حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ جذباتی اندازِ تعامل، ان کی نفسیاتی اور شناختی صحت کی تشکیل میں سب سے اہم عوامل میں سے ہے۔ اس حوالے سے اگر بیٹیوں کے ساتھ محبت کے اظہار میں حد سے زیادہ نرمی یا سختی ہو جائے، تو یہ ان کی شخصی اور جنسی حدود میں خلل ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے۔
حیا کا تحفظ، رویوں میں اعتدال، اور رشتے کی حدود کو پہچاننا، متوازن تربیت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے لیے گھریلو فضا میں باخبر اور ذمہ دارانہ توجہ نہایت ضروری ہے۔
زیرِ نظر گفتگو، "باپ اور بیٹی کے تعلقات علم و دین کے آئینے میں" کے عنوان سے باقرالعلومؑ اسلامی تبلیغ و مطالعاتی مرکز کی ایک سلسلہ وار آن لائن نشست کا حاصل ہے۔
اس نشست میں "بیٹیوں کی جنسی شناخت کی تشکیل میں والدین کے ازدواجی تعلقات کے نظم و نسق کا طریقہ" کے موضوع پر گفتگو کی گئی، جسے حجت الاسلام والمسلمین مہدی ہادی، اسلامی نفسیات کے ماہر، اور قومی میڈیا کے تجزیہ کار نے پیش کیا۔
حوزہ نیوز اس نشست کا مکمل متن شائع کر رہا ہے۔
اس نشست کے اہم نکات:
۱. والدین اور بچوں کے درمیان صحت مند اور نقصان دہ محبت کے درمیان فرق
۲. والدین کی جذباتی زیادتی یا کمی کا بیٹیوں کی جنسی شناخت پر اثر
۳. بیٹیوں کی نفسیاتی اور تربیتی صحت میں والد کے جذباتی اظہار کا کردار
۴. باپ کی محبت کیسے ایک طرف حفاظت کا احساس دے سکتی ہے اور دوسری طرف نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے؟
۵. کیا بچے والدین کی طرف سے محبت کے ہر انداز کو صحیح طریقے سے سمجھتے ہیں؟
۶. والدین کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے بچوں میں حیاء کا خاتمہ اور نقالی کا خطرہ
۷. خاندانی جذباتی فضا میں جنسی تربیت کی حدود کہاں تک ہیں؟
پہلا حصہ: حجت الاسلام والمسلمین مہدی ہادی (صدر انجمنِ نفسیات اسلامی) کا بیان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اگر ہم اس گفتگو کے کلیدی مفاہیم پر آغاز ہی سے غور کریں، تو سب سے پہلے جو لفظ ہمارے سامنے آتا ہے، وہ ہے "انتظام (یا نظم و نسق/مینجمنٹ)"۔
جب میں "انتظام" کے مفہوم پر غور کرتا ہوں تو میرے نزدیک اس کا مطلب ہوتا ہے:
"مسائل کے حل کے لیے ایسے طریقوں اور تدابیر کا مجموعہ، جن کے ذریعے ہم (یعنی اثر انداز ہونے والے عوامل) کو کم یا زیادہ کر سکیں، انہیں ختم کریں یا پیدا کریں۔"
انتظام (مینجمنٹ) کا درست مفہوم
تربیت اور اثرگذاری کے میدان میں ہم ایک ایسے مجموعے سے روبرو ہوتے ہیں جس میں کئی متاثر کن اجزاء شامل ہوتے ہیں۔
کبھی ضروری ہوتا ہے کہ کچھ عوامل میں اضافہ کیا جائے، کبھی ان میں کمی لانا ضروری ہوتا ہے۔ بعض صورتوں میں کوئی عامل سرے سے موجود نہیں ہوتا، تو ہمیں اُسے پیدا کرنا پڑتا ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی عنصر کو مکمل طور پر ختم کر دینا ہی بہترین حل ہوتا ہے۔
لہٰذا، انتظام کا مفہوم ہے: "مسئلہ کو حل کرنے کی صلاحیت، جو متاثر کن اجزاء کو پہچاننے، ان میں توازن قائم کرنے، اور مناسب طرزِ عمل اختیار کرنے کے فن پر مبنی ہو۔"
روابط (تعلقات) کا درست مفہوم
اب ہم دوسرے اہم لفظ "روابط" کی طرف آتے ہیں۔
جب ہم "روابط" کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مطلب ہوتا ہے:
"افراد کے درمیان ہر قسم کا تعامل، لین دین، آنا جانا، اور ہر نوعیت کا ربط و تعلق"۔
ان افراد کی نظر میں جو مفاہیم کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں، "ارتباط" کا مطلب صرف پیغام رسانی ہوتا ہے، چاہے یہ پیغام زبانی ہو یا غیر زبانی۔
مگر "روابط" صرف پیغام کی ترسیل سے آگے کا مفہوم رکھتے ہیں۔
یہ عمل اور ردِ عمل کے پورے مجموعے کو اپنے اندر سمیٹے ہوتے ہیں، جیسے بات چیت، لین دین، افہام و تفہیم، ملاقاتیں، اور عمومی طور پر ہر طرح کی باہمی سرگرمیاں۔
لہٰذا، رابطے کا آلہ "ارتباط" ہے، لیکن ان دونوں کے درمیان بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔
خاندانی نقطۂ نظر سے تعلقات کی چار بنیادی اقسام
اسی مقام پر ہم تعلقات کو چار اہم اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں:
1. بےتفاوتی پر مبنی تعلقات:
یہ وہ تعلقات ہیں جن میں نہ کوئی رغبت ہوتی ہے، نہ نفرت، نہ دلچسپی اور نہ ہی کوئی خاص احساس۔
مثال کے طور پر: ایک شخص دکان کے پاس سے گزرتا ہے، ہزار تومان ادا کرتا ہے اور کوئی چیز خرید لیتا ہے، یا سڑک پر چلتے ہوئے کسی سے کہتا ہے کہ ذرا ایک طرف ہو جائے تاکہ وہ گزر سکے۔
ایسے تعلقات میں فرد کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سامنے والا کون ہے، اس کی شخصیت کیسی ہے یا وہ کیا خصوصیات رکھتا ہے۔
2. عمومی یا معمولی تعلقات:
یہ تعلقات بےتفاوت تعلقات کے مقابلے میں کچھ زیادہ گہرائی رکھتے ہیں۔
لوگ معاشرتی آداب کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔
مثلاً: کوئی شخص سڑک پر کسی کو دیکھتا ہے اور سلام کرتا ہے، خواہ وہ اسے جانتا نہ ہو۔
اس قسم کے تعلقات میں "احترام" کو ایک معاشرتی قدر کے طور پر خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
3. جذباتی بنیاد پر قائم تعلقات:
یہ وہ تعلقات ہیں جو عام روایتی سطح سے بلند ہو کر جذبات اور احساسات سے لبریز ہو جاتے ہیں۔
اس درجے میں فرد کے لیے دوسروں کے جذبات و احوال اہمیت اختیار کرتے ہیں اور تعلقات سطحی دائرے سے نکل کر گہرے تعاملات کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
یہ جذباتی تعلقات بھی دو قسم کے ہوتے ہیں:
منفی جذبات پر مبنی تعلقات:
ان میں اگرچہ رابطہ موجود ہوتا ہے، لیکن اس کی نوعیت دشمنی، بد نیتی یا نقصان پہنچانے کی ہوتی ہے۔
فرد دوسرے کے ساتھ رابطے میں تو ہوتا ہے، لیکن مقصد محض تکلیف دینا یا رنج پہنچانا ہوتا ہے۔
مثبت جذبات پر مبنی تعلقات:
اس قسم کے تعلقات محبت، دلچسپی، خیرخواہی اور قربت کے جذبات سے سرشار ہوتے ہیں۔
4. ازدواجی (میاں بیوی کا رشتہ) تعلقات:
یہ تعلقات تمام مذکورہ اقسام سے بالاتر ہوتے ہیں، اور ایک خاص اور گہرے تعلق کے طور پر جانے جاتے ہیں، جنہیں "ازدواجی تعلقات" کہا جاتا ہے۔
ازدواجی تعلقات چار اقسام میں کہاں آتے ہیں؟
اب ہم اس اہم اصطلاح یعنی "ازدواجی تعلقات" پر بات کرتے ہیں جو ہمارے موضوع کا مرکزی عنوان بھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ازدواجی تعلقات ان چار اقسام میں سے کس درجے میں آتے ہیں؟
بعض اوقات ازدواجی زندگی میں ایک خاص کیفیت سامنے آتی ہے جسے "جذباتی طلاق" کہا جاتا ہے۔
اس صورت میں میاں بیوی کے درمیان جذباتی دوری، سرد مہری اور بےاحساسی پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔
ایسے جوڑے اگرچہ بظاہر ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں، یا کسی سماجی یا خاندانی مجبوری کے تحت تقریبات میں ایک ساتھ شرکت کرتے ہیں، لیکن ان کے درمیان کسی قسم کا جذباتی تبادلہ یا باہمی احساساتی رابطہ باقی نہیں رہتا۔
درحقیقت، ان کا رشتہ انتہائی سطحی اور بے پروا قسم کے تعلقات میں شمار ہوتا ہے۔
ازدواجی تعلقات کی مختلف سطحیں
کبھی ازدواجی تعلقات عام یا روایتی سطح پر ہوتے ہیں۔
ایسے رشتوں میں کچھ نہ کچھ جذبات، تھوڑی سی قربت اور باہمی احترام موجود ہوتا ہے۔
مثلاً: میاں بیوی کبھی کبھار ایک دوسرے کو مسکراہٹ دیتے ہیں، کبھی ساتھ خریداری پر چلے جاتے ہیں یا خاص مواقع پر ایک دوسرے کو تحفہ دیتے ہیں۔
یہ تعلقات اگرچہ گہرے یا بہت جذباتی نہیں ہوتے، لیکن ایک مستحکم اور معمول کی ازدواجی زندگی کی صورت رکھتے ہیں۔
آخر میں، ازدواجی تعلقات کی وہ قسم آتی ہے جو جذبات پر مبنی ہوتی ہے۔
یہ تعلقات بھی دو طرح کے ہوتے ہیں:
منفی جذبات پر مبنی ازدواجی تعلقات:
جن میں جھگڑے، کشمکش، اور دشمنی غالب ہوتی ہے۔ یہاں تعلق موجود ہے، مگر اس کی نوعیت نقصان دہ اور تناؤ سے بھرپور ہوتی ہے۔
مثبت جذبات پر مبنی ازدواجی تعلقات:
یہ وہ تعلقات ہیں جن میں محبت، ہمدردی، ہم آہنگی اور باہمی قربت کا حقیقی جذبہ موجود ہوتا ہے۔ یہ رشتے زندگی میں خوشی، اطمینان اور جذباتی توازن پیدا کرتے ہیں۔
جنسی شناخت کیا ہے؟
اب ہم آتے ہیں "جنسی شناخت" یا زیادہ درست الفاظ میں "جنسی شناخت کی تشکیل" کی طرف۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرد اپنے جنس (یعنی عورت یا مرد ہونے) کو پہچانے اور قبول کرے۔
جنسی شناخت درحقیقت دو مراحل پر مشتمل ہوتی ہے:
1. شناخت: یعنی فرد کو یہ شعور حاصل ہو کہ وہ کون ہے، عورت یا مرد۔
2. قبولیت: یعنی وہ اپنی اس شناخت کو دل سے تسلیم کرے۔
اگر ان دونوں مراحل " شناخت اور قبولیت " میں کوئی خلل واقع ہو، تو انسان کی جنسی شناخت نامکمل یا مشکوک ہو جاتی ہے۔
ایسی صورتحال آگے چل کر نہ صرف نفسیاتی اور سماجی مسائل کو جنم دیتی ہے، بلکہ فرد کی عمومی شناخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔
آج کی دنیا میں، بالخصوص لڑکیوں کے لیے، جنسی شناخت کا مسئلہ ایک اہم چیلنج بن چکا ہے۔ یعنی یہ کہ لڑکی کو نہ صرف یہ معلوم ہو کہ وہ ایک عورت ہے، بلکہ وہ اس شناخت کو شعوری طور پر قبول بھی کرے۔ یہ مسئلہ نہ صرف انفرادی سطح پر، بلکہ قومی سطح پر اور حتیٰ کہ مذہبی سطح پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
( جاری ہے ....)









آپ کا تبصرہ