جمعرات 29 مئی 2025 - 19:46
کون سے جذباتی رویے والدین کے، بچوں کی جنسی شناخت کو بحران سے دوچار کرتے ہیں؟

حوزہ/ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں خوش، باوقار اور پرسکون زندگی گزاریں، تو: ہمیں دینی، جذباتی اور سماجی تربیت پر توجہ دینی ہوگی خاندان، خصوصاً والد، کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی ہمیں آج کے دور کے لیے ایک قابلِ عمل دینی نمونہ تشکیل دینا ہوگا تاکہ وہ نہ صرف اپنی نسوانی شناخت پر فخر کریں بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک مثبت، باوقار اور فعال کردار ادا کر سکیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی I "ہویت یا شناخت، درحقیقت، دو بنیادی سوالات کا جواب ہے:"

"میں کون ہوں؟"

اور "میرے لیے کس چیز کی اہمیت ہے؟"

اگر کوئی شخص ان سوالات کا واضح اور قابلِ قبول جواب نہ دے سکے تو اس کے اندر جو ہویت یا شناخت تشکیل پاتی ہے وہ ادھوری اور نامکمل ہوتی ہے، اور یہ نامکمل شناخت انسان کی شخصیت کو سنجیدہ نقصانات پہنچا سکتی ہے۔

خاندان: بچوں میں جنسی شناخت کی تشکیل کا سب سے اہم ذریعہ

جنسی شناخت مختلف طریقوں سے تشکیل پاتی ہے۔ ان میں سے ایک ذریعہ براہِ راست تعلیم ہے۔

براہِ راست تعلیم میں فرد کو اس کی فطرت، جسمانی ساخت، جنسی خصوصیات اور قدرتی و رویّاتی پہلوؤں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

بعض اوقات اس شناخت کو مضبوط کرنے کے لیے عملی اور رفتاری مشقیں بھی ضروری ہوتی ہیں تاکہ فرد کے اندرونی اور بیرونی شعور میں اپنی جنس کے بارے میں پختگی پیدا ہو۔

ان عملی مشقوں کے ساتھ ساتھ فکری اور شعوری گفتگو بھی ضروری ہے، تاکہ شخص خود کو بہتر اور گہرے طور پر سمجھ سکے۔

تاہم، براہِ راست تعلیم ہر وقت ممکن نہیں ہوتی؛

اوّل تو اس کے لیے درکار تربیت یافتہ اساتذہ یا رہنما ہمیشہ دستیاب نہیں ہوتے؛

دوم، بہت سے افراد ان کلاسوں یا ورکشاپس میں شرکت ہی نہیں کرتے؛

سوم، بعض اوقات اگر استاد موجود بھی ہو اور لوگ حاضر بھی ہوں، تب بھی فرد اور استاد کے درمیان مؤثر رابطہ قائم نہیں ہو پاتا۔

لہٰذا، چاہے یہ تعلیم کلاس، ورکشاپ یا لیکچر کی صورت میں ہو، اس میں کئی سنجیدہ رکاوٹیں پائی جاتی ہیں۔

ایسے میں غیر رسمی یا بالواسطہ تعلیم سب سے مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ اور اس غیر رسمی تعلیم کا سب سے اہم اور مؤثر ماحول خاندان ہوتا ہے۔

کوئی بھی جگہ خاندان کی طرح گہری، مسلسل اور مؤثر تعلیم و تربیت کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔

اس کی تین بڑی وجوہات ہیں:

1. تعلقات کی وسعت:

کلاس یا ورکشاپ میں رابطے محدود وقت اور موضوع تک ہوتے ہیں، لیکن خاندان میں بات چائے یا کھانے پر، سفر میں، فلم پر تبصرے، حتیٰ کہ جھگڑوں اور ان کے بعد کی صلح کے دوران بھی ہوتی ہے۔

یہ مختلف انداز زندگی کے مختلف حالات میں سیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

2. وقت کے ساتھ تعلقات کا تسلسل:

تعلیمی اداروں میں تعلق چند دن، ہفتے یا مہینوں تک محدود ہوتا ہے، جبکہ خاندان میں والدین اور بچوں یا دیگر افراد کے درمیان رشتہ ایک طویل مدت تک قائم رہتا ہے۔ یہ تسلسل تربیت کو گہرائی بخشتا ہے۔

3. جذباتی وابستگی:

خاندانی رشتے عموماً محبت، وابستگی اور جذباتی پیوند کے ساتھ ہوتے ہیں، جو تعلیمی اداروں میں شاذ و نادر ہی ملتے ہیں۔

یہی جذباتی وابستگی افراد کو ایک دوسرے کے اثر میں آنے اور سیکھنے سکھانے میں مدد دیتی ہے۔

لہٰذا، خاندان ایک منفرد اور بنیادی تربیتی ماحول کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں تعلیم فطری، مسلسل، جذباتی اور ہمہ جہت انداز میں ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جنسی شناخت و پہچان سمیت دیگر پہلوؤں کی ہویت و پہچان کی تشکیل میں خاندانی تربیت کی تاثیر رسمی تعلیمی اداروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

معاشرے میں صنفی شناخت (Gender Identity) کا بحران اور اس کے اسباب

آج کا معاشرہ ایک بہت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ٹیکنالوجی اور معلومات کا سیلاب ہے، وہیں دوسری طرف نوجوان نسل، خاص طور پر بیٹیاں، اپنی "شناخت" کے بحران کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔

1. جنسیت کی پہچان میں الجھن

ہم دیکھتے ہیں کہ آج بہت سی لڑکیاں، یہاں تک کہ دینی گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی، اپنی نسوانی شناخت کو قبول کرنے میں دقت محسوس کر رہی ہیں۔ وہ معاشرے میں خود کو منوانے کے لیے مردوں جیسے انداز اپناتی ہیں — جیسے جارحانہ زبان، سخت لہجہ، یا خطرناک مشغلے جیسے موٹر سائیکل ریسنگ۔

یہ رویے صرف ظاہری نہیں ہوتے، بلکہ اکثر اندرونی کشمکش، خود کو ثابت کرنے کی تڑپ، یا محبت و توجہ کی کمی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ جتنا انسان مذہب اور روحانیت سے دور ہوتا ہے، یہ اضطراب اور رویے اتنے ہی شدید ہوتے ہیں۔

2. ایک ذاتی مشاہدہ

مشہد مقدس میں، امام رضا علیہ السلام کے حرم کے قریب، میں نے چند نوجوان لڑکیوں کو دیکھا جو آپس میں بلند آواز میں، غصے سے بات کر رہی تھیں۔ ایک نے کہا:

"میں نے اسے مارا تھا... اگلی بار اُس کا جبڑا توڑ دوں گی!"

اس قسم کی گفتگو ایک خطرناک نفسیاتی تبدیلی کی علامت ہے۔ جب لڑکیاں اس طرح کی زبان اختیار کریں، تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت میں کہاں کمی کر رہے ہیں۔

3. عورت کے دینی نمونے کی ضرورت

دینی معاشروں میں بھی آج یہ سوال شدت سے اٹھتا ہے:

"ایک دیندار لڑکی یا بیٹی کی پہچان کیا ہونی چاہیے؟"

ماضی میں معاشرہ سادگی، پردے اور حیا پر قائم تھا۔ لوگ دستک کی آواز سے بھی پہچان لیتے تھے کہ دروازے پر مرد ہے یا عورت۔

روایات بتاتی ہیں کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے تیرہ برس تک اس قدر پردے میں زندگی گزاری کہ ہمسایوں کو بھی ان کے وجود کا علم نہ تھا۔

لیکن آج کی دیندار خواتین میڈیا پر نظر آتی ہیں، تقاریر کرتی ہیں، جلسوں، ریلیوں اور قومی مواقع پر بھرپور شرکت کرتی ہیں۔ یہ سوال باقی رہتا ہے: "کیا یہ تبدیلی مثبت ہے یا منفی؟"

ہمیں یہ کہنا مقصود نہیں کہ خواتین گھروں تک محدود ہو جائیں۔ بلکہ ہمیں ایک ایسا دینی نمونہ چاہیے جو آج کے حالات میں بھی قابلِ عمل ہو — جو پردے، عزت، وقار اور سماجی شعور پر مبنی ہو۔

4. جنسی شناخت کی تشکیل میں باپ کا کردار

ایک اہم پہلو جو اکثر نظر انداز ہو جاتا ہے، وہ ہے باپ کا کردار۔

جب والد بیٹی کو وقت نہیں دیتا، اس کی بات نہیں سنتا، اس کی شخصیت کو اہمیت نہیں دیتا، تو بیٹی اپنی پہچان کے لیے دوسروں کی طرف رجوع کرتی ہے، یا تنہا خود کو منوانے کی کوشش کرتی ہے۔

پھر وہ کہتی ہے: "بیٹی، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھو... کسی سے امید نہ رکھو!"

یہ جملے خوداعتمادی کا اظہار نہیں بلکہ دل کی تنہائی، خاندانی خالی پن اور جذباتی خلا کی علامت ہوتے ہیں۔

5. خودمختاری یا تنہائی؟

آج بعض لڑکیاں مکمل خودمختار ہو چکی ہیں — اچھی نوکری، آمدنی، تعلیم، خود کفالت — لیکن شادی میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔

کیوں؟

کیونکہ: بعض کو جنسی کشش یا گرمجوشی محسوس نہیں ہوتی، کچھ نے اپنی خواہشات کو دبانا سیکھ لیا ہے

یا وہ انہیں کسی اور طریقے سے پورا کر لیتی ہیں

ایسے میں شادی ایک "غیر ضروری بوجھ" بن جاتی ہے۔

اسلامی تعلیمات ہمیں ایک متوازن راستہ سکھاتی ہیں — جہاں بیوی شوہر کی محتاج ضرور ہے، مگر محبت اور عزت کے دائرے میں۔ یہ محتاجی کوئی کمزوری نہیں، بلکہ ایک فطری، محبت بھرا رشتہ ہے، جو خاندان کو جوڑتا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں خوش، باوقار اور پرسکون زندگی گزاریں، تو:

ہمیں دینی، جذباتی اور سماجی تربیت پر توجہ دینی ہوگی خاندان، خصوصاً والد، کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی ہمیں آج کے دور کے لیے ایک قابلِ عمل دینی نمونہ تشکیل دینا ہوگا تاکہ وہ نہ صرف اپنی نسوانی شناخت پر فخر کریں بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک مثبت، باوقار اور فعال کردار ادا کر سکیں۔

منفی گھریلو جذبات کا بچوں کی جنسی شناخت پر اثر

جب کسی گھر میں جذباتی طور پر سرد ماحول ہو، یعنی باپ ماں سے محبت کا اظہار نہ کرے، اور ماں کو اپنے لیے قیمتی اور محترم نہ سمجھے، تو بیٹی خود کو بچانے اور اپنی شناخت بنانے کے لیے مجبوراً خودمختاری کی راہ اپناتی ہے۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ بعد میں ایک مشترکہ زندگی میں ساتھ دینے کے قابل نہ رہے، اور جذباتی طور پر کسی کے ساتھ جڑنے میں ناکام ہو جائے۔

اگر ماں باپ کا رشتہ نہ تو بہت تناؤ کا شکار ہو اور نہ ہی بالکل سرد، بلکہ ایک عام سا تعلق ہو — جیسا کہ کبھی سلام دعا، کبھی جھگڑا، کبھی صلح، کبھی چند دن کی ناراضی، اور تہواروں پر محبت کا اظہار یا تحفہ دینا — تو ایسی فضا میں بیٹی کی شخصیت بھی عام اور نارمل بنے گی۔

مگر آج کی دنیا میں صرف "عام سی لڑکی" ہونا کافی نہیں۔ ایسی لڑکی، جو ایک معمولی گھریلو ماحول میں پلی ہو، موجودہ دور کے شدید ثقافتی اور نیم ثقافتی دباؤ کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ بہت سے لوگ جو عام سے ہوتے ہیں، ان کے لیے ان ثقافتی لہروں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے پاس انسٹاگرام ہے، وہ اکثر اس سے دُور نہیں رہ پاتے؛ روز اس پر جاتے ہیں۔

کچھ رپورٹس کے مطابق، تقریباً 62 فیصد انسٹاگرام استعمال کرنے والے افراد اسے مسلسل چیک کرتے ہیں اور اس کے مواد کی پیروی کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ تعداد کم بھی ہو، تب بھی یہ باعثِ تشویش ہے۔

ہم روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ رات کے وقت مرد و عورت دونوں اپنے موبائل میں مصروف ہوتے ہیں، جیسے اب کچھ نیا ہونا ہی نہیں۔ یہ عام سا رویہ نہ صرف تخلیقی صلاحیتوں کو ماند کر دیتا ہے، بلکہ جب یہ لوگ کسی جذباتی یا اشتعال انگیز ویڈیو یا کلپ کا سامنا کرتے ہیں، تو ان میں سے ایک بڑی تعداد کا رویہ یکدم بدل جاتا ہے۔

صرف دو خاص کلپ اگر وائرل ہو جائیں، تو ممکن ہے کہ معاشرے میں اچانک 10 فیصد افراد کی اخلاقی یا عملی حالت بدل جائے۔ یا کسی خاص لباس کے رجحان کو دیکھ کر، بہت سی لڑکیاں اپنے کپڑوں کا انداز بدل لیں۔

ایسی فتنہ انگیز تحریکیں جیسے "زن، زندگی، آزادی" (عورت، زندگی، آزادی) بھی انہی ذرائع سے شروع ہوتی ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کئی خواتین چادر کو چھوڑ دیتی ہیں۔

جب کسی گھر میں باپ اور ماں کی بات چیت میں منفی جذبات جیسے غصہ، الزام تراشی یا توہین ہو، تو ایسی فضا میں پروان چڑھنے والی بیٹیاں نہ صرف اپنی جنسی شناخت سے ناخوش ہو جاتی ہیں، بلکہ ان میں مردوں سے مقابلے کی شدید خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔

ایسی بیٹیوں میں ایک قسم کی "مرد دشمنی" یا مردوں پر غالب آنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ طلاق یافتہ گھروں میں (اگرچہ ہر بار نہیں، مگر کئی بار) ایسی بیٹیاں نظر آتی ہیں جو شادی کے بعد شوہر کو مسلسل قابو میں رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

یہ لڑکیاں اندر سے خود کو کمزور اور غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ان کی نسوانیت (عورت ہونا) بے وقعت یا توہین آمیز ہے۔ اور یہ احساس ان کی شخصیت میں گہری جڑ پکڑ لیتا ہے۔

دوسری طرف، عورتیں سرمایہ دارانہ نظام کا ایک آلہ بن گئی ہیں۔ کبھی انھیں ایک خاص انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ مردوں کو اپنی طرف مائل کریں، اور کبھی کسی اور مقصد کے لیے ان کا دوسرا چہرہ دکھایا جاتا ہے۔

مغربی ثقافت میں عورت کا عالمی دن (World Women's Day) اصل میں عورت کی عزت افزائی کا موقع نہیں بنتا، بلکہ ایک ایسا دن بن جاتا ہے جس میں عورت کو مزید الجھایا جاتا ہے۔ اس دن پر بنائی جانے والی ویڈیوز، حتیٰ کہ ہمارے اپنے ملک میں بھی، عورتوں کو ایک مظلوم اور الجھی ہوئی ہستی کے طور پر دکھاتی ہیں، تاکہ وہ اپنی جنس اور نسوانیت پر ناراض ہو جائیں۔

سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ جو مقصد دشمن قوتیں حاصل کرنا چاہتی ہیں، وہ بعض اوقات خود گھر کے مرد (یعنی باپ) ہی پورا کر دیتے ہیں۔ جب باپ، ماں کو ذلیل کرتا ہے، تو حقیقت میں وہ اس کے مقام کو ختم کر دیتا ہے۔ اگر اس صورتِ حال میں بیٹی کو کوئی جذباتی ردِعمل نہ ہو، تو یہ حیرت کی بات ہوگی۔

کیونکہ ایک بیٹی کو 3 سے 6 سال کی عمر اور پھر نو عمری میں اپنے ماں باپ کو دیکھ کر یہ سیکھنا ہوتا ہے کہ مرد یا عورت ہونا کیا مطلب رکھتا ہے۔ اسی سیکھنے کے دوران اس کی شخصیت بنتی ہے، تاکہ وہ جوانی میں قدم رکھ سکے۔

اب جب کہ یہ سب جھگڑے، ذہنی دباؤ اور کشمکش جاری ہیں، ہم اچانک دیکھتے ہیں کہ ایک نوجوان لڑکی اپنی ماں کی توہین سے دل گرفتہ ہو جاتی ہے۔ مگر ہم یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ ہر ایسی لڑکی کو بلا کر اس سے بات کریں اور اسے اس کی جنس اور شناخت کو قبول کرنا سکھائیں۔

یہ مسئلہ صرف نصیحتوں سے حل نہیں ہوتا، کیونکہ یہ مسئلہ انسان کے لاشعور، گہرے احساسات اور بنے ہوئے مزاج سے جڑا ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب وہ لڑکی دینی تربیت سے محروم ہو، تو اس کا ردِعمل اور بھی شدید، پیچیدہ اور غیر متوقع ہوتا ہے۔

(جاری ہے ...)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha