۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
News ID: 362140
20 اگست 2020 - 23:56
عزاداروں کے درجات

حوزہ/ مومنین کی طرح عزاداروں کے بھی مختلف مراتب اور درجات ہیں، جو کہ ہر انسان میں ان کی سوچ، فکر اور نظریہ کے مطابق ہوتے ہیں۔البتہ یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ عزاداری کا ہر درجہ اپنے لحاظ سے ثواب کا حامل ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | عزاداروں کے درجات اور ان کے مقام، مومنین کی طرح عزاداروں کے بھی مختلف مراتب اور درجات ہیں، جو کہ ہر انسان میں ان کی سوچ، فکر اور نظریہ کے مطابق ہوتے ہیں۔البتہ یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ عزاداری کا ہر درجہ اپنے لحاظ سے ثواب کا حامل ہے۔

عزاداری کا پہلا درجہ

اس درجہ  میں، عزادار اپنے دل کو حضرت امام حسین علیہ السلام پر وارد ہونے والی مصیبتوں سے غمگین کرتا ہے، اگرچہ عمومااس کا اظہار نہیں کرتا رہتا، لیکن مغموم ضرور ہوتا ہے، یہ عزاداری کا سب سے پہلا درجہ ہے، اس سے کمترین درجہ مولا حسین علیہ السلام کے دشمنوں کا درجہ ہے، یعنی اس درجہ میں وہ شخص امام حسین علیہ السلام کے مصائب سے آگاہ تو ہوتا ہے  لیکن غمگین نہیں بلکہ راضی ہوتا ہے۔ 

جس دین سے بھی تعلق رکھتے ہوں، عزاداری کے اس درجہ سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ ان کے دل امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کے لیے غمگین ہوتے ہیں، لہذا پروردگار عالم کے نزدیک ان کے اپنے عقیدہ کی مناسبت سے ثواب کے حق دار ہیں۔

عزاداری کا دوسرا درجہ

اس مقام میں عزادار، اپنے غم و غصہ کا اظہار مختلف صورتوں میں کرتا ہے، جیسے  چہرہ پر غم کے آثار، رونے اور رونے کی شکل بنانا، گریہ و بکا کرنا، سیاہ لباس پہننا ، ماتم داری کرنا وغیرہ۔  کبھی تنہا اور کبھی مجمع میں اس کا اظہار کرتا ہے۔ 

ہندو، یہودی، مسیحی یعنی عیسائی اور دوسرے ادیان سے تعلق رکھنے والے افراد جو امام حسین علیہ السلام کے لیے گریہ و بکا کرنے ہیں ، اس دائرے میں شامل ہیں، امام حسین علیہ السلام ان کے لیے جانی پہچانی شخصیت تو ہیں لیکن معرفت کے بغیر۔ حقیقت یہ ہے تمام ائمہ معصومین علیہم السلام بالخصوص حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کی تجلیاں تمام انسانوں کے وجود میں فطری طور پر جلوہ گر ہوتی ہیں، جس کی وضاحت ان شاءاللہ بعد میں کریں گے۔

عزاداری کا تیسرا درجہ

اس درجہ کا زیادہ تر تعلق مولا حسین علیہ السلام کے شیعوں سے ہے، عزادار، عزاداری کے ساتھ ساتھ  حضرت سید الشہداء علیہ السلام اور ان کے جانثار اصحاب پر ہونے والے ظلم و ستم کرنے والوں سے نفرت کا اظہار بھی کرتے ۔  جو چیز عزاداری کے دوسرے سے تیسرے درجے اور مقام تک پہنچنے کا باعث بنتی ہے وہ ہے ’’معرفت‘‘ جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات کے بارے میں رکھتا ہے۔ عزاداری کے اس درجے میں عزادار ثواب حاصل کرنے، حاجات کی برآوری اور ادب و احترام  کی نیت سے عزاداری انجام دیتا ہے۔

ان تینوں درجات میں جو چیز واضح طور پر دکھائی دیتی ہے وہ ’’احساس اور جذبہ انسانیت‘‘ ہے۔ مجالس، نوحے اور سینہ زنی اس کا بہترین ثبوت ہیں۔  

عزادری کے تیسرے درجے کی مشکلات

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عزاداری میں ہونے والی تحریف اور بدعتیں جو کہ حقیقی فلسفہ عزاداری کے منافی ہیں،  وجود میں آئیں۔ جب فقط رونا عزاداری کا ہدف بن جائے تو شیطانی اور نفسانی وسوسے تحریف اور جھوٹ بولنے پر آمادہ کرتے ہیں، اسی طرح جاہلانہ اور مشرکانہ اشعار کا سہارا لینا پڑتا ہے جس کی وجہ سے مقصد قیام حسینی ؑ سے دور ہوجاتے ہیں۔ 

گریہ و ماتم داری تو ہوتا ہے، لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام کے درسِ حریت کو بھول گئے، جذبات تو اس قدر کہ جلوس و مجالس میں تعطیل ممکن نہیں، لیکن عمل و معرفت سے اتنا ہی دور ہوتے جارہے ہیں۔ اسی طرح کی مجالس و عزاداری تو یزید اور یزید صفت افراد کو نہیں للکار سکتیں، اس طرح کی عزاداری سے ظالم و جابر حکمران کو کوئی سروکار نہیں ہوتا، بلکہ وہ خود بھی شرکت کرتے ہیں اور باقاعدہ اہتمام بھی کرتے ہیں۔ نادان دوست اور شیعہ دھوکے میں آکر مخلص شمار کرتے ہیں۔ حالانکہ انہیں مکتب حسینی  ؑ کی ترویج کے لیے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

عزاداری کا چوتھا درجہ

(چہاردہ معصومین علیہم السلام کی معرفت اور ان کے مصائب کا ادراک)

یہ درجہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے حقیقی عزاداروں اور شیعوں کا ہے،  بنیادی طور پر جو چیز عزاداری کے تیسرے درجے (جو کہ مسلمانوں اور غیر مسلم میں مشترک ہے)  سے چوتھے درجے  تک پہنچنے کا ذریعہ بنتا ہے وہ ان کی دنیا کے دوسرے افراد کے مقابلے میں باطنی پاکیزگی اور محبت و معرفت کی بلندی ہے۔

عزادار، عزاداری کے تیسرے مقام اور درجے میں امام حسین علیہ السلام ، ان کے خاندان اور اصحاب بافا کی عظمت کے معراج کو دیکھتے ہوئے محسوس  کرتا ہے کہ اسے فقط یہاں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، یہاں تک کہ  محمد و آل محمد علیہم السلام کی معرفت کی پیاس بجھانے کے لیے  عملی میدان میں آتا ہے اور فقط صالح نہیں بلکہ اصلاح طلب بن کر نمودار ہوتا ہے جو کہ امام حسین علیہ السلام کا شعار تھا: ’’ وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى‘‘ میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے قیام کررہا ہوں۔ (بحارالانوار جلد۴۴ صفحہ۳۲۹)

تحریر: مولانا مھدی خراسانی فاضل 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .