۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
خطیب اعظم

حوزه/لہذا امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور مراسم عذا بدرجہ اولیٰ شعائر اللہ میں داخل و شامل ہیں اور قابل تعظیم ہیں اور جس مسلمان کو قرآن مجید پر اپنا ایمان بحال رکھنا ہے اور اپنے کو قبر سے محشر تک عذاب الہیٰ سے محفوظ رکھنا ہے اس کو عزاداری سے متعلق امور  خصوصاً علم و تعزیہ وغیرہ کو قابل تعظیم ماننا ہوگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی | مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ضرور پایا جاتا ہے۔ جو غیر خدا کی تعظیم کو ناجائز جانتا ہے لیکن جو مسلمان بھی قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے قرآن مجید کے صریحی احکام کی مخالفت کرنا در حقیقت قرآن مجید کو جھٹلانا ہے اور قرآن مجید پر سے ایمان اٹھانا ہے۔ اور بیان قرآن مجید کو جھٹلانا کسی مسلمان کے لئے مکن نہیں ہے اگر و ہ مسلمان رہنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید کی چند صراحتیں اس سلسلہ میں درج کی جاتی ہیں۔ مگر صرف آیتوں کا حوالہ دیا جا رہا ہے اور ترجمہ درج کیا جا رہا ہے کیونکہ آج کل عام کاتبوں کے لئے صحیح عربی لکھنا اور قارئین اخبار کا عموماً آیات قرآنی کی حرمت و تعظیم کا قائم رکھنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اکثر اخباروں میں چھپنے والی آیات کی بے حرمتی ہوتی ہے جس کا احساس بھی نہیں کیا جاتا۔

واضح ہو ترجمہ مولانا فرمان علی صاحب قبلہ اعلی اللہ مقاملہ کا پیش کیا جا رہا ہے۔

۱ سورہ حج کی آیت۲۹  میں ارشاد ہے کہ :

" جو شخص خدا کی حرمت والی چیزوں کی تعظیم کرے گا تو یہ اس کے پروردگار کے یہاں اس کے حق میں بہتر ہے۔"

قرآن مجید کی اس تصریح کے بعد حرمت (خدا کی حرمت والی چیزوں) کی تعظیم نہ صرف جائز ہے بلکہ ممدوح و باعث ثواب و عبادت ہے۔

۲ اسی سورہ حج کی آیت ؀۳۱ میں ارشاد ہوتا ہے :

" اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیزگاری سے حاصل ہوتی ہے۔ "

قرآن مجید کی اسی تصریح سے واضح ہے کہ شعائر اللہ (خدا کی نشانیوں) کی تعظیم تقویٰ حقیقی و تقویٰ قلبی ہے۔

۳ اسی سورہ حج کی آیت ؀۳۵ میں ارشاد ہوتا ہے :

" اور قربانی کے (موٹے۔گد بدے) اونٹ بھی ہم نے تمھارے واسطے خدا کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے۔ اس میں تمھاری بہت سی بھلائیاں ہیں "

قرآن مجید کی اس تصریح کی روشنی میں وہ جانور بھی قابل تعظیم ہیں جو حج میں قربان کئے جاتے ہیں۔

۴ سورہ مائدہ کی آیت ؀۳ میں ارشاد ہے :

" اے ایماندارو ! (دیکھو) نہ خدا کی نشانیوں کی بے توقیری کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ قربانی کی اور نہ پٹے والے جانوروں کی (جو نذر خدا کے لئے نشان دے کر منیٰ میں لے جائے جاتے ہیں) اور نہ خانہ کعبہ ( کی طواف و زیارت) کا قصد کرنے والوں کی جو اپنےپروردگار کی خوشنودی اور فضل ( و کرم) کے جویاں ہیں۔"

اس آیت کے سلسلہ میں جناب مولانا فرمان علی صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ نے حاشیہ پر نوٹ لکھا ہے کہ

" حطم بن منذر کندی نے حضرت رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی توحید کی۔ اپنی نبوت ، نماز ، زکوٰۃ کی ۔  وہ بولا میں  مشورہ کر لوں تو عرض کروں۔ غرض وہ چلا آیا۔ اور ایمان نہ لایا۔ طرفہ یہ کہ چلتے چلاتے کچھ صدقے کے اونٹ بھی لوٹتا گیا۔ دوسرے سال حضرتؐ عمر کے واسطے مکہ کو چلے۔ جب وادی نعیم میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ حطم کندی انھیں اونٹوں کی گردنوں میں سنہرے پٹے ڈال کر خانہ کعبہ  کو چلا ہے۔ اصحاب نے عرض کی ہم ایام جاہلیت میں اہیسا اکثر کیا کرتے تھے تب یہ آیت نازل ہوئی ۔"

قرآن مجید کی مندرجہ بالا تصریح اور روایت میں مندرج تشریح سے واضح ہے کہ شعائر خدا کی تعظیم نہ کرنا جاہلیت ہے۔ اسلام نہیں ہے۔ اور شعائر خدا میں وہ مہینے بھی شامل ہیں جن میں جنگ حرام ہے۔ اور قربانی کے جانوروں کے ساتھ ان کی گردنوں میں پڑے ہوئے پٹے بھی شعائر خدا ہیں اور حج و عمرہ کرنے والے افراد بھی شعائر خدا میں ہیں اور ان  سب کی تعظیم حقیقی پرہیزگاری ہے۔ اور ن کی تعظیم نہ کرنا زمانہ کفر کی جاہلیت ہے۔

۵ سورہ بقرہ کی آیت ؀۱۵۸ میں ارشاد ہوتا ہے :

" بیشک (کوہ) صفا اور (کوہ) مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں ۔ پس جو شخص خانہ (کعبہ) کا حج ، یا عمرہ کرے اس پر ان دونوں کے ( درمیان) طواف ( آمد و رفت) کرتے ہیں کچھ گناہ نہیں ( بلکہ ثواب ہے(

مولانا نے حاشیہ پر لکھا ہے :

" صفا اور مروہ مکہ میں دو پہاڑیاں ہیں۔ جب حضرت ابراہیمؐ بے حضرت ہاجرہ اور حجرت اسماعیلؐ کو وہں لا بٹھایا تھا۔ اور حضرت ہاجرہ اپنے بیٹے کی پیاس سے بےچین ہو کر کئی مرتبہ انھیں دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑی تھیں۔ اس کی یادگار میں یہ ارکان حج سے قرار دیا گیا مگر قبل عروج اسلام چونکہ یہاں بت رکھے ہوئے تھے اس وجہ سے بعض مسلمانوں کو یہ خیلا پیدا ہوا کہ شاید انھیں کی وجہ سے ہے اور کچھ جھجھکنے لگے اس وجہ سے خدا نے یہ آیت نازل کی۔

مندرجہ بالاتصریح قرآن مجید سے واضح ہے کہ پہاڑیاں بھی قابل تعظیم ہیں اور ان کے درمیان دوڑنا حج و عمرہ میں ضروری ہے کیونکہ جناب ہاجرہ ذبیح اللہ جناب اسماعیلؐ کے لئے یہاں دوڑی تھیں۔

جناب اسماعیلؐ ذبیح اللہ ہیں اور جناب امام حسین علیہ السلام  ذبح عظیم ہیں جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور جس کی صراحت تفسیر و حدیث میں ہے۔

لہذا امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور مراسم عذا بدرجہ اولیٰ شعائر اللہ میں داخل و شامل ہیں اور قابل تعظیم ہیں اور جس مسلمان کو قرآن مجید پر اپنا ایمان بحال رکھنا ہے اور اپنے کو قبر سے محشر تک عذاب الہیٰ سے محفوظ رکھنا ہے اس کو عزاداری سے متعلق امور  خصوصاً علم و تعزیہ وغیرہ کو قابل تعظیم ماننا ہوگا۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہم کو اپنے دین ( دین اہلبیت علیہم السلام) پر ایمان لانے کی توفیق دی اور ہماری خدا کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہم کو اس دین پر مرتے دم تک ثابت قدم رکھے اور ہمارے ایمان و عمل کو شرف قبولیت بخشے۔

مقالات خطیب اعظم رہ 

جلد 4 صفحہ 82

ناشر: تنظیم المکاتب لکھنو

از قلم: خطیب اعظم، بانی تنظیم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • علی IR 00:39 - 2020/08/24
    0 0
    بہت عمده