۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 361861
7 اگست 2020 - 12:57
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/راہ مولا پر چلنے کے لئے ضروری ہے کہ کمزور و ضعیف طبقہ کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور ان لوگوں پر توجہ دی جائے جو کسی بھی سبب معاشرہ میں تنہا رہ گئے ہیں اور ضعیف و ناتواں ہیں۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | ہر قوم اور ہر مذہب میں ایک ایسا بڑا دن ضرور ہوتا ہےجو کسی بڑے واقعہ کی یادگار قرار پاتا ہے اس دن خاص پروگرام ہوتے ہیں، ایسے دن کی تجلیل و ہر قوم و مذہب میں ہوتی ہے جس کے ذریعہ کسی قوم و مذہب کی تاریخ میں ایک بڑا فیصلہ کن موڑ آیا ہو۔ دین اسلام میں بھی ایسے بہت سے یادگار واقعات ہیں جن میں یا تو کسی خاص سبب اللہ نے انہیں عید قرار دیتے ہوئے اس میں خوشی منانے اور مخصوص عبادتوں کو انجام دینے کا حکم دیا ہے یا پھر خود پروردگار نے انعام و اکرام کے طور پر اسے عید قرار دیا ہے، جیسے عید سعید فطر رب العزت کی طرف سے اپنے ان بندوں کو ایک تحفہ ہے جنہوں نے پورے ایک مہینہ اللہ کی عبادت و بندگی میں گزارا اسی طرح اگر بڑے واقعہ کی مناسبت کو دیکھا جائے تو عید قربان کو عید قرار دیا گیا ہے چنانچہ روایات میں ایسے بڑے ایام اور یادگار دنوں کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے جو کسی نہ کسی سبب مالک حقیقی کے نزدیک پسندیدہ ہیں حتی ان ایام کے بارے میں ہے کہ یہ خدا کے حضور روز قیامت ویسے ہی جائیں گے جیسے عروس نو حجلہ عروسی کی طرف جاتی ہے۔ (1) لیکن اسلام میں جو مرتبہ عید غدیر کو حاصل ہے وہ کسی کو حاصل نہیں اور چونکہ اس دن حضور سرورکائنات نے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیر المومنین علیہ السلام کو اپنا جانشین و خلیفہ مقرر کیا تھا جسکی بنیاد پر اسلام ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا اسی سبب اس دن کو عید قرار دیا گیا۔(2) بلکہ یہ عید سب سے بڑی عید ہے اور روایات میں  اس دن کو عید اکبر (3) کہا گیا ہے اور سب سے افضل عید (4) کے طور پر پہچنوایا گیا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس عید کی فضیلت کو سمجھتے ہوئے یہ دیکھا جائے کہ اس عید میں ہمیں کیا کرنا چاہیئے تاکہ اس عید کی عظمت کے ادراک کے ساتھ ساتھ ہم وہ سب کر سکیں جس کا اس دن ہم سے مطالبہ و تقاضا کیا گیا ہے۔

خوشی و مسرت کیساتھ حمد و شکر الٰہی بجا لانے کا دن:

یہ وہ دن ہے جب ہم سے مطالبہ کیا گیا کہ خوش رہیں اور خوشی کا اظہار کریں۔ (5)  ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹیں کہ پروردگار نے ہمارے اوپر احسان کیا اور نعمت ولایت کو ہمیں عطا کیا۔ عید غدیر اتنی بڑی عید ہے کہ پروردگار کی خاص طور پر حمد بجا لانے کی روایات میں تاکید کی گئی ہے اور اسکا شکر ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ یقینا اگر اس نے ہمیں اس ولایت کی عظیم نعمت سے نہ نوازا ہوتا تو ہم کہاں ہوتے، نہیں معلوم کس راہ پر چل رہے ہوتے کچھ پتہ نہیں۔ اس لئے یہ دن خاص کر شکر و حمد الٰہی بجا لانے کا دن ہے اور شکر و حمد الٰہی کا ایک طریقہ روزہ رکھنا ہے جس کی اس دن بہت تاکید کی گئی ہے۔ (6) روزہ رکھنا وہ عمل ہے جس کے لئے صرف ہم سے ہی مطالبہ نہیں ہے بلکہ انبیاء کرام و اصیاء الٰہی بھی اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ (7) یہ دن انکے عمل کی تاسی کا دن بھی ہے، اسلئے کہ یہ دن ان کے لئے بھی عید کا دن تھا۔

آسمانی عید:
یہ وہ عید ہے جس کے لئے روایات میں ملتا ہے کہ زمین سے زیادہ آسمانوں میں اس کی بات ہے۔ (8) یہ عید زمین پر بھلے ہی مظلوم واقع ہو لیکن آسمانوں پر اس کی شہرت کہیں زیادہ ہے، اور آسمانوں میں زمین سے زیادہ اسکی اہمیت کا ہونا اس بات کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے کہ اس آسمانی عید کو چھوٹے چھوٹے مسائل میں گھیر کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہرگز قربان نہیں کرنا چاہیئے۔

عہد و پیمان کی عید:

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں، یہ عید اتنی بڑی عید ہے کہ اس میں گشایش و وسعت حاصل ہوئی، منزلت کو اوج ملی خدا  کی حجتیں روشن اور اس کے براہین و واضح ہو گئے یہ وہ دن ہے جب دین الٰہی کامل ہوا یہ دن عہد و پیمان کا دن ہے۔ (9)

تابندہ و روشن اور بابرکت عید:

روز غدیر، عید فطر، عید اضحٰی، جمعہ کا دن ایسے ہی ہے جیسے ستاروں کے دیگر کواکب کے درمیان درخشاں چاند (10) اتنا ہی نہیں اس دن کی اتنی فضیلت ہے کہ روایتوں کے بموجب اگر ہم اس کی اہمیت کو سمجھ لیتے تو دن میں دس بار ملائک ہم سے مصافحہ کرتے۔ (11) یعنی اس دن کی فضیلت کو سمجھنے کی بناء پر ہمارے وجود میں اتنا نکھار آ جاتا ہے کہ ملائک بھی ہم سے مصافحہ کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ یہ عید اس قدر برکت کی حامل ہے کہ اس میں مومنین کی تنگیاں دور ہوتی ہیں ان کے امور حل ہوتے ہیں، معاملات میں گشایش حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اس عید کی برکتوں کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ظرف وجودی کو اتنا وسیع بنائیں کہ اس کی برکات سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے، خاص کر ضروری ہے کہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اس دن سختی و تنگی کے ساتھ پیش نہ آئیں تاکہ خدا بھی ہمارے ساتھ وسعت و بخشش سے پیش آئے اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کے لئے ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس دن اپنے اہل و عیال کے ساتھ فراخ دلی سے پیش آؤ (12) اس دن کی برکتوں ہی کے پیش نظر کھانا کھلانے اور دوسروں کو ہدیہ و تحفہ و تحائف دینے کی تاکید کی گئی ہے(13) ایک دوسرے کی دیکھ بھال اور مومنین کی کفالت کا بھی اس دن سے گہرا تعلق ہے لہٰذا کوشش کرنا چاہیئے کہ اس دن کسی تنگدست کا ہاتھ تھام لیا جائے کسی کی کفالت کر لی جائے۔(14) کہ عید اکبر سے بڑھ کر اور کونسا دن لوگوں کی امداد رسی کے لئے بہتر ہوگا کہ اس دن ایک درہم اگر اللہ کی راہ میں دیا جائے تو وہ ہزارکے برابر ہے (15)۔

اپنے امام سے تجدید بیعت کا دن:

چونکہ اس عید کو تجدید بیعت و عہد کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے (16) لہٰذا ضروری ہے تمام شیعان حیدر کرار اس عظیم دن جمع ہو کر اپنے آقا و مولا کے حضور تجدید بیعت کریں اور عہد کریں کہ اسی راہ پر زندگی گزاریں گے جو مولا کا راستہ ہے اور اسی راہ پر چلیں گے جسے راہ علوی کہا جاتا ہے  اب یہ ہر ایک مومن کے اوپر ہے کہ وہ اپنے مولا سے کیا عہد و پیمان کرتا ہے، زندگی کی کامیابی سے لیکر قوم  و معاشرہ کی ترقی میں حصہ لینے اور بے نقص و عیب زندگی گزارنے تک کا عہد ہم اپنے مولا سے اس دن کر سکتے ہیں اور یقینا اگر ہم نے یہ عہد کیا تو ہمارے مولا ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے بلکہ ہر اس جگہ ہمارا ہاتھ تھامیں گے جہاں ہمارے پیروں میں لغزش ہو۔ راہ مولا پر چلنے کے لئے ضروری ہے کہ کمزور و ضعیف طبقہ کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور ان لوگوں پر توجہ دی جائے جو کسی بھی سبب معاشرہ میں تنہا رہ گئے ہیں اور ضعیف و ناتواں ہیں اور شاید اسی لئے اس دن سب سے مسکرا کر ملنے، سلام کرنے اور فقیروں کی ضرورت کو پورا کرنے اور ایک دوسرے کو ہدیہ دینے  پر زور دیا گیا ہے (17) تجدید عہد کو یادگار بنانے کے لئے ہی شاید یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ جب مومنین ایک دوسرے سے ملیں تو ایک دوسرے کو تہنیت و مبارکباد پیش کریں (18) تاکہ جب وہ مبارکباد پیش کریں تو ان کے ذہن میں رہے کہ جس ولایت کا ہم جشن منا رہے ہیں اور اسکی تہنیت و مبارکباد پیش کر رہے ہیں اس کے ہم سے تقاضے کیا ہیں۔

ایک دوسرے سے ملاقات اور مبارکباد دینے کا دن:

یوں تو اسلام کے اکثر و بیشتر اراکین و اعمال میں اجتماعی پہلو غالب ہے وہ نماز جماعت ہو کہ نماز جمعہ ہو، مسجد میں نماز کی فضیلت ہو کہ حج کی نورانی فضا، ہر ایک جگہ خاص اہتمام ہے کہ مومنین ایک دوسرے سے ملیں اسی طرح مختلف اعیاد میں بھی ایک دوسرے سے ملاقات کو مطلوب و مناسب قرار دیا گیا ہے لیکن عید غدیر میں یہ ایک خاص اہتمام ہے کہ  ایک دوسرے سے متبسم ہو کر ملنا خندہ روئی کے ساتھ گلے لگنا اور عید کی مبارک باد دینا اس دن بہت اہم جانا گیا (19) بلکہ خاص کر اس دن کو یوم تبسم  قرار دیا گیا ہے۔ (20) مومن کا ایک دوسرے سے ملنا اتنی فضیلت کا حامل ہے کہ حدیث میں ہے کہ ایک مومن اگر اس دن کسی مومن کے گھر جاتا ہے تو خدا ستر انوار سے اسکی قبر کو منور کرےگا۔ نماز، روزہ اور نیکیوں کے ذریعہ قرب الہی کو حاصل کرنے کا دن قرار دے(21) کر روایات نے ہمیں اس کی عظمت و فضیلت کی طرف  متوجہ کیا ہے۔

عید غدیر  پر ہماری بڑی ذمہ داری:

یقینا عید غدیر کے تمام اعمال و تمام تر عبادتیں بہت اہم ہیں، جنہیں ہم سب کے لئے بجا لانا اس لئے ضروری ہے کہ آج ہمارے پاس جو کچھ بھی دولت ایمان ہے، جو کچھ بھی شعور انسانیت ہے، زندہ احساس ہے سب غدیر کے طفیل ہے ایسے میں ان عبادتوں کے ساتھ ساتھ غدیر کا تقاضا ہے کہ عالم اسلام میں رونما ہونے والے واقعات کے سلسلہ سے ہم اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور جہاں کہیں بھی مسلمانوں کو ستایا جا رہا ہے ان پر ظلم ہو رہا ہے ہم اسکی مخالفت کریں اور مظلوموں کا ساتھ دیں آج یمن کے جو حالات ہیں جس طرح معصوم بچوں کو وہاں پر بڑی طاقتوں کی ایماء پر کچھ مسلمان حکومتیں نشانہ بنا رہی ہیں، یہ سب وہ باتیں ہیں جنکے بارے میں ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ 
 ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے غدیری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے دنیا بھر  میں ہونے والے  ظلم  و ستم کے خلاف، یمن میں انسانیت کے قتل عام کے خلاف ،ہندوستان کی بعض  مختلف ریاستوں میں اکثریتی طبقے کی جانب  سے  وہاں کے قانونی اقلیت پر عرصہ حیات تنگ کر دیئے جانے کے خلاف،  دامے درہمے جو بھی ہو سکے اقدام کریں، سوشل میڈیا پر اپنے اپنے طریقہ سے دنیا میں ہونے والے ظلم کے خلاف لوگوں کو متحد کریں اور جہاں لوگ پریشانیوں میں گھر ے ہیں اور قدرتی آفات کی چوٹ سے باہر نہیں آ سکے ہیں، ان سب کی امداد کے سلسلہ سے ایک بیدای کی مہم چلائیں، ہندوستان جیسے ملک میں تمام ہی ادیان و مذاہب کے صلح پسند افراد کے ساتھ مل کر دنیا کے ظالمین کے  خلاف خاص کر یمن پر مسلسل بم برسانے والے بہروپیوں کے خلاف احتجاج کریں کہ یہ غدیر کا ہم سے اولین مطالبہ ہے ۔ انشاءاللہ عید اکبر کے جشن کے ساتھ ساتھ ہم دیگر اعمال و عبادتوں کی انجام دہی کے ہمراہ ہم لبنان و فلسطین  کے مظلوم عوام ، یمن کے معصوم بچوں اور غزہ کے محصور باشندوں کو فراموش نہیں کریں گے کہ اس عید  کا سب سے بڑا مطالبہ انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے-
 
ستم کوئی بھی کرے وہ عدو غدیر کا ہے 
کسی کے زخم سے ٹپکے لہو غدیر کا ہے 
 
حواشی:

1۔ قال ابو عبد الله (ع): اذا کان يوم القيامة زفت اربعة يام الى  الله عز و جل کما تزف العروس الى خدرها: يوم الفطر و يوم الاضحى و يوم الجمعةو يوم غدير خم۔ ( اقبال سيد بن طاووس:466
2۔ روى زياد بن محمد قال: دخلت على ابى عبد الله (ع) فقلت :للمسلمين عيد غير يوم الجمعة والفطر والاضحى؟
 قال: نعم، اليوم الذى نصب فيه رسول الله (ص) اميرالمؤمنين (ع)۔ مصباح المتهجد:736، قيل لابى عبدالله (ع) للمؤمنين من الاعياد غير العيدين و الجمعة؟ قال: نعم لهم ما هو اعظم من هذا، يوم اقيم اميرالمؤمنين (ع) فعقد له رسول الله الولية فى اعناق الرجال والنساء بغدير خم۔ ( وسائل الشيعه، 7: 325، ح .5 )

3۔ عن الصادق(ع) قال: هو عيد الله الاکبر، و ما بعث الله نبيا الا و تعيد فى هذا اليوم و عرف حرمته و اسمه فى السماء يوم العهد المعهود و فى الارض يوم الميثاق الماخوذ و الجمع المشهود. وسائل الشيعه، 5: 224، ح 1۔

4۔ يوم غدير خم افضل اعياد امتى و هو اليوم الذى امرنى الله تعالى ذکره فيه بنصب اخى على بن ابى طالب علما لامتى، يهتدون به من بعدى و هو اليوم الذى کمل الله فيه الدين و اتم على امتى فيه النعمة و رضى لهم الاسلام دينا۔ (امالى صدوق: 125، ح .8)

5۔ قال ابو عبد الله (ع): انه يوم عيد و فرح و سرورو يوم صوم شکرا لله تعالى۔ (وسائل الشيعه 7: 326، ح .10)

6۔ قال ابو عبد الله (ع)... هو يوم عبادة و صلوة و شکر لله و حمد له، و سرور لما من الله به عليکم من ولايتنا، و انى احب لکم ان تصوموه۔ (وسائل الشيعه 7: 328، ح .13)

7۔ ... تذکرون الله عز ذکره فيه بالصيام والعبادة و الذکر لمحمد و آل محمد، فان رسول الله (ص) اوصى اميرالمؤمنين ان يتخذ ذلک اليوم عيدا، و کذلک کانت الانبياء تفعل، کانوا يوصون أوصيائهم بذلک فيتخذونه عيدا۔ (وسائل الشيعه 7: 327، ح .1)

8۔ قال الرضا (ع): حدثنى ابى، عن ابيه (ع) قال: إن يوم الغدير فى السماء اشهر منه فى الارض۔ (مصباح المتهجد )

9۔ امام على (ع): إن هذا يوم عظيم الشأن، فيه وقع الفرج، ورفعت الدرج و وضحت الحجج و هو يوم اليضاح والافصاح من المقام الصراح، و يوم کمال الدين و يوم العهد المعهود ... ( بحارالانوار ، 97: 116)

10۔ قال ابو عبدالله (ع) :... و يوم غدير بين الفطر والاضحى و يوم الجمعة کالقمر بين الکوکب۔ (اقبال سيد بن طاووس: .466 )

11۔ والله لو عرف الناس فضل هذا اليوم بحقيقته لصافحتهم الملائکة فى کل يوم عشر مرات ...و ما اعطى الله لمن عرفه ما ليحصى بعدد۔ ( مصباح المتهجد : .738 )

13۔... و انه اليوم الذى اقام رسول الله (ص) عليا (ع) للناس علما و ابان فيه فضله و وصيه فصام شکرا لله عزوجل ذلک اليوم و انه ليوم صيام و اطعام و صلة الاخوان و فيه مرضاة الرحمن، و مرغمة الشيطان۔ (وسائل الشيعه 7: 328، ضمن حديث .12)، و تهابوا النعمة فى هذا اليوم ۔۔۔، امرنى رسول الله (ص) بذلک۔ (وسائل الشيعه 7: .327)

14۔ عن امير المؤمنين (ع) قال: فکيف بمن تکفل عددا من المؤمنين والمؤمنات و أنا ضمينه على  الله تعالى الامان من الکفر والفقر (وسائل الشيعه 7: .327)۔

15۔... و لدرهم فيه بألف درهم لإخوانک العارفين، فأفضل على اخوانک فى هذا اليوم  و سر فيه کل مؤمن و مؤمنة۔ (مصباح المتهجد: .737)

16۔ عن عمار بن حريز قال دخلت على ابى عبد الله (ع) فى  يوم الثامن عشر من ذى الحجة فوجدته صائما فقال لى: هذا يوم عظيم عظم الله حرمته على المؤمنين و کمل لهم فيه الدين و تمم عليهم النعمة و جدد لهم ما أخذ عليهم من العهد و الميثاق۔ (مصباح المتهجد: .737)

17۔ ... اذا تلاقيتم فتصافحوا بالتسليم و تهابوا النعمة فى  هذا اليوم، و ليبلغ الحاضر الغائب، والشاهد البين، وليعد الغنى الفقير و القوى على الضعيف امرنى رسول الله (ص) بذلک۔ (وسائل الشيعه 7: .327)

18۔ قال على (ع) عودوا رحمکم الله بعد انقضاء مجمعکم بالتوسعة على عيالکم، والبر باخوانکم و الشکر لله عزوجل على ما منحکم، و اجتمعوا يجمع الله شملکم، و تباروا يصل الله الفتکم، و تهانؤا نعمة الله کما هنا کم الله بالثواب فيه على أضعاف الاعياد قبله و بعده الا فى مثله ... (بحارالانوار 97: .117 )۔

19۔ عن على بن موسى الرضا (ع): من زار فيه مؤمنا أدخل  الله قبره سبعين نورا و وسع فى قبره و يزور قبره کل يوم سبعون ألف ملک و يبشرونه بالجنة۔ (اقبال الاعمال: .778)

20۔ عن الرضا (ع) قال:... و هو يوم التهنئة يهنئ بعضکم بعضا، فاذا لقى المؤمن أخاه يقول:« الحمد لله الذى جعلنا من المتمسکين بولية أمير المؤمنين و الائمة (ع)» و هو يوم التبسم فى وجوه الناس من اهل الايمان ... (اقبال: .464)

21۔ ينبغى لکم ان تتقربوا الى الله تعالى بالبر و الصوم و الصلوة و صلة الرحم و صلة الاخوان، فان الانبياء عليهم السلام کانوا اذا اقاموا اوصياءهم فعلوا ذلک و امروا به۔ ( مصباح المتهجد:.736)

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .