تحریر: سید شہنشاہ حیدر زیدی، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
حوزہ نیوز ایجنسی। خدا وند عالم نے کائنات کی تخلیق میں توازن (Balance)کا ایک خاص خیال رکھا ہے اور تمام مخلوقات کو ایک مدار پر رکھا ہے ۔ دریاؤں کا ایک خاص بہاؤ کے تحت بہنا، سورج کا ایک انداز پر نکلنا اور غروب ہوجانا ، اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ ہر شے متوازن ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُ
’’وہی وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور وہ جیسا بھی کہتا ہے تو وہ چیز ہوجاتی ہے ۔‘‘
(سورہ انعام، آیت؍۷۳)
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ
’’کیا کافر اس بات پر غورو فکر نہیں کرتے کہ آسمان اور زمین پہلے آپس میں ملے یوئے تھے پھر ہم نے ہرچیز کو پانی سے پیدا کیا ۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے ۔‘‘
(سورہ انبیاء، آیت؍ ۳۰)
جس سے یہ واضح ہے کہ تخلیق کائنات میں بھی خدا وندعالم نے توازن کا حددرجہ خیال رکھا ہے ۔ اسی طرح کائنات میں پائی جانے والی ہر شے کو متوازن خلق فرمایا ہے ۔ آج تک دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خدا وندعالم کی خلق کی ہوئی کوئی بھی شے خدا کے قائم کردہ توازن سے ہٹ گئی ہو۔ سورج کو اللہ نے جب سے پیدا کیا ہے اپنے وقت پر طلوع ہوکر اپنے مقررہ وقت پر غروب ہورہا ہے ۔ اسی طرح دوسری اشیاء اپنے توازن پر قائم ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ
آسمان و زمین کی خلقت اور شب و روز کی آمدورفت میں صاحبان عقل کے لئے ہماری نشانیاں ہیں ۔‘‘
(آل عمران ، آیت ؍ ۱۹۰)
جس سے یہ ماننا پڑے گا کہ اگرایک لمحہ کے لئے بھی شب و روز اور چاند و سورج کے طلوع و غروب ہونے میں جلدی یا تاخیر ہوجائے تو اس کائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے :
فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
وہ نور سحرکا شگافتہ کرنے والا ہے اور اس نے رات کو وجہ سکون اور شمس و قمر کو ذریعہ حساب بنایا ہے۔ یہ اس صاحب حکمت و عزت کی مقرر کی ہوئی تقدیر ہے ۔ ‘‘
(انعام ، آیت ؍ ۹۶)
شب و روز کی آمد ورفت ، سردی گرمی اور برسات کے موسم یہ سب خداوند عالم کی کائنات کے متوازن ہونے کی دلیلیں ہیں ۔ اگر اللہ کی خلق کردہ کائنات متوازن نہ ہوتی تو دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجاتا اور کوئی چیز پیدا نہ ہوتی ۔ کیونکہ خداوند عالم کی متوازن کائنات کی وجہ سے ہی تمام موسم وجود میں آتے ہیں اور انہیں موسموں کی جوہ سے کھیتیاں لہلہاتی ہیں ، باغوں میں سر سبزی و شادابی آتی ہے ۔ آبشاری جاری ہوتے ہیں اور ندیاں زمین کو سیراب کرتی ہیں ۔ لیکن افسوس ! خداوند عالم کی خلق کردہ متوازن کائنات میں اناسن کے ذریعہ بے توجہی اور طرح طرح کی آلودگیاں اس توزن کو متاثر کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ جس سے ٹیمپریچر(Temperature)سے لے کر موسم تک سب متاثر ہورہے ہیں ۔
فضائی آلودگی کے ذریعہ (Ozone)میں سوراح ہورہے ہیں جو انسانی زندگی کو کس درجہ تباہ و برباد کردے گا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ یہ ابت چند دنوں کے لاک ڈاؤن سے معلوم ہوگئی ۔ فضائی آلودگی کافی حد تک کم ہوگئی جس سے آسمان صاف ستھرا نظر آنے لگا ۔ دریا صاف ہوگئے اور درختوں پر نکھار آگیا۔
آلودگیوں کے ذریعہ ہم کس قدر نعمات الٰہی کو خراب کررہے ہیں کہ جمنا اور گنگا جیسی بڑی ندیاں صفائی کی ضرورت محسوس کررہی ہیں ۔ کیونکہ مردوں کو جلانے اور ان کو بہانے کے سبب اور پولوتھین کی کثرت کی وجہ سے یہ دنیاں پانی اصل حالت کوکھونے لگی ہیں ۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کائنات متوازن خلق نہ ہوتی یا غیر متوازن ہوجائے تو زندگی کا وجود ہی نہ رہے ۔ لہٰذا مسلمان سائنس داں مسلم جغرافیہ نگران اور دنیا کے مفکرین ، دانشمندان حضرات اور ماہرین جغرافیہ کا بھی یہی خیال ہے ۔ اسی لئے مفکر بے بدل بابائے کیمیاجابر بن حیان کا بھی اسی مسئلہ پر اتفاق ہے ۔ جابر کی فکر میں نظریہ میزان کی حیثیت کلیدی ہے ۔ کائنات کا ذرہ ذرہ میزان کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ جمادات و حیوانات تمام جاندار اغیر جاندار کا دارومدار توازن پر قائم ہے ۔ جابر کے نزیدک اعداد اسی توازن کا حصہ ہیں جس کی بیناد پر کا ئنات وجود میں آئی ۔
(جابر بن حیان ، ویکی پیڈیا)
ہمارے لئے ضروری ہے ہم حیاتی تنوع کی تعریف اور اس کے مفہوم کو سمجھیں اور جانیں کہ اس لفظ سے سائنس دانوں نے کیا مراد لیا ہے ؟ حیاتی تنوع کی جامع تعریف اس طرح ہے :
’’کرہ ارض کی تمام جاندار اشیاء‘‘
یہ تعریف روئے زمین پر تمام انواع اور جنی تغیرات کا احاطہ کرتی ہے ۔ ماہر حشرات الارض ولسن نے اس لفظ کی تعریف اس طرح کی ہے :
’’حیاتی تنوع کا مطلب زندگی کے تمام مدارج میں زندہ اجسام میں وقع پذیر تغیرات جو احساس رکھتے ہیں ۔ ان زندہ اجسام میں تمام پودے ، جانور ، حشرات اور دوسرے جاندار شامل ہیں ۔‘‘
(حیاتی تنوع ، مقالہ نویس: ڈاکٹر عزیز احمد عرسی)
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ایسے پودے ،جانور، مکھیاں اور کیڑے مکوڑے جو انسانی خوراک پیدا کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں وہ زوال کا شکار ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق اگر پودے جانوروں اور ننھی حیات کی ایسی اہم اقسام ختم ہوجاتی ہیں تو اس سے ہماری خوراک کو شدید خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
(بی بی سی اردو، ۲۳؍ فروری ،۲۰۱۹ء)
چارسال تک اٹھارہ سو محققین نے حیاتی تنواع سے انسانی صحت کو پہنچنے والے فوائد پر تحقیق کرنے کے بعد رپورٹ پیش کی ہے کہ حیاتی تنوع دراصل قدرت کا انمول تحفہ ہے جو انسانی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے ۔ نیویارک سے شائع ہونے والے جریدے نیچر(Nature)میں ماحولیاتی تنوع کے بارے میں کہاگیا ہے کہ گوناگوں بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جو کسی انفیکشن یا عفونت سے جنم لیتی ہیں ۔
خداوندعالم نے قرآن مجید میں حیاتی تنوع کے توازن پر متعدد آیات ارشاد فرمائی ہیں :
سورہ روم میں اللہ ارشاد فرماتا ہے :
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿٤١﴾
’’زمین اور سمندر میں انسان کے ہاتھوں جو کچھ بھی غلط ہوتا ہے اس کا نقصان اس کو اٹھا نا پڑے گا۔‘‘
(سورہ روم ، آیت ؍۴۱)
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :
’’اللہ کے نزدیک ایسے لوگ فساد برپاکرتے ہیں جو نسل انسانی و حیوانی کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔‘‘
وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ
(سورہ بقرہ، آیت؍ ۲۰۵)
قرآن مجید ذی حیات کو نقصان پہنچانے والے افراد کو مفسدین سے تشبیہ دیتا ہے اور یقیناً یہ لوگ اس طریقہ کار سے روئے زمین پر فساد برپاکرتے ہیں۔
سورہ انعام میں ارشاد ہوتا ہے :
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم
’’اور زمین میں چلنے والے جانوروں اور دو پروں پراڑنے والے پرندے تمہاری طرح جماعتیں (خاندان)رکھتے ہیں ۔ ‘‘
(سورہ انعام ، آیت؍ ۳۸)
لہٰذا معلوم ہوا کہ کسی کے خاندان اور جماعت کے ساتھ ظالمانہ سلوک فساد بھی ہے اور ظلم بھی ۔ نہ خداوندعالم ظالموں کو پسند کرتا ہے اور نہ مفسدین کو ۔
پرورداگارعالم نے انسان کو پورا اختیاردیا ہے کہ و ہ اس زمین کی ہر چیز کو استعمال کرے لیکن اعتدال کے ساتھ اور اس کو باالکل بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسروں پر ظلم و ستم کرے ۔ لہٰذایہ بات ثابت ہوئی کہ حیاتی تنوع کی سالمیت کا خیال خداوندعالم نے رکھا ہے اور اس میں وحدانیت کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اس کی حفاظت تمام انسانوں پر واجب و لازم ہے ۔
شجرکاری صدقہ جاریہ ہے ۔ صا ف و شفاف ہوا اور ماحول میں پائی جانے والی آلودگی سے تحفظ کے لئے جہاں بہت سے طریقے اور ذرائع موجود ہیں وہیں پر درختوں سے بھےر جنگل اور ان سے نکلنے والی ہوا انسان کے لیے بے حد مفید ہے ۔ قرآن مجید میں نباتات کے نظام کو اللہ اپنی رحمت سے تعبیر کرتا ہے :
يُنبِتُ لَكُم بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالْأَعْنَابَ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿١١﴾ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
’’وہ وہی خدا ہے جس نے آسمان سے پانی نازل کیا ہے جس ایک حصہ پینے والا ہے اورایک حصے سے درخت پیدا ہوتے ہیں جن سے تم جانوروں کو چراتے ہو ۔ وہ تمہارے لئے زراعت ، زیتون ، خرمے ، انگور اور تمام پھل اسی پانی سے پیدا کرتا ہے ۔ اس امر میں بھی صاحبان فکر کے لئے اس کی قدرت کی نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔‘‘
(سورہ نحل، آیت؍۱۱۔ ۱۲)
اس آیت میں درختوں کے وجود کے فائدے بیان کئے گئے ہیں ۔ جانوروں کے لیے چارہ اور درختوں کو ہی بارش کا سببب بیان کیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا ماننا ہے کہ درختوں کی کمی سے بارش میں بھی کمی ہوتی ہے ۔ درختوں کو خداوند عالم اپنی آیت (نشانی)کے طور پر غورو فکر کرنے والوں کے لئے پیش کرر ہا ہے ۔ مخلوقات سے خلق کرنے والے کو پہچانو!
دوسرے مقام پر خدا وند عالم درختوں کے سایہ کو بطور احسان پیش کرر ہاہے :
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلَالًا
’’اللہ ہی نے تمہارے لئے اپنی پیداکردہ چیزوں سے سایے بنائے ہیں۔‘‘
(سورہ نحل، آیت؍ ۸۱)
یہی سبب ہے کہ فقہ جعفریہ میں پھل اور سایہ دار درختوں کے نیچے پیشاب و پائخانہ کرنے کو مکروہ قرار دیا گیا ہے ۔ پھل دار درخت کے نیچے ٹھہرے ہوئے پانی میںپیشاب کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس میں مختلف مخلوقات موجود ہیں جو حیاتی تنوع کی سالمیت کی طرف بھی ایک اشارہ ہے ۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے گھروں کو ااور سیرو سیاحت کی جگہوں کو مختلف قسم کے پھولوں ، پیڑوں اور پودوں سے سجاتے اور سنوارتے ہیں ۔ خداوندعالم نے درختوں اور نباتاب کے ذریعہ اس دنیا کو سجایا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہوتا ہے :
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
’’بے شک! ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دے دیا ہے ۔‘‘
(سورہ کہف، آیت ؍۷)
اس آیت میں’عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً‘ زینت کا لفظ استعمال ہواہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضور پاک ﷺ نے ایک جنگ کے موقع پر جہاں جہاد کے دیگر قوانین وضع کئے جیسے کہ عورتوں کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جائے گی۔ مسموم ہواؤں کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ وہی پر ارشاد فرمایا تھا :’’درختوں کو نہیں کاٹا جائے گا۔‘‘
شجرکاری کو اسلام میں بے انتہا اہمیت دی گئی ہے ۔ لہٰذا کبھی درختوں کو اللہ اپنی نشانی کے طور پر پیش کررہا ہے تو کبھی دنیا کے لیے رونق اور زینت کے طور پر پیش کررہا ہے ۔ لہٰذا جو انسانیت کو فائدہ پہنچائے وہ کام نیکی ہے لیکن بعض نیکیاں ختم ہونے والی ہوتی ہیں اور بعض نیکیاں تب تک انسان کے کام آتی ہیں جب تک وہ نیکی باقی رہتی ہے ۔ شجرکاری بھی انہیں باقی رہ جانے والی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے اور ہر نیکی صدقہ ہوتی ہے ۔ صدقہ کا مفہوم صرف درہم و دینا رپر موقوف نہیں ہے ۔ بلکہ شجرکاری بھی ایک ’’صدقہ جاریہ ‘‘ہے جب تک درخت باقی رہے گا اور اس کی ہوا اور سائے سے لوگ فیض حاصل کریں گے تب تک اس کو اس عمل خیر یعنی صدقہ جاریہ کا ثواب حاصل ہوتا رہے گا۔
غرض آلودگیوں سے پاک صاف متوازن ماحول ، حیاتی تنوع بلکہ پوری کائنات کے تحفظ کی ضمانت ہے ۔ لہٰذا ہمیں اسے باقی رکھنے میں پوری کوشش کرنی چاہئے ۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے تاکہ اس کا نقصان ہم کو اور ہماری آئندہ نسل کو نہ اٹھانا پڑے ۔