوگ اس کي شمع حيات گل ہونے کے بعد دل سے غمگين ہوں گے اور افسوس کا اظہار کريں گے ؟اسي طرح اس کي حيات ميں اس سے ملنے کے مشتاق رہيں گے اور اس کا کھلے دل سے استقبال کريں گے۔
                   

شريف اور پست انسان کي شناخت:اجتماعي زندگي ميں خوب اور بد کي پہچان کا مسئلہ بے حد اہم ہوتا ہے جس کي اہميت اور افاديت سے ارباب فکر و نظر بخوبي واقف ہيں،جب تک ہم ''انسان شناس'' نہيں بنيں گے زندگي کے ہر موڑ پرنقصان اور خطرے کا امکان رہے گا؟ايک شريف ا لنفس انسان اپني عزت کے ساتھ دوسروں کي بھي عزت پر آنچ نہيں آنے ديتا؟س کي سعي و کوشش رہتي ہے کہ قوم کے کسي بھي فرد کي شخصيت پايمال نہ ہونے پائے اور معاشرے ميں امن و امان برقرار رہے،جبکہ ايک پست فطرت انسان اپني مذموم حرکتوں سے قوم و ملت ميں انتشار پيدا کر ديتاہے ا ور ايسا نقصان پہنچاتا ہے جس کي تلافي بڑي مشکل سے ہوتي ہے؟ نہج البلاغہ ميں شريف اور پست انسان کي ايک اہم علامت کي طرف امير المومنين  اشارہ فرما ر ہے ہيں:احذروا صولة الکريم اذا جاع ،و اللئيم اذا شبع(حکمت49)،ترجمہ:'' شريف انسان کے حملہ سے بچو جب وہ بھوکا ہو،اور کمينے کے حملہ سے بچو جب اس کا پيٹ بھرا ہو ''،مذکورہ حکمت ميں کتنے ظريف نکتے کي طرف اشارہ ہے ،ايک شريف انسان کے اندر ظرفيت پائي جاتي ہے وہ کم ظرف نہيں ہو تاچاہے مالدار رہے يا محتاج، دوسروں کے ساتھ نيکياں کرنے ميں پيش پيش رہتا ہے ؟محتاجوں کے ساتھ انکساري سے کام ليتا ہے اور مالداروں کے ساتھ محتاجگي کے وقت خودداري سے پيش آتاہے،شريف اور کريم انسان اس وقت برہمي کا اظہار کرتا ہے جب اس کا حق پايمال کيا جاتا ہے اور اس کي تحقير کي جاتي ہے؟ليکن جب ايک پست فطرت انسان کا پيٹ بھرا ہوا ہوتا ہے تو اس کے اندر انانيت پيدا ہوجاتي ہے ؟وہ بغض و حسد اور مال و دولت کے نشے ميں چور ہوکر لوگوں سے گستاخي کرنے لگتا ہے،ان کي حقارت کرتا ہے،    
                   

کامياب زندگي کے اصول:ايک کامياب اور با عزت زندگي گزارنے کاايک طريقہ يہ ہے کہ ہم دنيا ميں ايسے اشخاص کو تلاش کريں جن کي پوري زندگي کاميابي اور عزت و وقار کے ساتھ گزري ہو تاکہ ان کے نقش قدم پر چل کر ايک کامياب انسان بن سکيں؟اس سلسلے ميں ا ہل بيت اطہار سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟جن کي مقدس زندگي ہمارے لئے بہترين نمونہ عمل ہے؟مولا مشکل کشا حضرت علي کا ارشاد گرامي ہے: بکثرة الصمت تکون الھيبة،و بالنصفة يکثر المواصلون ،وبالافضال تعظم الاقدار،و بالتواضع تتم النعمة،و باحتمال المؤن يجب السؤدد ،و بالسيرة العادلة يقھرالمناوي،و بالحلم عن السفيہ تکثرالانصارعليہ (حکمت224)،ترجمہ:''زيادہ خاموشي ہيبت کا سبب بنتي ہے اور انصاف سے دوستوں ميں اضافہ ہوتا ہے،فضل و کرم سے قدرت و منزلت بلند ہوتي ہے اور تواضع سے نعمت مکمل ہوتي ہے،دوسروں کا بوجھ اٹھانے سے سرداري حاصل ہوتي ہے اور انصاف پسند کردار سے دشمن پر غلبہ حاصل کيا جاتا ہے?احمق کے مقابلہ ميں بردباري کے مظاہرہ سے انصار و اعوان ميں اضافہ ہوتا ہے''?ذکر شدہ حکمت ميں سات عظيم نکات زندگي کي طرف اشارہ کيا گيا ہے لہذا ارباب ايمان کو ان کي طرف متوجہ رہنا چاہئے تاکہ زندگي کے کسي بھي مقام پر کوئي خطرہ لاحق نہ ہو اور زندگي بے حد آسان گزرے۔
           

احسان کا بدلہ احسان:احسان کا بدلہ احسان ايک ايسي کہاوت ہے جس کي تائيد شريعت بھي کرتي ہے اور عقل بھي،اس دنيائے فاني ميں احسان جتانے والے تو بہت مليں گے ليکن'' نيکي کر در يا ميں ڈال'' والي کہاوت پر کھرے اترنے والے بہت کم نظر آئيں گے۔

امير المومنين حضرت علي نہج البلاغہ ميں ارشاد فرماتے ہيں:اذا حييت بتحية فحي باحسن منھا،و اذا اسديت اليک يد فکافئھا بما يربي عليھا،والفضل مع ذالک للبادي (حکمت62)''جب تمہيں کوئي تحفہ ديا جائے تو اس سے بہتر واپس کرواور جب کوئي نعمت دي جائے تو اس سے بڑھا کر اس کا بدلہ دو ليکن اس کے بعد بھي فضيلت اس کي رہے گي جو پہلے کار خير انجام دے''،امام نے اس حکمت آميز کلام ميں ايک اہم قرآني اصول کي طرف اشارہ کيا ہے جيسا کہ قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے:''اور جب تم لوگوں کو کوئي تحفہ (سلام) پيش کيا جائے تو اس سے بہتر يا کم سے کم ويسا ہي واپس کروکہ بيشک اللہ ہر شئي کا حساب کرنے ولا ہے(سورہ نسا86)''اسلام يہ تعليم ديتاہے کہ اگر تمہارے ساتھ کسي نے احسان کيا ہے تو تم اس سے بہتر انداز ميں اس کے ساتھ نيکي کرو اور اس کي برائي سے بچو، ليکن بہرحال فضيلت اس کي زيادہ ہوگي جس نے پيش قدمي کي ہے،مثال کے طور پر اگر کسي نے سلا م کيا ہے تو اس سے بہتر انداز ميں اس کو جواب سلام دو، اسي طرح اگر کسي نے تحفہ ديا ہے تو اس سے اچھا تحفہ اسے دوتاکہ محبت ميں اضافہ ہو اور رابطہ مستحکم رہے۔
             

حسب و نسب برتري کے معيار نہيں:کسي بڑے خاندان ميں پيدا ہو جانے سے انسان صاحب فضيلت اور برتر نہيں ہو جاتا،انسان کا علم و عمل ،اخلاق وکردار اور تقوي اسے صاحب فضيلت اور عزت دار بناتا ہے۔

اس ضمن ميں قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے :انّ اکرمکم عند اللہ اتقاکم(حجرات13)؛ ''بے شک تم ميں سے خدا کے نزديک زيادہ محترم وہي ہے جو زيادہ پرہيز گار ہے ''قرآن کے اعتبار سے برتري کا معيار تقوي اور پرہيزگار ي ہے قوم و قبيلہ اور خاندان نہيںحسب و نسب کے ساتھ اگر اخلاق و کردار اچھا رہا تو انسان کي شخصيت ميں چار چاند لگ جاتے ہيں،لہذا صرف حسب و نسب پر ناز کرنا ناداني کے سوا اور کچھ نہيں،مولائے متقيان ارشاد فرماتے ہيں: من ابطا بہ عملہ لم يسرع بہ نسبہ (حکمت3 2)،ترجمہ:'' جسے اس کے اعمال پيچھے ہٹا ديں اسے نسب آگے نہيں بڑھا سکتا ہے''? امام  کا يہ کلام عين حقيقت ہے جس کا مشاہدہ روزمرہ کي زند گي ميں کيا جا سکتا ہے، اچھے اور شريف خاندان ميں پيدا ہونے والا شخص اگر بدکردار ، گستاخ اور بدتميز ہو تو اس کي جتني بھي مذمت کي جائے کم ہے، آباء و اجداد کے کارنامہ اور خدمات پر فخر کر لينے سے انسان برتر اور صاحب عزت نہيں ہو جاتا ،بہ الفاظ ديگرجب تک انسان خود صاحب کمال اور اخلاق حسنہ سے مزين نہ ہودوسروں سے برتر اور بلند نہيں ہو سکتا، لہذا خاندان اور حسب و نسب پر فخر کرنے کے بجائے اپنا اخلاق و کردار سنوارنے کي کوشش پيہم کرني چاہئے جس سے اللہ راضي رہے گااور سماج ومعاشرہ عزت و وقار کي نگاہوں سے ديکھے گا۔
             

اجتماعي روابط کے جاذب اصول:انسان معمولاً اجتماعي طور پر زندگي بسر کرنے کا عادي ہوتا ہے تنہائي سے اسے و حشت ہوتي ہے معاشرے سے تو دور رہ کرگوشہ نشيني اختيار کر سکتا ہے ليکن فيملي اور خاندان کو کيسے ترک کر سکتا ہے جس کي اجازت شريعت نے بھي نہيں دي ہے دين اسلام نے لوگوں سے بہترين رابطہ برقرار رکھنے کے لئے جاذب اور مؤثر اصول بنائے ہيں جس کو اپناکر انسان ايک پرسکون زندگي گزار سکتا ہے نہج البلاغہ ميںمکتوب نمبر 31 ايک وصيت نامہ ہے جسے امير المومنين  حضرت علي نے اپنے فرزند بزرگوار امام حسن  کے نام تحرير فرمايا تھا?کہنے کو تو يہ وصيت نامہ امام حسن  کے نام ہے ليکن اس کے مخاطب دنيا کے تمام افراد بالکل خصوص محبان اہل بيت ہيں۔

مولا مشکل کشا  ارشاد فرماتے ہيں:يا بُنيَّ اجعل نفسک......ان يقال لک،(مکتوب 5431?56)ترجمہ:''بيٹا !ديکھو اپنے اور غير کے درميان ميزان اپنے نفس کو قرار دو،اور دوسروں کے لئے وہي پسند کروجو اپنے لئے پسند کر سکتے ہو اور اس کے لئے بھي وہ بات ناپسند کرو جو اپنے لئے پسند نہيں کرتے ہو،کسي پر ظلم نہ کرنا کہ اپنے اوپر ظلم پسند نہيں کرتے ہواور ہر ايک کے ساتھ نيکي کرنا جس طرح چاہتے ہو کہ سب تمہارے ساتھ نيک برتاؤ کريںاور جس چيز کو دوسرے سے برا سمجھتے ہو اسے اپنے لئے بھي برا ہي تصور کرنا،لوگوں کي اس بات سے راضي ہو جانا جس سے اپني بات سے لوگوں کو راضي کرنا چاہتے ہو،لا علم کوئي بات زبان سے نہ نکالنا اگرچہ تمہارا علم بہت کم ہے اور کسي کے بارے ميںوہ بات نہ کہنا جو اپنے بارے ميں پسند نہ کرتے ہو ''،يہ دنيائے انسانيت کا عظيم ترين دستور العمل ہے جس ميں عظيم ترين باپ نے عظيم ترين بيٹے کو مخاطب قرار ديا ہے تاکہ دوسرے افراد قوم و ملت اس سے استفادہ کريں ورنہ امام حسن  جيسي معصوم شخصيت کو اس کي کيا ضرورت تھي?مذکورہ وصيت نامہ اپنے دامن ميںگراں قدرمعاني و مفاہيم کو سميٹے ہوئے ہے جو تاقيامت لوگوں کے لئے مشعل راہ بنا رہے گا۔
         

نرمي سے پيش آنا:نرمي ايک ايسا وسيلہ ہے جس کے ذريعہ لوگوں کو اپنا گرويدہ بنا يا جا سکتا ہے،بيجا سختي اورسخت مزاجي سے انسان دور ہونے لگتا ہے اور باغي ہو جاتا ہے،زندگي ميں نرمي اور سختي دونوں کي ضرورت پڑتي ہے، نرمي سے انسان کے دل کو اپني طرف مائل کيا جا سکتا ہے،بدمزاج اور بد بين انسان بھي دلدادہ ہو جاتا ہے،مرسل اعظم  کي ايک اہم خصوصيت يہ تھي کہ وہ نرم دل تھے جس کا ذکر قرآن نے کچھ اس انداز ميں کيا ہے: فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولوکنت فظا غليظ القلب لا نفضوا من حولک(آل عمران159)،ترجمہ:''پيغمبر يہ اللہ کي مہرباني ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو يہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے'' انسان کي زندگي ميں نرمي اور سختي دونوں مرحلے پيش آتے ہيں دين نے دونوں کے استعمال کا طريقہ بتايا ہے موقع اور محل کا تعين انسان کي صوابديد اور شعور پر منحصر ہوتاہے۔ نہج البلاغہ ميں ارشاد ہوتا ہے: و اخلط الشدة  بضغث من اللين،وارفق ما کان الرفق ارفق،واعتزم بالشدة حين لا تغني عنک الّا الشدة (مکتوب46)،ترجمہ:''اور اپني شدت ميں تھوڑي نرمي بھي شامل کر لينا?جہاں تک نرمي مناسب ہو نرمي ہي سے کام لينااور جہاں سختي کے علاوہ کوئي چارہ ?کار نہ ہو وہاں سختي ہي کرنا''۔
           

چغلخوروں سے دوري:دين اسلام ميں چغلي کي سخت ممانعت ہے،يہ ايسا قبيح عمل ہے جس سے خاندان اور معاشرے ميں انتشار پيدا ہو جاتا ہے اور زندگي بے سکون ہو جاتي ہے، چغلخورو ں سے دين اور سماج کو وہ نقصان پہنچتا ہے جس کي تلافي بڑي مشکل سے ہوتي ہے، ليکن افسوس اس بات کا ہے کہ جسے ہم برا کہتے ہيں اسے ہي اپني بزم ميں جگہ ديتے ہيں، بجائے روک ٹوک کے اس کي حوصلہ افزائي کرتے ہيں،ہمارے مسائل اسي وقت حل ہوں گے جب ہم حل کرنے کي سعي و کوشش کريں گے،اسي اہم امر کے سلسلے ميں مولائے کائنات ارشاد فرماتے ہيں:و من اطاع الواشي ضيع الصديق (حکمت239)،ترجمہ:''اور جو چغلخور کي بات مان ليتا ہے وہ دوستوں کو بھي کھو بيٹھتا ہے''مولا ايک ايسي حقيقت کو بيان کر رہے ہيں جس کا مشاہدہ روزمرہ کي زندگي ميں کيا جا سکتا ہے ان چغل خوروں کے سبب انسان اپنے مخلص دوستوں کو ضائع کر ديتاہے احباب کنارہ کشي کرنے لگتے ہيں عزيز و اقارب مشکوک ہو جاتے ہيں?لہذاچغل خوري کے سد باب کے لئے عملي اقدام کرنا چاہئے تاکہ آ ئندہ کوئي بڑا نقصان نہ ہونے پائے۔
             

معاشرہ اور اہل و عيال  کا خيال :دين اسلام اہل و عيال کے ساتھ معاشرہ کا بھي خيال رکھنے کي تا کيد کرتا ہے صرف خانوادے کي فکر کرنا اور سماج سے بالکل کٹ جانا اسلامي تعليم کے خلاف ہے ہميں اپنے اوقات کو منظم کرنا پڑے گا تاکہ اہل و عيال اور خانوادے کے ساتھ سماج کي بھي خدمت کي جاسکے يہ چيز اسي وقت ممکن ہوگي جب ميانہ روي اور اعتدال سے کام ليا جائے گا ہم اسي وقت ترقي کي راہ پر گامزن ہو سکيں گے جب سب مل کر قوم و معاشرہ کي فلاح و بہبود کے لئے سعي و کوشش کريں نہج البلاغہ ميں ارشاد ہوتا ہے:لا تجعلنّ .....باعداء اللہ(حکمت352)،ترجمہ:''زيادہ حصہ بيوي بچوں کي فکر ميں مت رہا کروکہ اگر يہ اللہ کے دوست ہيںتو اللہ انہيں برباد نہيں ہونے دے گااور اگر اس کے دشمن ہيںتو تم دشمنان خدا کے بارے ميں کيوں فکر مند ہو''? امام  اپنے اس کلام کے ذريعہ تمام انسانيت کو يہ پيغام دے رہے ہيں کہ اہل و عيال کے ساتھ اعتدال اورميانہ روي کو پيش نظر رکھو،سارا وقت صرف خانوادے کے لئے وقف نہ کرو بلکہ اس کا کچھ حصہ سماج اور معاشرہ سے بھي مخصوص کرو تاکہ خانوادے ميں بھي خوشحالي رہے اور معاشرہ بھي کاميابي کے راستے طے کرتا رہے۔

تحرير:سيد امين حيدر حسيني،استاد جامعہ ايمانيہ،بنارس

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .