تحریر: مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی
حوزہ نیوز ایجنسی | ایک طرف پوری دنیا میں کرونا وبا پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے کام کاج، مذہبی رسومات اور فردی و اجتماعی زندگی متاثر ہو رہی ہے دوسری طرف ایام عزا جیسے جیسے قریب آرہے ہیں مؤمنین کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ پيامبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشادفرمایا: انَّ لِقَتْلِ الْحُسَيْنِ عليه السّلام حَرارَةً فى قُلُوبِ الْمُؤ منينَ لا تَبْرَدُ اَبَداً امام حسین علیہ السلام کے قتل کی گرمی اور حرارت مؤمنین کے دلوں میں ہے جو (کسی بھی ماحول اور حالات میں) ہرگز ٹھنڈی نہیں ہوسکتی۔ (جامع احادیث شیعہ، ج 12، ص 556)
ان حالات میں ایک طرف طبی حکام اور ذمہ دار افراد کی تاکید ہے کہ سماجی دوری کا خیال کیا جائے دوسری طرف مؤمنین معمول کے مطابق عزاداری کرنے کی خواہش کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ مشکل امر بنا ہوا تھا لہذا نجف اشرف کی انجمنوں کے سربراہ حضرات نے باب مدینۃ العلم پر رہنے والے نائب امام عصر کی طرف رجوع کیا اور ان کی خدمت میں بسم اللہ اور سلام کے بعد کرونا وبا اور ذمہ دار حضرات کی طرف سے سماجی دوری کی تاکید کا ذکر کرتے ہوئے تحریری صورت میں سوال کیا:
ماہ محرم قریب ہے اور کرونا وباء ابھی بھی موجود ہے ذمہ دار افراد کی تاکید ہے کہ لوگ ایک جگہ اکٹھا ہونے سے پرہیز کریں بالخصوص بند جگہوں پر اکٹھا نہ ہوں جبکہ بہت سے لوگوں کی خواہش ہے کہ معمول کے مطابق عزاداری کی جائے اس لئے مؤمنین عزاداری امام حسین علیہ السلام سے متعلق سوال کر رہے ہیں آپ سے متمنی ہیں کہ اس حوالے سے مومنین کی رہنمائی فرمائیں آپ کے شکر گزار ہوں گے-نجف اشرف کے مومنین کا ایک گروہ۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ سیستانی صاحب نے اس مشکل کا حل نکالتے ہوئے جواب میں بسم اللہ کے بعد تحریر فرمایا: السلام علی الحسین وعلی اولاد الحسین وعلی اصحاب الحسین و رحمت اللہ وبرکاتہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت اسلام اور مسلمانوں کے لئے درد ناک اور عظیم مصیبت ہے۔ (جس کو قیامت تک بھلایا نہیں جا سکتا)
کربلا کے شہداء پر عزاداری کرنے اور رسول خدا اور آل رسول کو پرسہ دینے کے مختلف طریقے ہیں: (آیت اللہ سیستانی صاحب پر لاکھوں سلام ہوں ابھی تک دنیا سمجھ رہی تھی کہ اس بار عزاداری نہیں ہوگی اور اگر ہوئی بھی تو نہ ہونےکے برابر ہوگی مگر آپ نے اپنے جواب سے ہر گھر کو عزا خانہ اور اس میں رہنے والے افراد کی ایک انجمن بنا دی اور اسی انجمن میں سےایک یا اس سے زیادہ کو خطیب اور نوحہ خوان بنے کی طرف توجہ دلائی اس سال جس پیمانہ پر عزاداری ہوگی کہ جس کی تاریخ کے دامن میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، تاریخ میں یہ تو ملتا ہے کہ عزاداری کو جب بھی روکنے کی کوشش کی گئی اتنا ہی عزاداری کو فروغ ملا اور اس سال بھی ایسا ہی لگ رہا ہےکہ ہر سال سے زیادہ عزاداری ہوگی) آپ نے سال رواں میں عزاداری کرنے کے جو طریقے بتائے ہیں وہ ذیل میں ذکر کر رہے ہیں:
پہلا طریقہ: ٹیلیویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے لائیو طور پر مجالس و عزاداری منعقد کی جائے اور اس کام کے لیے دینی اور تہذیبی خدمات کرنے والے ادارے اچھے خطیب اور نوحہ خواں حضرات کے ساتھ رابطہ کریں اور مومنین کو بھی ترغیب دلائیں کہ اپنے گھر اور اس جیسی جگہوں پر مجلس اور نوحہ سنیں اور اس سے مثاب ہوں۔
اس طریقہ میں انجمنوں اور امامبارگاہوں کے سربراہان کی ذمہ داری کو روشن کردیا کہ وہ پڑھے لکھے اور سمجھدارخطیب اور اچھے نوحہ خواں کو دعوت دیں اور مومنین کو بھی اپنےاپنے گھروں پرمجلس اور نوحہ سننے کی ترغیب دلائیں۔
دوسرا طریقہ: روزانہ خاص اوقات پریعنی وقت کی پابندی سے گھروں میں مجلس برپا کی جائے اس طرح سے کہ گھر کے افراد یا وہ لوگ جو ان کے گھر رفت و آمد میں ہیں اس میں شرکت کریں اور عزاداری کے پروگرام گر چہ ٹیلیویژن پر لائیو یا انٹرنیٹ کے ذریعے آ رہے ہیں بیٹھ کر سنیں، لیکن عمومی مجلسوں میں تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ رعایت کی جائیں اس معنی میں کہ سماجی دوری رکھی جائی، ماسک اور وائرس پھیلنے سے روکنے کے لئے دیگر اشیاء کا استعمال کریں اور اس مورد میں ضروری ہے کہ ذمہ دار افراد کی طرف سے جتنے افراد کو اجازت دی گئی ہو اتنے ہی پر اکتفا کریں البتہ یہ موضوع جگہ کے کھلے ہونے یا بند ہونے یا مختلف علاقوں میں وائرس کے پائے جانے کے لحاظ سے فرق کرتا ہے۔
اس طریقہ میں آپ نے چند نکات روشن کیے ہیں: ہرگھر میں خاص وقت پر عزاداری کا برپا ہونا گھر کے افراد یا جن لوگوں کے ساتھ رفت و آمد ہے کے ساتھ عزاداری کرنا، اگر گھر کے لوگ خود نوحہ مجلس نہیں پڑھ سکتے تو وہ ٹیلیویژن پر لائیو یا انٹرنیٹ پر آنے والے پروگرام کو بیٹھ کرسنیں، اگر عمومی مجالس کی کہیں اجازت ہے تو جتنے افراد کی اجازت دی گئی ہو اتنے ہی لوگ شرکت کریں اور تمام احتیاطی تدابیر کی رعایت کرنا ضروری ہے البتہ جگہ اور وائرس کے لحاظ سے موضوع فرق کرتا ہے۔
تیسرا طریقہ: ایام عزا کا پیغام پہوچانے کے لیے سیاہ پرچم، علم مبارک زیادہ سے زیادہ چوراہے،راستے ،سڑکوں اور گلیوں میں لگائیں اور تقسیم کریں البتہ اس چیز کی رعایت کرتے ہوئے کہ کسی کی ذاتی ملکیت اور مال میں تصرف نہ کریں اور اپنے ملک کے قوانین کی پیروی کرتے ہوئے اس کام کو انجام دیں، البتہ مناسب ہے کہ ان تبرکات پر امام حسین علیہ السلام کے اقوال اور آپ کے غم میں چنندہ اشعار وغیرہ لکھے جائیں۔مجلس کے تبرکات خاص طور پر صاف صفائی اوراحتیاط کے ساتھ تقسیم کیے جائیں گر چہ اس چیز کی رعایت کرنے میں آپ کو خشک تبرکات تہیہ کرنا پڑے یا بھیڑ جمع ہونے کےاندیشہ کی وجہ سے لوگوں کے گھروں تک تبرک پہنچانا پڑے۔
اس طریقہ میں واضح کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سیاہ پرچم اور علم مبارک لگائیں جائیں اور اس کام میں کسی کی ملکیت میں تصرف نہ کیا جائے، اپنے ملک کے قوانین پر عمل کرنا لازم ہے، سیاہ پرچموں پر امام علیہ السلام کے اقوال یا ان کی شان میں چنندہ اشعار تحریر کیے جائیں تاکہ لوگوں کو ان کی معرفت ہو سکے، مجلس میں تقسیم ہونے والے تبرکات میں تمام احتیاطی تدابیر کا خیال رکھا جائے،اگر بھیڑ جمع ہونے کا خطرہ ہو تو اس سے بچنے کے لئے تبرک مؤمنین کے گھروں تک پہنچایا جائے اور مؤمنین بھی صبر سے کام لیں۔
خدا وندمتعال ہم سب کو حالات کے تقاضے کے لحاظ سے اس اہم مناسبت(ایام عزاء )کو فروغ دینے اور عزاداری امام حسین علیہ السلام کرنے کی توفیق عنایت فرماے، انہ ولی التوفیق۔ آپ نے اپنے ان دعایہ کلمات سےواضح کر دیا کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اللہ کی دی ہوئی توفیق ہے جس کو اللہ توفیق دیتا ہے وہ ہی اس میں حصہ لیتا ہے۔ ،۹ذی الحجہ۱۴۴۱ہجری، دفتر مرجع تقلید آقای سیستانی دام ظلہ نجف اشرف۔ آخر میں دعا ہے کہ پالنے والے آیت اللہ العظمی سیستانی صاحب کو صحت و سلامتی عطا فرما آمین والحمد للہ رب العالمین۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔