حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں بابائے قوم کا واضح فرمان ہے کہ اسرائیل امت مسلمہ کے قلب میں خنجر کے مترادف ہے، جب بابائے قوم ایک بھی یہودی کے سرزمین انبیاء پر آباد ہونے کے حق میں نہیں تھے تو چہ جائیکہ غاصب ریاست؟ قرارداد پاکستان کے ساتھ قرارداد فلسطین کا منظور ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان ہمیشہ سے دوٹوک اور واضح موقف رہاہے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے نام نہاد ''ابراہم معاہدہ'' کی ناکامی کے بعد نئے سرے سے بعض اسلامی ممالک کیساتھ اسرائیلی رسمی و غیر رسمی تعلقات ، حالیہ بیانات اور دفتر خارجہ کے ردعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان نے روز اول سے واضح ، دوٹوک اور غیر مبہم موقف روز روشن کی طرح عیاں ہے جوبابائے قوم کے فرمودات کی روشنی میں بالکل واضح انداز میں ہر دور میں ریاست پاکستان اور عوام پاکستان کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
انہوں نے بابائے قوم کے الفاظ دہراتے ہوئے حضرت قائد اعظم نے عالم اسلام اور باالخصوص عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ''اپنے حقوق کیلئے ڈٹ جائیں اور خبردار ایک یہودی کو بھی فلسطین میں داخل نہ ہونے دیں یہ امت کے قلب میں خنجر گھسایاگیا ہے، یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کریگا''جبکہ 23مارچ 1940 ء کو مینار پاکستان کے مقام پر قرارداد پاکستان کے ساتھ یکجہتی فلسطین کی قرارداد منظور ہونا بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔
واضح رہے کہ قائد اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ ہمیشہ فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتے رہے،فلسطین کی حمایت میں 1933 تا 1946ء تک تقریباً 18 قرار دادیں منظور کی گئیں دوسری طرف بابائے قوم نے آل پاکستان مسلم لیگ کے اجلاسوں کے ساتھ اس وقت کے مفتی اعظم فلسطین، برطانوی وزرائے اعظم سمیت عالمی رہنماؤں کے ساتھ خط و کتابت اور اہم مواقع پر ہمیشہ نہ صرف مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا بلکہ آج سے 7دہائیاں قبل غاصب ریاست کی تباہ کاریوں کی پیش گوئی بھی اسی طرح کردی تھی۔
بانی پاکستان نے خود عربوں کو کہاکہ اپنے حقوق کیلئے ڈٹ جائیں مگر افسوس آج دنیا انبیا ء کی سرزمین اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت و تحفظ کی بجائے اپنے مفادات کے تحفظ میں لگے ہیں، اب تک مسئلہ فلسطین کے حوالے سے جتنے بھی معاہدے ہوئے ان میں اس سرزمین کے اصل وارثوں کے حقوق کو نظر انداز کردیاگیا،قتل عام اور مظالم آج تک جاری ہیں بلکہ اس میں تیزی آگئی، ناجائز بستیاں بسانے کا سلسلہ تھم نہ سکا، انسانی حقوق کی پامالیاں تواتر سے جاری ہیں،فلسطینیوں کو پیس کر رکھ دیا گیا ہے وہ انتہائی درجے کے مظلوم ہیں ان حالات میں اسرائیل اور فلسطین کے مابین کوئی معاہدہ کرا دیا گیا تو وہ ظالم اور پسے ہوئے مظلوم کے درمیان ہوگا۔ تو ایسے حالات میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کاتصور تو کیا سوچنا بھی عبث ہے۔