۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مولا علی

حوزہ/آپ کی محبت صحیفہ مومن کا عنوان اور حلال زادے ہونے کی علامت ہے، اگر تمام انسان اپنی زبان سے آپ کی مدح و ثنا کریں تب بھی آپ کی مدح کے پہلے حرف سے زیادہ بیان نہیں سکتے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی| حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد اشرف کلمات الہیہ، اکبر آیات ربانیہ، ادل دلایل جامعہ، اتم براہین ساطعہ، وسایل کافیہ، مظھر عجائب، معدن غرائب شخصیت حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام ہیں، آپ ما فوق بشریت کی جملہ عظمتوں کے مالک، ان سے برتر اور کے خلیفہ برحق ہیں۔ آپ کی محبت صحیفہ مومن کا عنوان اور حلال زادے ہونے کی علامت ہے، اگر تمام انسان اپنی زبان سے آپ کی مدح و ثنا کریں تب بھی آپ کی مدح کے پہلے حرف سے زیادہ بیان نہیں سکتے۔ 

جیسا کہ مسلمانوں کے درمیان میں معتبر اور مشہور روایت ہے کہ رسول اعظم، عقل کل، خاتم رسل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ نے آپ کی  تعریف و تمجید میں فرمایا کہ آپ حق اور قرآن کے ساتھ ہیں اور حق اور قرآن آپ کے ہمراہ ہے۔ ان میں ایسا اتصال ہے کہ افتراق ممکن نہیں، کبھی خود مولا علی (علیہ السلام) سے فرمایا : "وَ الَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَوْ لَا أَنْ‏ تَقُولَ‏ طَوَائِفُ‏ مِنْ‏ أُمَّتِی‏ فِیکَ مَا قَالَتِ النَّصَارَى فِی ابْنِ مَرْیَمَ لَقُلْتُ الْیَوْمَ فِیکَ مَقَالًا لَا تَمُرُّ بِمَلَإٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ إِلَّا أَخَذُوا التُّرَابَ مِنْ تَحْتِ قَدَمَیْکَ لِلْبَرَکَهِ" اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر (اس بات کا خطرہ لاحق نہ ہوتا کہ) میرے امت کے کچھ لوگ (تمھارے سلسلہ میں) وہی نہ کھ دیں جو نصاری نے عیسی بن مریم کے سلسلہ میں کہا ہے تو میں تمہارے ایسے فضایل بیان کرتا کہ کوی مسلمان تمھارے سامنے سے نہ گذرتا مگر یہ کہ وہ تمہارے قدموں کی خاک کو برکت کے لئے اٹھا لیتا۔ (۱) 

کبھی اپنی معجز بیان اور حق ترجمان زبان سے فرمایا : "لَوْ أَنَّ الْبَحْرَ مِدَادٌ وَ الْغِیَاضَ أَقْلَامٌ وَ الْإِنْسَ‏ کُتَّابٌ‏ وَ الْجِنَّ حُسَّابٌ مَا أَحْصَوْا فَضَائِلَکَ یَا أَبَا الْحَسَنِ" اے علی! اگر تمام سمندر روشنای، درخت قلم، انسان لکھیں اور جنات گنیں تب بھی تمھارے فضائل کو شمار نہیں کر سکتے۔ (۲)

یا پرچم اسلام کی بلندی اور حق کی پاسبانی میں اس عظیم مجاہد راہ خدا کی ایک میدان جہاد (جنگ خندق) میں ایک ضربت کو جن و انس یا تمام امت کی عبادت سے افضل بتایا۔ دوسرے آپ کی مدح میں کیا بیان کر سکتے ہیں؟ جب کہ سب کے سب درخشندہ خورشید محمدی اور احمد مرسل صلی اللہ علیہ و آلہ کے اقیانوس علم کے سامنے ایک ذرہ بلکہ اس سے بھی کم ہیں۔ 

حقیقت یہ ہے کہ ان جملات و کلمات کہ جو انتیس حروف سے زیادہ نہیں ان کے ذریعہ اللہ کے اس عظیم اور مخلص بندے کہ جس کی خود خدا نے بہت سی آیات قرآن کے ذریعہ فضائل اور عظمتوں کو بیان کیا اور مدح و ستائش کی ہو وہ دوسروں کے لئے ممکن نہیں۔ 

آپ کی جو شایستہ مدح و تعریف ہے کہ آپ عظیم امام، رہبر موحدین، پیشواے مجاہدین، زاہدوں اور عادلوں کے سردار اور امیرالمومنین ہیں جسکی جانب حضور سرور انبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ نے بہت واضح انداز میں اشارہ فرمایا۔ 

اور یہ مختصر جملہ "إحتیاجُ الکُلِّ إلَیْهِ وَ إسْتِغْنائُه عَنِ الکُلِّ دَلیلٌ عَلى أنَّه إمَامُ الکُلِّ" سب آپ کے محتاج اور آپ سب سے بے نیاز ہیں اور اسکی دلیل یہ ہے کہ آپ سب کے امام ہیں۔ (۳) آپ کی مدح سرای کی گئی اور آپ کے کلام کے سلسلہ میں کہا گیا: "کلامُهُ دُونَ کَلامِ الخَالِقِ وَ فَوْقَ کَلامِ الْمَخْلُوقینَ" آپ کا کلام خالق کے کلام سے نیچے اور مخلوق کے کلام سے بلند ہے۔ (۴) سب نے (اپنے لحاظ سے) آپ کی ایک منقبت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ 

اگرچہ چودہ صدیوں سے علماء اور حکما آپ کے فضائل بیان کر رہے ہیں۔ کیوں کہ آپ کا علم، فضیلت، زھد، عدل اور آپ کے انسانی کمالات قابل تعریف ہیں۔ مستقبل میں آنے والے بھی آپ کی مدح سرای کریں گے۔ 

بے شمار قصاید و اشعار اور ہزاروں کتابوں اور مقالات جو اس عظیم شخصیت اور انسان اکمل کی حیات طیبہ کی تشریح کی خاطر لکھے گئے اور سب نے داد و تحسین کی پھر بھی پہلے کی طرح متکلمین اور متفکرین کے کلام کے لئے راہ ہموار بلکہ پہلے سے زیادہ ہموار ہے۔ 
جیسا کہ احادیث شریف میں آیا ہے کہ علی علیہ السلام ایک معجزہ ہیں جو اللہ نے اپنے رسول خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ کو عطا فرمایا ہے اور یہ ایسا معجزہ ہے جو گذشتہ انبیاء کے معجزات سے عظیم اور زیادہ حیرت انگیز ہے۔ مناسب ہے کہ اس مقام پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس حدیث کو بیان کروں۔ "الصُّورَهُ الإنْسَانِیَّهُ هِیَ أکْبَرُ حُجَجِ اللهِ عَلى خَلْقِهِ وَ هِیَ الکِتابُ الَّذی کَتَبَه بِیَدِهِ وَ هِیَ الهَیْکَلُ الّذی بَناهُ بِحِکْمَتِهِ وَ هِیَ مَجْمُوعُ صُوَرِ العَالَمینَ وَ هِیَ المُخْتَصَرُ مِنَ العُلُومِ فی اللَّوحِ الْمَحْفُوظِ" (۵) علی علیہ السلام جیسی شخصیت کے ذریعہ یہ بیان واقع اور حقیقت ہوتا ہے۔ 
بس مناسب یہی ہے کہ زمین ادب کا بوسہ لوں، آپ اور حضرت صاحب الزمان ولی عصر اولی الامر مولانا المھدی ارواح العالمین لہ الفداء تک آپ کے تمام فرزندان کی ولایت کی نعمت پر اللہ کی حمد و شکر کروں۔ اور ان ایام میں جب تمام شیعہ مولای متقیان امیرالمومنین علیہ السلام کی شھادت کے سبب سوگوار ہیں تو زیادہ سے زیادہ نورانی علوی معارف و تعلیمات خصوصا نہج البلاغہ کے سلسلہ میں ہمت کریں اور دنیا والوں کو آپ کی حیات بخش تعلیمات سے آشنا کریں۔ 

حوالہ 

1و2. بحار الأنوار، جلد ‏۴۰، باب ۹۱، حدیث 114.
3. بغیه الوعاه سیوطی، صفحه ۲۴۳؛ تنقیح المقال مامقانی، جلد ۱، صفحه ۴۰۲، شماره 3769.
4. شرح نهج البلاغه ابن أبی‌الحدید، جلد ‏۱، صفحه 24.
5. به نقل از تفسیر صافی، ذیل آیه ۲ سوره بقره

مرجع عالی قدر حضرت آیت اللہ العظمی آقای شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی دام ظلہ 

ترجمہ : سید علی ھاشم عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .