۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
مولانا ضیغم و مرحوم فطرت صاحب

حوزہ/انسان اپنی پوری زندگی میں بہت سے کام کرتا ہے مرنا بھی ایک اہم کام ہے سو جناب وہ بھی کرچکے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| 

کیا کروں ؟کہاں سے شروع کروں؟ 
حسین یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے  
قبلہ کی شفقتوں اور محبتوں کو کبھی بھلا نہیں سکوں گا. 
90 کی دہائی کے وسط میں جامعۃ الامام امیر المؤمنین(ع) نجی ہاؤس میں دوران تعلیم،قبلہ اکثر و بیشتر جامعہ میں تشریف لایا کرتے تھے. اگرچہ قبلہ کی تحریروں سے پہلے ہی سے مانوس تھا روزنامہ انقلاب میں آپ کے شاہکار مضامین اور دیگر علمی ادبی رسائل و جرائد میں شائع آپکی تحریروں،اخبار صداقت اور آپ کے ترجموں سے واقفیت تھی اور اسی وجہ آپ کی قدآور شخصیت کا رعب ہمارے اوپر طاری تھا. لیکن جامعہ میں آپ سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ رعب اپنے آپ جاتا رہا کیوں کے قبلہ ایسی مرنجاں مرنج اور زندہ دل شخصیت تھے کہ تھوڑی ہی دیر میں غیروں کو بھی اپنا بنانا جانتے تھے۔
پہلی ملاقات کے بعد ایسی قربت بڑھی کی بڑھتی ہی چلی گئی اس زمانے میں آپ جب بھی بمبئی آتے تو حقیر کو ضرور خبر کرواتے اور آپ کا قیام بھائکلہ والے گھر میں ہوتا.
حقیر ہمیشہ آپ کی خدمت میں رہتا تھا یہاں تک میں ایران چلا گیا ایران کے دوران قیام جب بھی آپ کا ایران آنا ہوا مجھے ضرور مطلع کیا اور ایک دفعہ تو آپ کے ایران سے واپسی پر میں مہرآباد ہوائی اڈے تہران پر آپ کو رخصت کرنے گیا آپ کے ساتھ آپ کی زوجہ بھی تھیں اور ایران ایر سے آپ کا واپسی کا ٹکٹ تھا اتفاق یہ ہوا کہ جب ہم ہوائی اڈے پہونچے تو ان دونوں کا ویزہ چند گھنٹے قبل ختم ہوچکا تھا اور اس کا علم اسوقت ہوا جب ہم لوگ بورڈنگ کاؤنٹر پر پہونچے خیر حقیر نے تھوڑی سی تگ و دو کے بعد یہ مسئلہ حل کروایا مجھے یاد ہے کے مرحوم اس واقعہ سے اتنا خوش ہوئے بے ساختہ مجھے گلے سے لگایا لیا اور بہت دعائیں دیں. 
میں ایران سے واپسی پر تبلیغی سلسلہ سے پونے پہونچا تو میں نے قبلہ کو ٹیلیفون کیا اور اپنی آمد کی اطلاع دی تو قبلہ بہت خوش ہوئے اور میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور اسکے بعد اکثر و بیشتر دن کے اوقات حقیر کے یہاں تشریف لاتے اور پورا دن یہیں گزارتے اور شام کو اپنے شریعت کدہ پر واپس ہوتے اور ہمیشہ کہتے کہ تمہارے یہاں بہت سکون ملتا ہے۔
مجھے یاد ہے جب آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو ہم لوگ پونہ کے قبرستان جنت آباد پہونچے غسل و کفن ہورہا تھا میں قبلہ کے پاس ہی بیٹھا تھا اتنے میں ایک صاحب آئے اور قبلہ سے گویا ہوئے کہ جنازہ بس آمادہ ہوا چاہتا ہے نماز سے پہلے کسی سے مختصر مجلس پڑھوانا ہے کس سے پڑھوائیں؟ قبلہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور ان صاحب سے کہا یہ میرا بیٹا پڑھیگا یہ مجلس. اور پھر حقیر نے مجلس پڑھی۔
پونے قیام کے دوران قبلہ سے بہت قربت رہی تقریباً 5برس پونے میں رہنے کے بعد جب حقیر نے پونے کو خیرباد کہ کر ممبئی کا رخ کیا تو قبلہ نے مجھے ٹیلیفون کیا اور بہت ناراضگی اور خفگی کا اظہار کیا۔
ہائے افسوس ادھر کچھ دنوں سے میں انسے رابطہ نہیں کرپایا تھا. اور آج انکے انتقال کی خبر سنی.. دل پاش پاش ہوگیا. .چاہ کر بھی آپ کی تدفین میں شریک نہیں ہوسکتا. 
ابھی اپنی کتابوں کی الماری سے آپ کے مضامین کی کچھ کتابیں نکالیں جسمیں سر فہرست *بیاں اپنا* نامی کتاب بھی ہے یہ کتابیں قبلہ نے ہی حقیر کو بطور تحفہ عطا کی تھیں. ان کتابوں کو دیکھا تو دل رونے لگا.. ہائے اب کہاں ہیں ایسے قلمکار. 
بہترین عالم،ادیب،مدبر، صحافی اور مترجم اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔
 
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ایک دفعہ میں نے قبلہ سے کسی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے بےساختہ کہا کے "مرچکے" میں نے وضاحت دریافت کی تو فرمایا کہ انسان اپنی پوری زندگی میں بہت سے کام کرتا ہے مرنا بھی ایک اہم کام ہے سو جناب وہ بھی کرچکے۔
ایک بار خود قبلہ کی طبیعت دریافت کی تو فرمانے لگے کہ "کیا بتاؤں مرنے کی بہترین عمر نکل گئی اب تو اضافی جی رہا ہوں"
اس طرح کی نجانے کتنی یادیں ہیں جو قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔
آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ 
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں 

یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور سامنے مرحوم و مغفور کا مسکراتا چہرہ بار بار ابھر آتا ہے. اب تو بس یادیں ہی ہیں۔

غم نصیب؛ سید ضیغم عباس زیدی 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .