حوزہ نیوز ایجنسیlحالیہ دنوں جب سے عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے تو دنیا بھر کی طرح پاکستان کے عوام بھی اس معاہدے کو فلسطینیوں کے ساتھ خیانت تصور کر رہے ہیں، کیونکہ اس معاہدے کے اگلے ہی روز جمعہ کا دن تھا اور فلسطینیوں نے بڑی تعداد میں بیت المقدس میں نماز جمعہ کے بعد جمع ہو کر جو احتجاجی مظاہرہ کیا، اس میں ایک ہی نعرہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا ’’خائن" اور اس پر عرب امارات کے حاکم کی تصویر چسپاں کر رکھی تھی۔ فلسطینیوں نے عرب امارات کے حکمرانوں کی تصاویر کو بھی نذر آتش کیا۔ ان حالات کو دیکھ کر دنیا کے عوام بھی فلسطینی عوام کی حمایت میں اسی نعرے کی حمایت کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ ’’اسرائیل تعلقات خیانت‘‘ ٹاپ پر چلا گیا۔
پاکستان کے عوام نے جہاں اپنا ردعمل دیا، وہاں پاکستان کے سیاسی اور دانشور سمجھی جانے والی شخصیات نے بھی ردعمل دیا اور ایسے عناصر جو پاکستان پر دباو بنانے کی پالیسی کے آلہ کار ہیں، انہوں نے کہا کہ جب عرب حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کر رہی ہیں تو پاکستان کو تسلیم کرنے میں کیا قباحت ہے۔ اسی طرح چند اور دانشور حضرات نے تو یہاں تک بھی ارواښاد پوچھنا شروع کر دیا کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا کیا نقصان ہے۔ اب اس کے بعد کچھ اور دانشور عناصر نکلے اور انہوں نے تو پاکستان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کے فوائد بھی بیان کرنا شروع کر دیئے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے جناب خورشید قصوری صاحب نے تو حد ہی کر ڈالی اور کہا کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سے پاکستان کو سائنٹفک ترقی ملے گی اور پاکستان کی زراعت کو بھی ترقی حاصل ہوگی۔ قربان جایئے اس سادگی پر بھی۔ اس سے پہلے جنرل (ر) امجد شعیب اور اس طرح کے دیگر معززین پاکستان بھی ایسی ہی باتیں کرچکے ہیں کہ پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات سے اسلحہ کی ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی حاصل ہو جائے گی، فلاں فلاں وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان کے یہ تمام دانشور عناصر مل کر بھی کئی برس سے پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ایک بھی فائدہ بیان نہیں کرسکے جو کہ عملی شکل کا ہو۔
اب آیئے قائد اعظم محمد علی جناح کی بات کرتے ہیں کہ جنہوں نے فلسطین پر قبضہ کرنے کی صہیونی تحریک کے آغاز پر ہی فلسطینی عوام کی حمایت اور اسرائیل کے قیام کو ایک ناجائز قیام قرار دیا تھا اور بعد ازاں جب 1948ء میں فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل نامی ریاست قائم بھی کر دی گئی تو بابائے قوم نے واضح الفاظ میں اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ کہا۔ اب پاکستان کے ان تمام اسرائیل حمایت یافتہ دانشوروں سے کہنا چاہیئے کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی جذباتی کہہ دیں یا پھر یہ کہ یہ شخصیات قائد اعظم سے بھی زیادہ سمجھ بوجھ رکھتی ہیں، فیصلہ آپ خود کر لیں۔ کیا علامہ اقبال جیسی عظیم و بلند شخصیت کو بھی جذباتی کہا جائے گا کہ جنہوں نے بابائے قوم کو خطوط لکھ کر فلسطین کے لئے قرارداد منظور کرنے کی درخواست کی اور یہاں تک بھی کہا کہ اگر فلسطین کے لئے چلائی گئی تحریک میں مجھے جیل بھی جانا پڑا تو میں تیار ہوں، تو کیا علامہ اقبال جو کہ مفکر اعظم ہیں، ان کو جذباتی کہا جائے گا۔
اب آیئے اگر اسرائیل سے تعلقات کا کوئی ایک بھی فائدہ ہوتا تو قیام پاکستان کے بعد کا پاکستان کیا آج کے پاکستان سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور تھا، کیا 1947ء اور 1948ء کا پاکستان آج کے پاکستان سے زیادہ طاقت رکھتا تھا۔ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو پھر قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، محمد علی جوہر اور دیگر زیرک قائدین نے اس بات کو ترجیح کیوں نہ دی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات ارواښاد قائم کر لیں اور ترقی حاصل کر لیں۔ کیا بانیان پاکستان کا فیصلہ غلط تھا یا آج کے ان دانشوروں اور سیاست مداروں کا فیصلہ عقلی اور منطقی ہے۔ اس بات کا فیصلہ بھی آپ پر چھوڑ دیتا ہوں۔ اب آیئے ان دانشوروں کے بتائے گئے فوائد کی بات کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے ہم طاقتور ہو جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم 1973ء میں کمزور تھے کہ جب ہماری پاک فضائیہ کے پائیلٹس نے شامی جہازوں کو اڑاتے ہوئے اسرائیلی جنگی جہازوں کو تباہ کر دیا تھا یا یہ کہ آج ہم واقعی بہت کمزور ہیں اور اسرائیل ہی ہماری زندگی کی آخری امید ہے، نوجوانوں کو سوچنے کی فکر دیتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں۔
اب آیئے ذرا ان ممالک کی بات کر لیتے ہیں، جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات بھی ہیں۔ ترکی نے اسلامی دنیا میں سب سے پہلے اسرائیل کو 1949ء میں ہی تسلیم کر لیا تھا تو کیا آج ترکی اسرائیل کی بدولت محفوظ اور طاقتور ہے یا یہ کہ ترکی کے وہ تمام مقاصد حاصل ہوچکے ہیں، جو وہ اسرائیل کو تسلیم کرکے لینا چاہتا تھا۔ مصر نے بھی 1978ء کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد اسرائیل کو 1979ء میں تسلیم کیا تھا تو کیا آج مصر وہی پہلے والا مصر ہے یا یہ کہ مصر کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ اگر اسرائیل پاکستان کا مسیحا ہے تو پھر مصر کا کیوں نہیں ہوا۔ مصر کی حالت آج کیوں زبوں حالی کا شکار ہے۔ اردن کی بات کر لیتے ہیں تو اردن نے بھی 1994ء میں اسرائیل کو تسلیم کیا تو کیا آج اردن محفوظ ہوگیا ہے یا یہ کہ آج اردن کو اسرائیل سے پہلے کی نسبت زیادہ خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے لمحہ فکریہ چھوڑتے ہوئے اس نقطہ سے بھی آگے بڑھتا ہوں۔
اب آیئے خود فلسطینیوں کی بات کرتے ہیں۔ جی ہاں بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں نے بھی تو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کئے۔ البتہ ان مذاکرات کو کروانے میں جہاں چند خیانت کاروں کی ہی سازش تھی، البتہ پی ایل او نے جب مذاکرات کئے تو پھر یاسر عرفات کے ساتھ اسرائیل نے کیا انجام کیا۔ ان کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا تو اب یہ دانشور یہ بتانا پسند کیوں نہیں کرتے کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا دھوکہ فلسطینیوں کے لئے ایک عذاب سے کم نہ تھا، جس کی وجہ سے ان کی مزید زمینوں پر قبضہ ہوتا چلا گیا اور مشکلات میں اضافہ ہوتا رہا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے ہیں تو یہ منطقی دلیل نہیں ہے کہ پاکستان یا کوئی اور ملک بھی اس بات کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ فلسطین سے متعلق ہمیں فلسطینیوں کی رائے اور ان کی خواہشات کے مطابق چلنا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح تحریک پاکستان کے وقت مفتی اعظم فلسطین کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعہ رابطہ میں تھے اور آپ کا موقف وہی موقف تھا، جو فلسطینیوں کا موقف تھا اور ان کی حمایت کا سبب بنتا تھا، تاہم اگر آج کوئی عرب یا غیر عرب حکومت فلسطینیوں کی خواہشات کے برعکس چلنا چاہتی ہے تو اس کو یقیناً خیانت کہا جائے گا۔ ہم بطور پاکستان حکومت اور عوام فلسطین کاز کی حمایت بانیان پاکستان کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق اور فلسطینیوں کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق کر رہے ہیں۔ ہم فلسطین کی حمایت میں ان سے آگے نہیں نکل سکتے اور کسی اور کو بھی آگے نہیں نکلنا چاہیئے بلکہ فلسطینیوں کی پشت پر رہتے ہوئے اصولی موقف اپنا نا چاہیئے۔ وزیراعظم پاکستان نے اس موقع پر قائد اعظم کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی ہے، جس پر ان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیئے۔
یہ بات جان لیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں اگر ایک بھی فائدہ ہوتا تو یقیناً بانیان پاکستان قیام پاکستان کے بعد اس کام کو انجام دے چکے ہوتے۔ لہذا ہمیں ان خود ساختہ دانشوروں اور سیاست مداروں کے بھنور سے نکلنا چاہیئے کہ جن کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف نام و نمود اور دولت ہتھیانا ہے اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر امت اور قوم کو بھی داءو پر لگانا ہے۔ یہ بات بھی جان لیجئے کہ اگر چند خیانت کاروں کی باتوں کا اثر لے کر ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لیں تو پھر مجھے بتائیں کہ ہم کشمیر کی آزادی کے لئے کس منہ سے جدوجہد کریں گے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے مودی کو کلین چٹ دے دی۔ مودی اور نیتن یاہو دونوں ایک ہی جیسے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ لہذا اگر ہمیں کشمیر کی جدوجہد آزادی جاری رکھنی ہے تو پھر فلسطین کی جدوجہد آزادی بھی جاری رکھنا ہوگی اور اس کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل نامنظور پالیسی کو جاری رکھنا ہوگا۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاونڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔