حوزہ نیوز ایجنسی | آیۂ بلغ کے نزول پر حضرت نے جناب امیرؑ کے لئےـ’ من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘ فرمایا اور اس فرمان کے بعد آیۂ اکملت اتری ۔ لہذا ضرورت ہے کہ ذہن ’ من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘ کے بارے میں صاف رہیں کیونکہ لفظ مولیٰ کے بہت سے معنی ہیں اور ہر معنی کا مراد لیا جانا ممکن ہے شیعہ کہتے ہیں کہ جس طرح نبی روحانی پیشوا ہونے کے علاوہ دنیا میں بھی مسلمانوں کے حاکم اور سربراہ تھے اسی طرح آپ کے بعد علیؑ مسلمانوں کے روحانی پیشوا اور حاکم ہیں اور پیغام غدیرمیں حضورؐ نے حضرت علیؑ کے اسی حق حکومت کا اعلان فرمایا تھا۔ اگر شیعوں کی یہ بات سچی ہو تو خلافت ابو بکر و عمر وغیرہ باطل ہے اور ان خلافتوں کا ماننے والاسنی مذہب بھی باطل ہے۔ لہذا ضرورت ہے کہ لفظ مولیٰ کے معنی معلوم ہوں۔ تمام کتابیں متفق ہیں کہ حضورؐ نے غدیر میں مولیٰ کے استعمال سے پہلے مسلمانوں سے پوچھا تھا کہ :
" مومنین کی جان اور زندگیوں پر مومنین کا حق ہے یا میرا ؟ اور مسلمانوں نے بلا اختلاف کہا تھا۔ ہماری جان پر آپ کا حق ہے نہ کہ ہمارا۔ اس سوال اور اقرار کے بعد آپ نے فرمایا تھا جس کا میں مولاہوں علیؑ بھی اس کے مولا ہیں۔ مسند احمد ابن حنبل۴ ، !۲۸ صواعق محرقہ ابن حجر مکی۲۵ باب ۱ مطبوعہ میمینہ مصر۔
معلوم ہوا کہ آنحضرتؐ نے مولیٰ کے لفظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے معنی پہلے بتلائے اور لفظ مولیٰ اس کے بعد استعمال کیا۔ یعنی جسے مومنین کی جان پر مومنین سے زیادہ حق ہو وہ مولیٰ ہوتا ہے اور اسی معنی سے نبیؐ اور علیؑ مولیٰ ہیں۔ جان اور زندگی پر زندگی والے سے زیادہ کون حق رکھتا ہے اسے اس قانون کی روشنی میں معلوم کیجئے جسے ہمیشہ سے تمام اقوام عالم کی حکومتوں نے تسلیم کیا ہے اور جسے ہر مذہب کے ضابطہ اخلاق کی تائید حاصل ہے۔ یعنی خودکشی کرنے کی اجازت نہ کسی مذہب نے دی ہے نہ کسی قانون نے نہ کسی ضابطہٗ اخلاق نے بلکہ خودکشی کرنے والے کو اقوام عالم مجرم قرار دیتی ہیں اور حکومتیں خودکشی کرنے والے کو سزا دیتی ہیں۔ اگر زندگی اس کی اپنی ملکیت ہوتی جس کی زندگی ہے تو اسے اپنی زندگی دینے کا حق ہوتا جس طرح ہم اپنی ہر ملکیت کے بارے میں خود مختار ہیں۔ اس کے برخلاف حکومت کا خودکشی کرنے میں مداخلت کرنا اور سزا دینا بتاتا ہے کہ زندگی ، ہماری ملکیت نہیں ہے بلکہ حکومت کی ملکیت ہے اور خودکشی کرنے والامجرم قرار پاتا ہے لہذا مستو جب سزا ہے۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ جان زندگی کا مالک صرف حکومت ہوتی ہے تو رسولؐ کے سوال کا مطلب یہی تھا کہ تم مجھے مومنین کا حاکم مانتے ہو یا نہیں مسلمانوں نے اقرار کیا آپ ہمارے حاکم ہیں اقرار کے بعد رسولؐ کے ارشاد کا مطلب واضح ہے کہ :
" جس طرح میں مومنین کا حاکم ہوں اسی طرح علیؑ بھی مومنین کے حاکم ہیں "۔
لہذا مومنین کی جماعت میں صرف وہی شامل ہو گا جو نبیؐ کے بعد علیؑ کو حاکم تسلیم کرے گا اب اگر کوئی دوسرا حاکم بنتا ہے یا ہم اس کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں۔۔۔۔تو ہم سب ناحق اور باطل پر ہیں۔ حق پر صرف وہی ہے جو علیؑ کو بعد نبیؐ بلا فصل حاکم تسلیم کرتا ہے۔
واضح حق
اگر غدیر میں لفظ مولیٰ کے معنی حاکم کے علاوہ کچھ اور ہوتے تو حضرت علیؑ کو منصب یا عہد نہ ملتا تو حضرت عمر حضورؐ کے اعلان من کنت مولاہ کے بعدخصوصی مبارکباد نہ دیتے اور تمام اصحاب حتیٰ کہ ازواج پیغمبرؐ آپ کو مبارکباد نہ دیتیں۔ حالانکہ حضورؐ کے اعلان کے بعد۔
" حضرت عمر نے حضرت علیؑ کو مبارکباد دی کہ آج تم ہم مومن و مومنہ کے مولیٰ (حاکم) ہو گئے اور یہی مبارکباد اصحاب اور ازواج نے بھی دی ۔" ملاحظہ ہو مسند احمد ابن حنبل ج۔۴ص۔۲۸۱
مخالفتِ علیؑ کی حد
واقعہ غدیر سچا تھا اور حضرت علیؑ کا حق حکومت واقعہ تھا۔ مگر سچی بات کے جھٹلانے والے اور وفات پیغمبرؐ کے بعد سقیفہ نبی ساعدہ سے حکومت و خلافت شروع کرنے والوں کے مخالف طرز عمل کو واقعہ ٔغدیر کو غلط ثابت کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ کہ اگر حضورؐ نےعلیؑ کی خلافت بتائی ہوتی تو مسلمان کیوں نہ مانتے اور مسلمانوں نے نہیں مانا لہذا حضورؐ نے خلافت علیؑ کا حکم ہی نہیں دیا تھا۔ صرف ایک فریب ہے جس میں مسلمانوں کے ذہنوں کو مبتلا کر کے ان کو حق سے ہٹایا جا رہا ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جن لوگوں نے حضورؐ کے حکم خلافت علیؑ کو نہیں مانا ان کو نہ مانا جاتا اور کہا جاتا کہ انھوں نے حکم رسولؐ نہیں مانا لہذا یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کو مانا جائے لیکن اس کے بر خلاف صورت حال یہ ہے کہ ان مخالفین حکم رسولؐ کو بہر صورت مان لیا گیا ہے لہذا کہا جاتا ہے کہ انھوں نے خلافت علیؑ کو نہیں مانا کیونکہ رسولؐ نے حکم ہی نہیں دیا تھا اور اس جھوٹ کو سچ کے مقابلہ میں پیش کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ رسولؐ حکم دیں اور مسلمان خصوصاً اصحاب کبار حکم رسولؐ نہ مانیں "۔ لیکن آیۂ بلغ جس کے نازل ہونے پر حضورؐ نے خلافت علیؑ کا حکم مسلمانوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس آیت کا ایک فقرہ آج بھی اس بات کا گواہ اور ضامن ہے کہ مسلمان اور اصحاب کبار حضورؐ کے غدیری حکم ماننے والے نہ تھے۔ کیونکہ آیت کا آخری فقرہ ہے۔ وَ اللہُ یَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (رسولؐ حکم خلافت علیؑ) پہنچا دو دشمنوں سے ہم تمھاری حفاظت کریں گے۔ یہ حکم صرف مسلمانوں کے سامنے پیش ہوا تھا اور مسلمانوں سے متعلق تھا مگر اس حکم کے پہنچانے میں رسولؐ کو اپنی جان کا خطرہ تھا اور اتنا سخت خطرہ کہ خدا وعدہ حفاظت کر رہا تھا معلوم ہوا اگر مسلمان یہ حکم ماننے والے ہوتے تو حکم پہنچانے والے رسولؐ کے لئے حکم پہنچانے میں خطرہ نہ ہوتا۔ خطرہ نہ ہوتا تو خدا حفاظت کا انتظام نہ کرتا۔ بلکہ خطرہ تھا اور صرف مسلمانوں سے خطرہ تھا کیونکہ خلافت علیؑ کے مخالف ، غیر کیوں ہوتے انھیں اس مسئلہ سے کیا سروکار تھا البتہ بعد نبیؐ حکومت کرنے کے خواہش مند مسلمان خلافت علیؑ کے مخالف تھے نہ صرف مخالف بلکہ دشمن ، نہ صرف علیؑ اور ان کے حق خلاف کے دشمن بلکہ اگر رسولؐ حکم خلافت علیؑ بحکم خدا بھی پہنچائیں تو یہ مخالف اور دشمن ، نبیؐ کی جان کے دشمن ہو جائیں اور اگر خدا حفاظت نہ کرے تو حضورؐ کو قتل کر دیں۔ ان حالات کا تقاضہ یہی تھا کہ بعد نبیؐ ، علیؑ کو ان کا حق حکومت و خلافت نہ ملے اور نہیں ملا۔ لوگ کہتے ہیں کیسے ممکن ہے کہ رسولؐ کہیں اور مسلمان و صحابۂ کبار نہ مانیں۔ میں پوچھتا ہوں یہ کیسے ممکن ہے مسلمان اور صحابہ کبار رسولؐ کے دشمن ہو جائیں۔ مگر یہ ممکن نہیں بلکہ واقعہ تھا جس کا گواہ قرآن ہے تو حضورؐ کے بعد جناب امیرؐ کو خلافت نہ ملی تو حالات ہی کہہ رہے تھے کہ نہ ملے گی البتہ اگر مل جاتی تو حیرت ہوتی۔ اگر مل جاتی تو لوگ سوچ سکتے تھے کہ رسولؐ کے اثرات نے علیؑ کو خلافت دلوادی۔ مگر ۲۵ سالہ تین خلافتوں کے باوجود ۳۵ ھ میں علیؑ کو خلافت ملی تو صرف یہ علیؑ کے اثرات تھے۔ خلافت ملی تھی یا تاریخ کا عظیم معجزہ ، ہو رہا تھا۔ حق واضح ہے۔ جس کا جی چاہے اپنی آنکھ کے ساتھ عقل و ہوش و دیانت کو بھی بند کر لے۔
فیصلہ کیجئے
کہا جاتا ہے اگر حضرت علیؑ کی خلافت بلا فصل مان لی جائے تو بڑے بڑے صحابہ بلکہ وفات پیغمبرؐ کے بعد سے اب تک کے مسلمانوں کی بڑی تعداد کو گمراہ اور دوزخی ماننا پڑے گا اور جنتی صرف شیعہ قرار پائیں گے جن کی تعداد آج بھی بہت کم ہے اور ماضی میں تو بہت ہی کم تھی لہذا یا اکثریت کو دوزخی مانا جائے اور علیؑ کو خلیفہ بلافصل مانا جائے۔ یا خلافت بلا فصل علیؑ سے انکار کیا جائے اور اسلام کی اکثریت اور بڑے بڑے مسلمانوں اور صحابہ کبار کو جنتی مانا جائے لہذا اسلام کی اکثریت اور صحابہ کبار کی حمایت کا تقاضہ یہی ہے کہ " خلافت بلا فصل " کے عقیدے سے انکار کیا جائے۔ مسئلہ اگر سیاسی ہوتا تو مذکورہ بالاحساب کی بڑی قیمت تھی لیکن مسئلہ دینی ہے۔لہذا مصالح ومفادافراد کے بجائے حقیقت کا سامنا کرنا ، حق کی پیروی کرنا ضروری ہے مذکورہ بالامخالفین ’’خلافت بلا فصل علیؑ ‘‘کا کہنا ہے کہ اس عقیدے کو ماننا مسلمانوں کی بڑی تعداد اور عظیم اکثریت کودوزخی ماننا اور صرف ایک فرقہ شیعہ کو جنتی ماننا ہے۔ ہم کو تسلیم ہے کہ صورت حال یہی ہے مگر تمناؤں سے صورت حال نہ بدلتی ہے نہ بدلی جا سکتی ہے آیئے نبیؐ سے معلوم کر لیں کہ مسلمانوں کی اقلیت و اکثریت میں کون دوزخ میں جائے گا اور کون جنت میں ؟ تو حضورؐ فرمائیں گے میں نے تو اقلیت و اکثریت کے طبقات تقسیم سے قبل خبر دی تھی جس کا حوالہ نقل کیا جا چکا ہے کہ :
’’میرے بعد مسلمانوں میں ۷۳ فرقے ہوں گے جن کی عظیم اکثریت ۷۲ فرقے دوزخ میں جائیں گے اور معمولی اقلیت صرف ایک فرقہ جنت میں جائے گا۔‘‘
کیا مسلمان تیار ہیں کہ ارشاد پیغمبرؐ کی روشنی اور تاریخ کے آئینہ میں فیصلہ کریں کہ :
’’ اکثریت میں کون تھا اور ہے اور اقلیت میں کون اور قیامت کے دن اقلیت کہاں ہو گی اور اکثریت کہاں۔‘‘
ہائے اس زودپشیماں کا پشیماں ہونا
نبیؐ کو مانئے یا خلفاء کو
حضورؐ کی وفات کے بعد سقیفہ نبی ساعدہ میں ابو بکر خلیفہ بنے انھوں نے اپنے بعد عمر کو بنایا اور آپ کی مقرر کردہ مجلس شوریٰ نے علیؑ کی مخالفت کر کے عثمان کو خلیفہ بنایا۔ ان کے بعد عہد معاویہ سے’’ ترکی خلافت‘‘ تک صرف دنیاوی حکومت تھی خلافت ان سے پہلے ختم ہو گئی تھی یہ ہے مسئلہ خلافت کا وہ خلاصہ جس پر سنی مذہب کی بنیاد ہے۔
اور اس خلافت کی بنیاد ہے کہ’’ حضورؐ نے اپنی زندگی میں کوئی خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا بلکہ مسئلہ خلافت امت کے طے کرنے کے لئے چھوڑا تھا۔‘‘ مگر حضورؐ نے اپنی تبلیغ کے آغاز کے دن اپنی پہلی تقریر میں دعوت ذو العشرہ میں خلافت ، علیؑ کے حوالہ کر دی تھی۔ تفصیل درج ذیل ہے۔
تین سالہ مخفی تبلیغ کے بعد۔
’’جب حضورؐ کو حکم ہوا کہ کھلی تبلیغ کریں اور سب سے پہلے اپنے قرابتداروں میں اظہار تبلیغ کریں تو حضرت کے حکم سے حضرت علیؑ نے بنی عبد المطلب کو مدعو کیا جو چالیس آدمی تھے۔ پہلے دن ابو لہب نے تقریر پیغمبرؐ سے مجمع کو یہ کہہ کر بھڑکایا اور اٹھایا کہ محمدؐ جادو کر رہے ہیں کیونکہ کھانا کم تھا۔ حضرت نے پہلے اسے چکھ کر کہا بسم اللہ کھاؤ اور کھانا اتنا رہا کہ سب لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔ دوسرے دن حضورؐ کے حکم سے حضرت علیؑ نے پھر سامان ضیافت کیا اور سب لوگ جمع ہوئے۔ حضورؐ نے تقریر فرمائی کہ اے لوگو ! میں خیر دنیا و آخرت ( اسلام) تمھارے پاس اپنے خدا کے حکم سے لایا ہوں۔ تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میرا شریک ہو کر میرا بھائی ، وصی اور تم میں میرا خلیفہ ہو۔ باوجود کمسنی کے حضرت علیؑ نے مدد کا وعدہ کیا۔ حضورؐ نے جناب امیر کی گردن پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔’’یہ میرا بھائی ، وصی اور تم میں میرا خلیفہ ہے اس کی اطاعت تم پر فرض ہے۔‘‘مجمع مذاق اڑاتا ہوا کھڑا ہوا اور جناب ابو طالب سے کہا :’’یہ تم کو بیٹے کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں ۔‘‘
(کنزالعمال ج۔۶ ،کتاب الفضائل، باب فضائل علیؑ ،ص۳۹۷ مطبوعہ دائرہ المعارف النظامیہ حیدر آباد ۱۳۱۴ ،ابو الفدا جلد۔۱،ص ۱۱۷،۱۱۶ مطبوعہ الحسینیہ مصریہ تاریخ کامل جلد۔۲ص۔۲۲ تاریخ طبری جلد ۲،ص ۲۱۷ مطبع حسینیہ مصر)
مذکورہ بالا واقعہ کے بعداگر خلفاء بر حق تھے تو رسولؐ نے وقت وفات انتخاب خلیفہ کا حق امت کو دیا تھا مگر آپ حق انتخاب امت کو تب دے سکتے تھے جب علیؑ کے حق کی خلاف ورزی کرتے کیونکہ نصرت نبوت کے وعدہ پر علیؑ کو ذو العشیرہ میں خلیفہ بنا چکے تھے۔ اور علیؑ حق نصرت ادا کر چکے تھے۔ لہذا بات اس منزل پر آ جاتی ہے کہ خلفاء برحق ہوں تو حضورؐ کام نکل جانے کے بعد علیؑ کو ان کا حق دینے اور اپنا وعدہ پورا کرنے کے بجائے حق تلفی فرمائیں یا حضورؐ کا دامن حق تلفی اور وعدہ کی خلاف ورزی کے عیب سے پاک مانا جائے جیسا کہ ہر عیب سے پاک ہے تو خلفاء ناحق۔ غاصب باطل قرار پاتے ہیں لہذا مسلمان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ نبیؐ کو پاک کردار کا مانے یا خلیفہ کو حق مانے۔ ہم کو تو اسلام حضورؐ کے قدموں سے ملا ہے۔ کسی دوسرے کی ہمیں کیا فکر۔
از قلم: بانی تنظیم خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ
ماخوذ از مقالات خطیب اعظم جلد ۲ صفحه ۹
ناشر: تنظیم المکاتب لکھنو