۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
ڈاکٹر پیام اعظمی

حوزہ/ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور حق کی گواہی دینا تو اسلام کے خمیر میں شامل ہے ۔ مگر اس کا طریقہ بھی اسلام ہی سے سیکھنا چاہیئے ۔ 13 سال تک مکّے میں اور اس کے بعد بھی کفار و مشرکین مسلسل فخر موجودات کی توہین کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں اور پیغمبرؐ کے اہل بیتؑ اور اصحاب صبر و استقلال کے ساتھ تعلیمات قرآن اور اخلاق محمدیؐ پر عمل کرکے اس کا جواب دیتے رہے ۔ کفّار جتنی توہین کرتے رہے اتنا ہی آفتاب رسالت کی چمک میں اضافہ ہوتا گیا ۔ 

تحریر: ڈاکٹر پیام اعظمی

حوزہ نیوز ایجنسیجس طرح آفتاب کے چہرہ روشن پر تھوکنے کی کوشش کرنے والا حقیقتاً خود اپنے ہی منھ پر تھوکتا ہے۔ اور چمکتے ہوئے چاند پر مٹی پھینکنے کی سعی رائگاں کرنے والا خود اپنے ہی چہرے پر خاک ڈالتا ہے ۔
اسی طرح ابو لہب سے لے کے رشدی تک اور ابوجہل سے لے کے ڈنمارک کے خاکہ نگاروں تک، ان چودہ سو برسوں کے درمیان چودہ ہزار بار ضرور "عظمت رسولؐ" کو مجروح کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہوگی اور صداقت پیغمبرؐ کی نا قابل رسائی بلندی پر کیچڑ اچھالنے کی سعی نامشکور عمل میں آئی ہو گی ۔ کتابیں بھی لکھی گئیں ۔ الزامات بھی لگائے گئے ۔ نقلیں بھی اتاری گئیں ۔ خاکے بھی کھینچے گئے ۔ مگر قدرت نے رحمت عالم کی توہین کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کیا ۔ اور انجام کار انہیں ہمیشہ کے لئے ذلت کے گڑھوں میں دفن کردیا ۔ کارٹون بنانے والوں کے پورے وجود کا کارٹون بنا کے لعنت کے اندھیروں میں دھکیل دیا ۔
اور۔۔۔۔۔ فخر موجودات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں کا "پرچم بلند" صدیوں سے لہرا رہا ہے ۔ ان چودہ صدیوں میں نہ جانے باطل کی کتنی آندھیاں چلیں "کذب و ریا" کے کتنے طوفان آئے، کتنے سیاسی زلزلے آئےخود۔۔۔۔۔۔۔ نام نہاد مسلمانوں نے غیروں کا آلہ کار بن کے اس آئینہ عظمت پر اپنی حماقتوں اور جہالتوں کے دھبے ڈالنے کی کوشش کی ۔ جھوٹے محدثین اور جعلساز روایت نگاروں نے من گڑھت افسانے اس کی مقدّس ذات سے منسوب کردیئے ۔ شاطران سیاست نے خود کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے جھوٹے اقوال اس سے وابستہ کر دیئے مگر اس کے پرچم عظمت کو کوئی جنبش بھی نہ دے سکا ۔
مکّے کی پہاڑیوں میں بلند ہونے والی "اَشْهَدُ اَنَّ محمداً رَسُوْل اللّہ" کی "صدائے عظمت" پورے عالم انسانیت کو اپنے دامن میں سمیٹ چکی ہے ۔ ایک مسجد میں اذان ختم نہیں ہونے پاتی کہ دوسری مسجد میں شروع ہوجاتی ہے ۔ ایک ہی وقت میں کہیں صبح کا مؤذّن اس نام کی عظمت و جلالت کا اعلان کر رہا ہے تو ٹھیک اسی وقت کسی دوسرے ملک میں ظہر و عصر کا مؤذّن اسی کلمہ عظمت کو دہرا رہا ہے ۔ اور کسی تیسری سرزمین پر مغربین کی اذان گونج رہی ہے ۔ کرہ ارض پر کوئی ایسا لمحہ نہیں آتا جو اس نام کی صدائے باز گشت سے محروم رہ جائے اور ہوا کی کوئی لہر ایسی نہیں گزرتی جو اس ذکر کی خوشبو سے معطر نہ ہوسکے ۔
اس لئے کہ اس کائنات کے مالک نے "ورفعنا لک ذکرک" کہکے عظمت رسولؐ کی حفاظت کا کام خود اپنے ذمہ لے لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ کوئی بدبخت توہین رسالت میں کامیاب ہوجائے ؟
اس نے یہ کام مسلمانوں کے حوالے کب کیا ہے؟ اس نے تو مسلمانوں کو صد فی صد اطاعت رسولؐ کا حکم دیا ہے ۔ یعنی اطاعت مسلمانوں کا کام ہے اور ناموس رسولؐ کی حفاظت اللہ کا کام ہے ۔
ہمیشہ سے یہ مسلمانوں کی بد نصیبی رہی ہے کہ وہ رسولؐ کے اطاعت گزار بن جانے کے بجائے عظمت رسولؐ کے محافظ ہونے کے دعویدار بن گئے ۔ دوسرے لفظوں میں مسلمان بننے سے پہلے محافظ اسلام بن گئے اور یہ بھول گئے کہ اس نے حفاظت اسلام کی ذمہ داری ہمیں نہیں سونپی ہے، بلکہ ہمیں پورا پورا اسلام میں داخل ہو جانے کا حکم دیا ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ کو جس سے حفاظت کا کام لینا تھا لے چکا، اب اسلام اور عظمت پیغمبر اسلامؐ کو دنیا کی کوئی طاقت مجروح نہیں کر سکتی ۔
یہ بھی یاد رکھئے! کہ توہین رسالت کا گھناؤنا عمل ہمیشہ انسانی سماج کے پست ترین طبقے کے ذلیل ترین لوگ انجام دیتے رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی خود ان کے اپنے سماج میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ ورنہ ساری دنیا کے صاحبان فکرونظر جو اپنی قوم اور اپنے ملک کا دماغ سمجھے جاتے ہیں اور اپنی نسل کی علمی نمائندگی کرتے ہیں وہ لوگ مسلمان نہ ہونے کے باوجود ہمیشہ عظمت پیغمبرؐ کی بارگاہ میں عقیدتوں کا خراج پیش کرتے رہے ہیں ۔
خود ہمارے اپنے وطن کے غیر مسلم شاعروں نے بارگاہ پیغمبرؐ میں جس قدر نعتوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اگر وہ سب اکٹھا کر کے شائع کر دی جائے تو کئی ہزار زخیم کتابیں عالم وجود میں آ جائیں۔۔۔۔۔۔۔ اور سنجیدہ صاحبان دانش نے ہمیشہ پیغمبر اکرمؐ کی عظمتوں کا اعتراف کیا ہے ۔ یہی حال مغربی قوموں کے نمائندہ افراد کا رہا ہے ۔ رسولؐ نہ ماننے کے باوجود ہر دور کے صاحبان نظر اس بارگاہ عظمت میں خراج عقیدت پیش کرتے رہے ہیں ۔ ابھی ماضی قریب میں شائع ہونے والی مائیکل ہارٹ کی کتاب تاریخ کے سو بڑے آدمی (The Hundred) جو مغربی فکر کی نمائندگی کرتی ہے ۔ جس میں پوری تاریخ انسانی سے سو (100) عظیم ترین انسانوں کا انتخاب کیا گیا اور ان سو عظیم انسانوں میں سب سے عظیم انسان ہمارے نبیؐ کریم فخرموجودات، رحمت اللعالمین کو قرار دیا گیا ۔ حضرت موسیؑ اور حضرت عیسیؑ علیہ السلام کو آپ کے بعد رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ غیر مسلم دنیا کی طرف سے مسلمانوں کے پیغمبرؐ کے خیرالبشر ہونے کا اعتراف ہی تو ہے ۔
توہین پیغمبرؐ کی جسارت ہمیشہ خبیث الفطرت بازیگران سیاست کرتے ہیں ان کا مقصد مسلمانوں کو ورغلانا، جذباتی بنا کے اور ہیجان میں مبتلا کر کے ان کی توانائیوں کو ضائع کرنا ہوتا ہے ۔ اور وہ بھی جانتے ہیں کہ ہم اس آفتاب عظمت کو بال برابر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ افسوس کہ خود مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے نکل آتے ہیں جو ان کی سلگائی ہوئی آگ میں اپنی روٹیاں سینکنے لگتے ہیں اور مسلمان ہوش حواس سے بیگانہ ہو کے اندھے جذبات کے ہاتھوں خود اپنا نقصان کرنے لگتے ہیں اپنی ہی گاڑیاں پھوکنے لگتے ہیں، اپنا ہی گھر جلاتے ہیں اور اپنی جانیں دے دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور لاشعوری طور پر شاطران سیاست کا مقصد پورا کر دیتے ہیں ۔ اور ایسا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں جو خود ان کی بدنامی کا سبب بنتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے واقعات پر احتجاج نہ کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور حق کی گواہی دینا تو اسلام کے خمیر میں شامل ہے ۔ مگر اس کا طریقہ بھی اسلام ہی سے سیکھنا چاہیئے ۔ 13 سال تک مکّے میں اور اس کے بعد بھی کفار و مشرکین مسلسل فخر موجودات کی توہین کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں اور پیغمبرؐ کے اہل بیتؑ اور اصحاب صبر و استقلال کے ساتھ تعلیمات قرآن اور اخلاق محمدیؐ پر عمل کرکے اس کا جواب دیتے رہے ۔ کفّار جتنی توہین کرتے رہے اتنا ہی آفتاب رسالت کی چمک میں اضافہ ہوتا گیا ۔
عہد اموی میں تقریباً نصف صدی تک مولائے متقیان کی توہین کی جاتی رہی اور مسلسل ہزاروں منبروں سے دشنام طرازی ہوتی رہی اور غلامان حیدر کرار جذبات میں بہنے کے بجائے علوی اخلاق و کردار سے لوگوں کے ضمیر کو آواز دیتے رہے یہاں تک کہ خود اس حکومت کو اس کا احساس ہو گیا کہ ہم علیؑ کی توہین کے نام پر خود اپنا منھ چڑھا رہے ہیں ۔ علیؑ کی عظمت کا آفتاب بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے اور ہم ضمیر انسانی کی بارگاہ میں ذلیل ہوتے جا رہے ہیں ۔ بالآخر حکومت اموی کو فیصلہ کرنا پڑا کہ اس عمل قبیح کو قانوناً بند کر دینا چاہیئے ورنہ علیؑ کی عظمت بڑھتی جائے گی اور ہم خود اپنے منھ پر تھوکتے رہیں گے ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .