حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ادیب، خطیب، محقق و مترجم حجة الالسلام والمسلمین عالیجناب مولانا حسن عباس فطرت نے اس دار فای کو الوداع کہا،نہایت افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جارہی ہے کہ آج ہندوستان کے مشہور عالم و صاحب قلم حجة الاسلام مولانا حسن عباس فطرت طاب ثراہ نے کچھ دیر پہلےدارفانی کو وداع کہا۔
مولانا مرحوم ہلّور کے رہنے والے تھے،مولانا روشن علی صاحب مرحوم اور مولانا ذیشان حیدر جوادی صاحب مرحوم کے ہم عصر مدرسہ ناظميه لكهنؤ سے تعلیم حاصل فرمائی،بہت عرصے تک ممبئی میں قیام فرمایا انقلاب کے بعد ایران تشریف لائے بہت سی کتابوں کا ترجمہ فرمایا اور پھر پونہ میں مستقل قیام رہا۔
واضح رہے کہ مولانا کا شمار هندوستان کے طراز اول علماء میں ہوتا تھا آپ بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ہی لاجواب ادیب تھے ہندوستان میں آپ کی خدمات قابل قدر ہیں خصوصاً شہر پونے میں آپکی سکونت سے اس شہر کو علمی اور مذہبی تشخص حاصل ہوا۔
مولانا، صاحب طرز شاعر ہونے کے ساتھ بہترین ادیب تھے اور آپ کے قلم کا زمانہ قائل تھا، بطور نمونہ ہم یہاں آپکے قلم سے نکلے رشحات کا ایک حصہ منتشر کرتے ہیں:....
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ باطل دوبارہ اپنے بدن کی مٹی جھاڑ کردوسرابہروپ بھرکر حق کے مقابل کھڑا ہوجاتارہاہے۔ دوسرے لفظوں میں باطل نئے چہرہ وپیکرکے ساتھ حق کے سامنے آتااورشکست کھانے کے بعد دوسرا چہرہ،دوسرابھیس بدل کرنام ومقام کی تبدیلی کے بعد پھراٹھ کھڑاہوتاتھا۔لیکن سنہ 61ہجری میں امام حسینؑ کے مقابلے میں باطل کاجونمائندہ آیاوہ ایک نہیں ہزارچہرہ رکھتاتھا ۔جس کا غازہ فسق وفجور،فتنہ وفساد،کفرونفاق تھا۔اسلئے آپ ؑ کاموقف ومنصب بھی حق کے نمائندوں میں سب سے بلندتھا۔حسینؑ کوباطل پرایسی ضرب لگانی تھی جواس کے تمام پندار وغرور کوہمیشہ کیلئے ختم کردے ۔ایسی شکست کہ باطل کی کمر ہمیشہ کیلئے ٹوٹ جائے اس کے کروفرکاخاتمہ ہوجائے۔
یہاں یہ بات تعجب انگیز نہیں کہ پیغمبراسلامؐ کی رحلت کے پچاس سال بعدہی ایسا انقلاب کیسے آگیااورآپکے منبر پربندروں کوجگہ دی جانے لگی ۔پیغمبرامن ورحمت عربستان ظلم وجور کی سیاہ آندھیوں کالقمہ بن گیاجاہلیت کے سارے آداب واطوار ترقی یافتہ صورت میں معاشرہ کازیور بن گئے بلکہ حیرت یہ ہے کہ صرف لہو کی دھارسے امام حسینؑ نے اس سیلاب کودفع کیسے کیا۔آپ سے پہلے خون نے یہ تاثیر نہیں پائی تھی۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت عظمیٰ کوساڑھے تیرہ سوبرس گذرچکے ہیں ۔یہ مدت کچھ کم طویل نہیں کہ اس درمیان زمانے نے باربار کروٹ لی، دنیا اتھل اتھل ہوئی نہ جانے کتنے انقلابات نے دنیاکوتہ وبالا کیا، رسم ورواج ،رنگ ڈھنگ ،ذہن وفکر میں تہلکہ مچایا،بلندپست ہوئے اورپست بلند،نیکی کاشمار بدی میں اوربدی کونیکی میں گناجانے لگایوں کہئے کہ ساری زندگی کاڈھانچہ اس مشین کے سارے کل پرزے بدل گئے ۔قدریں ٹوٹ پھوٹ گئیں مگرکیاہے کہ آج لفظ شہید وشہادت کی چمک دمک ماندپڑی نہ حسینؑ کی عظمت کے رنگارنگ فانوس سے چھن چھن کرآنے والی روشنی مدھم ہوئی بلکہ یہ کہنازیادہ بہترہوگاکہ جیوں جیوں زمانہ گذرتاجارہاہے شہادت عزیز وبلند رتبہ ہوتی جارہی ہے اور حسینؑ کی عظمت کے میناروں کو دور دور سے دیکھاجانے لگاہے،اوریہ ماناجانے ہے کہ حق وباطل کے ٹکراؤ ہی سے زندگی کاآب ورنگ باقی ہے اوریہ کشمکش ازل سے جاری ہے۔
بقول اقبال: ستیزہ کارہاہے ازل سے تاامروز چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
آدم وابلیس سے اس کشمکش کاآغاز ہوتاہے اوروہ خلیل ونمرود وکلیم وفرعون سے ہوتی ہوئی مصطفیؐ وابولہب تک پہنچتی ہے ۔یہ سچ ہے کہ ہربار ہرجگہ باطل تلوار، نیزہ وشمشیر پرغلبہ پایاتھا۔حسینؑ کااسلحہ صبر اورسرخ موت تھا۔شہادت پرشہادت ،ہرسن سال کے مردوں کی شہادت ،بچوں ،بوڑھوں کی شہادت ننھے شیرخوارکی شہادت آپؑ کاایسا حربہ تھا جس نے قیامت تک کیلئے یزید ویزیدیت کورسواکردیا۔اسلام کوحیات جاویدبخشدی اورآپ کایہ جہاد ہمیشہ کیلئے اسلام کامدافع بن گیا۔یہی نہیں بلکہ آپ کا اسوہ ہرمجبور ومقہور قوم کیلئے نمونہ عمل بن گیا،اوروہ یہ کہ ہوسکے توظلم کودفع کرو ورنہ جان نچھاور کرکے عدل وانصاف کی حمایت کرو حسینؑ نے یہی کہا اورکیا آج دنیا میں عزم حسینی ؑ کاڈنکہ بج رہاہے مظلوموں کیلئے حسین ؑ بہت بڑاسہاراہے اورجب جب ظلم کی گھٹائیں اٹھی ہیں حسینؑ کے جہاد عزم کویاد رکھنے والے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اورظلم کے پرخچے اڑادئے ہیں انقلاب اسلامی ایران اس کی تازہ مثال ہے، جہاں نہتے ،مجبور،مظلوم انسانوں نے جان کانذرانہ دیکر حق عدالت کوواپس لانے میں کامیابی حاصل کی ہے اورانھوں نے اقرار کیاہے کہ ہمیں سارا حوصلہ حسینؑ عاشورہ وکربلانے بخشاہے۔
افسوس کہ ان شہپاروں کا خالق اب ہمارے درمیان نہ رہا، آپ ہفتہ وار صداقت کے چیف ایڈیٹر، مدرسے کے مدیر اور استاد بھی تھے اور دنیا بھر میں آپکے لائق شاگرد مصروف عمل ہیں جو آج سوگوار ہوگئے۔
مولاناحسن عباس فطرت وثیقہ عربک کالج(فیض آباد) کے طالب علم رہے اورجامعہ ناظمیہ (لکھنؤ) کے ’ممتاز الافاضل‘ بھی تھے۔ انہوں نے بمبئی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور پھر اِسی جامعہ میں انہوں نے عربی کادرس بھی دِیا۔
ہر چند کہ اُن کا اصل میدان مذہب ہی تھا مگر وہ عام علما کی طرح صرف منبر نشیں یا علم کےکسی ایک شعبے میں محدود نہیں رہے۔ وہ اچھا خاصا ادبی ذوق اور سیاسی شعور رکھتے تھے۔ انہوں نے کوئی تیس برس قبل روزنامہ انقلاب (ممبئی)،ہفت روزہ بلٹز(ممبئی) اور دیگر جرائد و اخبارات میں تواتر سے سیاسی و مذہبی اور ادَبی مضامین لکھے۔
روزنامہ انقلاب میں خاصی مدت تک اُن کا ادبی کالم ’’کتبصرہ‘‘اور پھر’’ رفتارِ زمانہ‘‘ شائع ہوتا رہا، وہ ایک سلجھے مزاج کے حامل اور اتحاد المسلمین کے نہ صرف قائل بلکہ اسکے مبلغ بھی تھے۔ پاسدارانِ انقلاب اسلامی ایران کی دَعوت پر وہ ایران آئے اور حوزۂ علمیہ قم کے ادارۂ تحقیق و ترجمہ کے شعبہ ٔ اُردو کے صدر بنائے گئے۔ وہ مشہورانجمن’وظیفۂ سادات ومومنین‘ سے بھی وابستہ رہے بلکہ اس کے مقامی ناظم بھی مقرر ہوئے۔ مڈغاسکر(افریقہ) میں اُن کی کوششوں سے ایک مدرسے کا احیاء بھی ہوا۔ وہ کم و بیش دو دَہوں سے پونے میں مقیم تھے جہاں اُنہوں نے طویل علالت کے بعد آج آخری سانس لی۔ پونے سے اُنہوں نے ایک ہفت روزہ ’’صداقت‘‘ بھی جاری کیا جو اب قیصر رضا حسینی کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔مولاناحسن عباس فطرت نے ممبئی کی خوجہ اثنا عشری مسجد میں’’خطیب و امامِ جمعہ‘‘ کے فرائض بھی انجام دِیے اور بیس برس پونے میں امامِ جمعہ رہے۔ انہوں نےتصنیف و تالیف کا کام اخیر تک جاری رکھا۔
مرحوم کی کچھ کتابوں کے نام اس طرح ہیں: بیاں اپنا، افریقہ سرخ و سیاہ، چشمۂ آفتاب، جینے کا سلیقہ، امام خمینی بے مثال رہبر، ارمغان مقالات، اس کے علاوہ انہوں نےکئی کتابوں کے تراجم بھی کیے۔ انھیں زینبیہ ایوارڈ(ممبئی)، شہید مطہری ایوارڈ(دہلی) اور محسنِ ادب(پونے) جیسے اعزازات سے بھی سرفراز کیا گیا۔
ان کے پسماندگان میں ایک بیٹا (جو بسلسلۂ ملازمت ملک سے باہر ہے) اور ایک بیٹی ہے، اُن کی ایک بیٹی سالِ گزشتہ انتقال کر گئی تھی۔