۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
حجاب

حوزہ/ بے حجابی، عریانیت اور برہنگی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں بلکہ یہ انسان دشمن شیطان کا حربہ ہےجس کے ذریعہ وہ انسان کو پستی کی جانب لے جانا چاہتا ہے ، انسانیت کی بے حرمتی کا درپے ہے اور چاہتا ہے کہ انسانی نسل کا تقدس پامال ہو جائے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی خواتین کے حجاب کے سلسلہ میں اگر ہم اسلام کے علاوہ دیگر ادیان کی بھی تعلیمات پر نظر کریں تو کسی بھی دین خصوصا آسمانی ادیان نے عریانیت اور بے حجابی کی اجازت نہیں دی ہے۔ یہودیت ہو یا مسیحیت یا زرتشت ہوں اگر ہم حجاب کے سلسلہ میں انکے احکام دیکھیں تو ہر ایک نے عورت کی بے پردگی اور عریانیت پر پابندی لگائی ہے۔ کیوں کہ حجاب میں ہی عورت کا تحفظ ہے، پردہ میں ہی عورت کی عزت ہے، پردہ میںہی عورت کا وقار ہے۔

سربراہ تحریک دینداری بانی تنظیم المکاتب مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ نے اس سلسلہ میں مثال دیتے ہوئے فرمایا تھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ہم سڑک پر جگہ جگہ بریکر دیکھتے ہیں، یہ بریکر بے مقصد نہیں ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں اپنی گاڑی کی سرعت کم کر لو، سنبھل جاؤ، آگے گلی ہے، چوراہا ہے، اسپتال ہے، بچوں کا اسکول ہے۔ اسی طرح اسلام نے نسل انسانی کی طہارت اور تحفظ کی خاطر دو نا محرم کے قریب آنے پر پابندی لگائی ہے، یہی پردہ۔ یہ پردہ ایک بریکر ہے کہ انسان سمجھ جائے کہ یہ نا محرم ہے، خود بھی گناہ سے بچ جائے ، دوسرے کو بھی گناہ میں نہ پڑنے دے اور نسل انسانی کی حرمت اور وقار بھی محفوظ ہو جائے۔

اگر آج ہم سماج میں درپیش مشکلات اور پریشانیوں کا جائزہ لیں تو ہمارے لئے واضح ہو جائے گا کہ اکثر مشکلات کا سبب یہی بے پردگی ہے، عریانیت ہے، محرم و نامحرم کے درمیان شرعی فاصلہ کا ختم ہو جاناہے۔ جیسے سماج میں پھیلی بدکاریاں، طلاق کی شرح میں مسلسل اضافہ، امن و سکون اور سلامتی کا احساس نہ ہونا، گھروں کا ٹوٹنا اور محبت کا ختم ہو جانا، عورتوں کی عزت و وقار کا میں تنزلی اور مردوں کا نفسانی حوس کا اسیر بننا وغیرہ۔

ایسا نہیں ہے کہ موجودہ بے پردگی ، عریانیت اور تہذیب و ثقافت کی پسماندگی سے صرف مسلمان پریشان ہے بلکہ غیر مسلم بھی عاجز نظر آ رہے ہیں۔ عریانیت و برہنگی کی مخالفت بھی صرف مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم بھی کر رہے ہیں۔ اگر ہم ہندو مذہب کی تعلیمات پر نظر کریں تو انکی ایک تعلیم یہ بھی ہے۔جیسا کہ اسمرتیوں کی بعض تحریروں میں ہے ’’خواتین کا لازمی طور پر احترام کیا جانا چاہیےاور ان کی قدر کی جانی چاہیے‘‘ اور ’’ جہاں خواتین کا احترام کیا جاتا، وہاں دیوتا خوش ہوتے ہیں؛ لیکن جہاں پر خواتین کا احترام نہیں کیا جاتا، وہاں کسی بھی مقدّس عبادت کا کوئی بھی نتیجہ یا پھل نہیں ملتا۔‘‘

ظاہر یہ احترام بے پردگی، برہنگی اور عریانیت سے ممکن نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لئے عورت کو اس قدر حجاب کرنا ہو گا کہ اس کا احترام، عزت و وقار اور تحفظ ممکن ہوسکے۔ ممکن ہے بعض اذہان میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگرعورت اس قدر پردے میں ہو گی تو ترقی کیسے کرے گی؟ تعلیم کیسے حاصل کرے گی؟ دین اسلام نے عورت کے لئے جہاں پردہ واجب کیاہے وہیںحصول علم بھی ہر مسلمان عورت پر فرض کیا ہے۔ کتنی با حجاب خواتین ہیں جنہوں نے حجاب میں رہتے ہوئےتعلیم کی اعلیٰ منزلیں طے کی ہیں ڈاکٹر، انجینیئر، پروفیسر حتی پائلیٹ تک بنی ہیں اورایسی با کردار خواتین دور حاضر میں بھی کثرت سے موجود ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ حجاب خاتون کی ترقی میں رکاوٹ نہیں ہے۔

بے حجابی، عریانیت اور برہنگی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں بلکہ یہ انسان دشمن شیطان کا حربہ ہےجس کے ذریعہ وہ انسان کو پستی کی جانب لے جانا چاہتا ہے ، انسانیت کی بے حرمتی کا درپے ہے اور چاہتا ہے کہ انسانی نسل کا تقدس پامال ہو جائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .