ترجمہ و تفسیر: مولانا محمد سجاد شاکری
وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام:الْعِلْمُ وِرَاثَةٌ كَرِيمَةٌ، وَ الْآدَابُ حُلَلٌ مُجَدَّدَةٌ، وَ الْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ."علم گراں قیمت میراث، آداب نو بہ نو لباس اور فکر صاف و شفاف آئینہ ہے۔"
حصہ اول: شرح الفاظ
1۔ الْعِلْمُ:علم، دانش، سائنس، معرفت۔
اسلام میں تمام علوم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اول علوم مفید، و دوم علوم مضر۔ ہر وہ علم جو انسان اور انسانیت کی خدمت کرتا ہو چاہے اس کی دنیاوی زندگی میں یا اخروی زندگی میں، اسلام کی نگاہ میں یہ علم، انسانی اور اسلامی ہے۔ اور ہر وہ علم و دانش جو انسان اور انسانیت کے لئے مفید نہ ہو یا اس سے بدتر کہ انسان یا انسانی معاشرے کے لئے مضر ہو تو وہ علم نہ انسانی ہے اور نہ ہی اسلامی۔
2۔ وِرَاثَةٌ:ارث، میراث، ترکہ، یعنی وہ مال جو ایک انسان سے اس کے مرنے کے بعد دوسرے انسان تک منتقل ہوجائے بغیر کسی خرید و فروخت کے۔
3۔ كَرِيمَةٌ:گراں قیمت، گراں بہا، ارزشمند۔
4۔ الْآدَابُ:ادب کی جمع ہے، ادب یعنی اخلاق، شائستگی در رفتار، نیک اجتماعی روابط۔
5۔ حُلَلٌ:الحُلَّةُ کی جمع ہے، گراں بہا اور نیا لباس، تزئینی لباس، اور بعض اہل لغت نے زیورات کے معنی میں بھی لیا ہے۔
6۔ مُجَدَّدَةٌ:جدید سے ہے، یعنی نیا، لیکن اس لفظ کی ترکیب میں فقط جدیدیت کا معنی نہیں ہے بلکہ پیوستہ نیا رہنے اور ہمیشہ جدید رہنے اور کبھی بھی پرانا اور فرسودہ نہ ہونے کا معنی بھی اس کے اندر پایا جاتا ہے۔
7۔ الْفِكْرُ:کسی چیز کے بارے میں غور فکر کرنا، سوچ بچار کرنا، دماغ لڑانا۔
8۔ مِرْآةٌ:آئینہ، شیشہ۔
9۔ صَافِيَةٌ:صاف و شفاف۔
حصہ دوم: سلیس ترجمہ
"علم گراں قیمت میراث، آداب نو بہ نو لباس اور فکر صاف و شفاف آئینہ ہے۔"
حصہ سوم: شرح کلام
مولا امیر المؤمنین علی علیہ السلام اپنے پچھلے کلام کی طرح اس کلام میں بھی انسان کے کچھ ایسے اوصاف بیان فرما رہے ہیں، جو اجتماعی زندگی میں انسان کی شخصیت سازی میں بڑا کردار رکھتے ہیں۔
1۔ علم و دانش:
مولا اپنے کلام کے اس حصے میں علم کو ایک گراں بہا اور با ارزش میراث قرار دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ انسان مرنے کے بعد ارث میں فقط مال و دولت نہیں چھوڑتا بلکہ وہ ارث میں مادی چیزوں مثلا مال و دولت، کاروبار اور گھربار کے علاوہ معنوی چیزیں مثلا علم و جھل، اخلاق و بد اخلاقی، دوستی و دشمنی وغیرہ بھی چھوڑ جاتا ہے۔ لہذا مولا نے انسان کے میراث میں علم کو سب سے زیادہ با ارزش قرار دیا۔
کیونکہ باقی تمام چیزوں کے مقابلے میں علم کی میراث خود میت کے لئے بھی سودمند ہے اور وارث کے لئے نفع بخش۔
وارث کے لئے مال کی نسبت علم و دانش اس لئے نفع بخش ہے کہ کلی طور پر ہی علم کو مال پر فوقیت حاصل ہے۔ کیونکہ ڈہاڑی پر مزدوری کرنے والے سے لے کر اربوں، کھربوں ڈالرز کا کاروبار کرنے والے تک ہر انسان اپنے علم و دانش اور عقل و فکر کے ذریعے مال کماتا ہے۔ پس مال کا حصول علم پر موقوف ہے۔ لیکن علم کا حصول مال پر موقوف نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے مولا کے اس کلام کو سمجھنا اور بھی آسان بنایا ہے۔ کہ جن جن قوموں نے علم و دانش اور سائنس و ٹیکنالوجی کو اہمیت دی ہیں وہی آج مال و دولت اور مادی ترقی میں بھی سب سے آگے ہیں۔ البتہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کی ہر چیز قابل تقلید ہے۔ کیونکہ ان قوموں نے انسان کے جسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے علوم میں تو بے مثال ترقی کی ہیں۔ لیکن روح کی ضرورتوں کا یکسر انکاری ہونے کی وجہ سے آج وہ خود اپنے معاشرے میں بڑے چیلنجز کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔
علم کی مال پر برتری کو آپ اپنے ایک کلام میں یوں بیان فرماتے ہیں:
"اے کمیل! علم مال سے بہتر ہے۔ کیونکہ علم تمہاری نگہداشت کرتا ہے اور مال کی تمہیں حفاظت کرنی پڑتی ہے۔
مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے اور علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے۔
مال و دولت کے نتائج و اثرات مال کے فنا ہونے سے فنا ہوجاتے ہیں۔
۔۔۔ علم حاکم ہے اور مال محکوم۔
۔۔۔ اے کمیل!
مال اکھٹا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں۔ بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں مگر ان کی یادیں دلوں میں موجود رہتی ہیں۔" (حکمت: 147)
2۔ آداب و اخلاق:
سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم۔کرنا ہے کہ ادب کیا چیز ہے؟
علمائے اخلاق ادب کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ "ادب یہ ہے کہ انسان کسی بھی چیز کی حد و اندازے کا لحاظ کرے اور اس سے تجاوز نہ کرے۔" مثال کے طور پر انسان کی زبان اپنے اور سامنے والے کے حد و اندازے کا لحاظ رکھے اور اس سے تجاوز نہ کرے۔ پس اگر وہ گالی بکتا ہے یا کوئی اور غیر مودبانہ زبان استعمال کرتا ہے تو گویا اس نے اپنی شخصیت کے حدوں کو بھی پار کیا ہے اور دوسروں کی شخصیت کا بھی لحاظ نہیں رکھا ہے۔(الآداب الدینیہ للخزانہ المعینیہ، شیخ طبرسی، ص199)
رسول اکرم(ص) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
"قرآن خدا کا ادبستان ہے یعنی قرآن کریم کتاب ادب ہے۔ اور خداوند عالم چاہتا ہے کہ انسان اس کتاب سے ادب سیکھے۔"(الآداب الدینیہ للخزانہ المعینیہ، شیخ طبرسی، ص200)
زیور اور لباس نو سے ادب کی تشبیہ
مولا نے ادب کو ایسے زیور یا لباس سے تشبیہ دی ہے جو کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے جس طرح انسان جدید لباس اور زیور سے اپنی آرائش اور خوبصورت دکھنے کے لئے استفادہ کرتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ لباس اور زیور پرانا ہوجاتا ہے تو پھر اس کی افادیت کم یا ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف اچھے آداب ایسے لباس اور زیور ہیں کہ وقت گزرنے سے کبھی اس کی خوبصورتی ماند نہیں پڑھ جاتی۔ بلکہ وہ اپنے ابتدائی آب و تاب کے ساتھ لوگوں کی آنکھوں کا رونق بنتے جاتے ہیں۔
جس طرح اچھے لباس اور زیور میں ملبوس دلہن کو دیکھنے کے بعد دولہا اس کی تعریف سے باز نہیں رہتا اسی طرح اچھے آداب سے مودب انسان کو دیکھنے کے بعد اس کی تعریف سے کوئی غافل نہیں ہوتا۔
امام صادق اپنے کسی صحابی کے ذریعے اپنے شیعوں اور چاہنے والوں تک یہ پیغام بھیجتے ہیں:
"میں تمہیں تقوائے الہی، خدا کے لئے سعی کوشس، سچائی، امانت داری اور تمام مسلمانوں کے ساتھ اچھے رفتار کی دعوت دیتا ہوں۔ اور جب بھی تم میں سے کوئی تقوائے الہی، سچائی، امانت داری اور لوگوں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آئے تو لوگ یہ کہیں گے کہ یہ جعفری ہیں اور کہیں گے کہ انہیں جعفر بن محمد نے ادب سکھایا ہے۔ تو ہمیں خوشی ہوگی۔"
3۔ فکر و اندیشہ:
فکر و اندیشہ کو اسلام نے بے نہایت اہمیت دی ہے۔ کہ آیات و روایات کی ایک بہت بڑی تعداد تفکر و تعقل کے بارے میں آئی ہیں۔ جن میں سے ایک بطور نمونہ عرض ہے۔
خداوند عالم اپنے نبی کو حکم دے رہا ہے: "کہدیجئے، میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لئے اٹھ کھڑے ہو ایک ایک اور دو دو کر کے پھر سوچو۔۔۔"(سورہ سبأ: 46)
فکر پر جب تک تعصب، اندھی تقلید، خرافات، خود پسندی، تکبر اور دشمنی کا پردہ پڑا رہے اس وقت تک فکر و اندیشہ کی راہیں انسان پر اصلا کھل ہی نہیں سکتیں۔ جیسے ہی انسان کی عقل ان زنجیروں سے آزاد ہوجائے اسے فکری جولان کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ اور نتیجے میں وہ حق و باطل، دوست و دشمن، خیر و شر اور نیک و بد کے درمیان تمیز کرنے کا قابل بن جاتا ہے۔
اسلام نے بھی فکر کے اسی اہم کارنامے کی وجہ سے اسے بہت بڑی عبادت قرار دیا ہے۔ امالی شیخ طوسی کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ "خدا کی مخلوقات میں غور و فکر نے سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ہے۔"
اور امام صادق علیہ السلام بھی ایک حدیث میں فرماتے ہیں:"ایکھ گھنٹے کی فکر ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔" اور روایات میں پیغمبر اکرم کے مشہور صحابی حضرت ابوذر غفاری کے بارے میں آیا ہے کہ غور و فکر اور عبرت حاصل کرنا ابوذر کی سب سے زیادہ انجام دی جانے والی عبادت تھی۔
پس فکر مولا کے اس فرمان کے تحت انسان کے لئے صاف و شفاف آئینہ کا کام کر سکتی ہے۔ جس طرح آئینہ انسان کو اس کی اچھائی برائی، ضعف و قوت، عیب و نقص سب کچھ دکھاتا ہے، انسان کے سامنے ہر چیز کی حقیقت واضح اور نمایاں رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح فکر بھی انسان کے سامنے ہر چیز کی حقیقت عیاں کرتی ہے۔ اور اسی شکل میں انسان کو دکھاتا ہے جس شکل میں اس کی حقیقت ہے۔ لیکن آئینہ کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کے اوپر دھول، کثافت اور میل نہ ہو۔ اسی طرح فکر کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے اوپر پردے نہ پڑے ہوں۔ ورنہ پھر قرآن کی آیت کے مطابق "لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ"
"أن کے پاس دل تو ہیں لیکن وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں، یہی لوگ تو غافل ہیں۔"
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔